• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈھاکہ یونیورسٹی ، اس کا شعبہ اردو اور اس کے سربراہ ڈاکٹرعندلیب شادانی کی کتابیں بظاہر ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ کے ساتھ ہی ڈوب گئی تھیں،ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کسان کانفرنس کرانے والے مولانا بھاشانی نے جب ایک بیان میں مغربی پاکستان کو الوداع کہا تھا تو ہم جیسے ازلی پرامید بھی بجھ کے رہ گئے عسکری شکست کے بعد ہماری پسپائی اور مسلسل معافی تلافی کے دور میں کچھ وقفہ آیا جب اسلامی سربراہ کانفرنس لاہور میں ہوئی اور پھر ذوالفقار علی بھٹو بنگلہ دیش کے دورے پر فیض احمد فیضؔ کو ساتھ لے گئے مگر پھر لگا کہ بھارتی وزیر اعظم صاحبہ نے جو کہا تھا کہ ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا تو شاید ایک ہزار میل کا فاصلہ کئی لاکھ میل ہو گیا اور اردو زبان کو تو ہمیشہ کے لئے وہاں سے دیس نکالا مل گیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب محترمہ حسینہ واجد نےہمارے دوست احمد سلیم کو ایک ایوارڈ دینے کیلئے بلایا اور ہماری ایک شاگردِ عزیز ڈاکٹر حمیرا اشفاق وہاں گئیں تو ان سے کرید کرید کے پوچھا کہ جو ریاض انور نے ’’آوازوں کا بھنور‘‘ لکھا،مسعود اشعر نے ’’آنکھوں پر دونوں ہاتھ‘‘،ڈاکٹر ارشد خانم نے عندلیب شادانی (پریم پجاری)پر جو لکھا، ڈاکٹر شاہد اقبال کامران اور لطیف عارف کے ساتھ ان کی بیوہ نے نظیر صدیقی پر جو لکھا، ناصر کاظمی نے وہاں کے مانجھیوں کی تصویر کی تحلیل پر جو شعر کہے، کوئی ان کو یاد بھی کرتا ہے؟ کسی دل میں ہمارے دل کیلئے بھی کسک ہوتی ہے احمد سلیم تو بہت بلند ’ نہیں ‘ کے ساتھ دل توڑ دیتے تھے البتہ حمیرا شاید ہمارا دل رکھنے کو کہہ دیتی تھی کہ ڈھاکہ میں اقبال کے حوالے سےکوئی بورڈ دیکھا تھا جہاں نذرالاسلام اور اقبال کی مماثلت پر کسی سیمینار کا پوسٹر بھی اس نے دیکھا تھا۔’اللہ میگھ دے‘کے مصنف طارق محمود نے جب اپنا دوسرا ناول لکھنا شروع کیا اور انہی کی طرح ڈھاکہ یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس کرنے والے اظہار الحق کی آپ بیتی شائع ہوئی تو ہم تلاش کرتے رہے کہ کوئی تجدید تعلق کا امکان ہے کہ چٹا گانگ،سلہٹ کے ساتھ پٹ سن کا سنہری ریشہ اور چائے کے باغوں کی مہک طالب علمانہ یادداشت سے نکلتی نہیں اور پھر ڈھاکہ یونیورسٹی کے وہ نوجوان بے قابو ہوئے جو بنگ بندھو کے شیدائی تھے اور پھر اس رہنما کی بیٹی کو جان بچانے کیلئے بھارت میں پناہ لینا پڑی اور پھر سوشل میڈیا پر انجمن ترقی اردو پاکستان کے وفد ڈاکٹر فاطمہ حسن ،ڈاکٹر یاسمین فاروقی اور سید عابد رضوی کی ڈھاکہ میں پذیرائی کی تصویریں شائع ہوئیں انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سیمینار کا ذکر کیا جہاں اقبال اور نذرالاسلام کی شاعری کا تقابل ہوا اور جہاں انجمن کی اردو مطبوعات کا تحفہ بھی پیش کیا گیا۔ یہی نہیں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے فیصل آباد کے ڈاکٹر طارق ہاشمی نے تو سوشل میڈیا پر اپنی تصویروں کے ذریعے دعویٰ کیا کہ وہ خلیج بنگال میں ڈوبنے والے چاند سورج بھی نکال لائے ہیں،اب جہاں یہ اچھی اچھی خبریں ہیں وہاں پھر وانا کے کیڈٹ اسکول کے بچوں پر خود کش حملے نے اداس کر دیا ہے۔اس طرح کے کیڈٹ اسکول ہماری فوج نے بلوچستان ،سندھ اور خیبر پختون خوا میں قائم کئے ہیں اس پروپیگنڈے کے جواب میں کہ پاکستان کی فوج کا بڑا حصہ پنجاب کا ہے میرے علم میں ہے کہ ہمارے ہاں پری کیڈٹ اسکولوں کی ایک کھیپ ہےجہاں والدین بہت امنگوں سے لائق بچوں کو داخل کراتے ہیں اور بہت خوش ہوتے ہیں جب وہ ٹیسٹ پاس کرکے کیڈٹ اسکول میں جاتے ہیں۔ ہماری پوری قوم کو آرمی پبلک اسکول پشاور کا سانحہ نہیں بھول سکتا جب معصوم بچوں کو بچانے کی کوشش میں ان کے استادوں نے بھی جانیں دیں اسی قسم کی قیامت برپا کرنے کی کوشش وانا میں بھی ہوئی مگر ہماری افواج کی مداخلت نے اسلام کا نام بدنام کرنے والوں کی سازش ناکام بنا دی۔اس موقع پر میجر عمران رضا کا لکھا ترانہ جب بچے پڑھتے ہیں تو حقیقت میں ایک ولولہ پیدا ہوتا ہے

بڑا دشمن بنا پھرتا ہے،جو بچوں سے لڑتا ہے

اس مرتبہ تو وانا اور اسلام آباد کی کچہری کے خودکُش حملوں نے سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کے خاندان کے اراکین کو بھی پریشان کر دیا اور امکان پیدا ہو گیا کہ یہ دورہ مختصر ہو جائے مگر ہماری قوم سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کی بہت ممنون ہے کہ اس سے پہلے بھی اس ٹیم کو براہِ راست نشانہ بنایا گیا تھا جس کے بعد ایسا لگتا تھا کہ ہمارے بچوں کے لئے کھیلوں کے میدان اجڑ جائیں گے مگر وہ ہمت کرکے پاکستان کی امنگوں کا ساتھ دیتے ہیں اور ہم دہشت گردی کے خلاف جو جنگ لڑ رہے ہیں وہ اس میں ہمارا ساتھ دیتے ہیں،بتانے کی ضرورت ہے کہ کون چاہتا ہے کہ پاکستان کھنڈر بن جائے،پارلیمنٹ ،صحافت اور آئین بھی نہ رہے۔پاکستان کی بیٹی ملالہ نے اپنے قلم اور زبان سے جنگ لڑ کے بچیوں کے مدرسوں کو بموں سے اڑانے والوں کا مقابلہ کیا۔اس جنگ میں ہماری کشور ناہید نے بھی لازوال نظم لکھی

وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے؍وہ جو علم سے بھی گریز پا؍کریں ذکر رب کریم کا؍وہ جو حکم دیتا ہے علم کا/کریں اس کے حکم سے ماورا یہ منادیاں؍نہ کتاب ہو کسی ہاتھ میں؍نہ ہی انگلیوں میں قلم رہے/وہ یہیں کہیں ہیںقریب میں؍انہیں دیکھ لو انہیں جان لو؍نہیں ان سے کچھ بھی بعید،شہرِ زوال میں؍وہ ہیں کتنے چھوٹے وجود میں

ہمیں ماننا چاہئے کہ ہمارے ہاں بھی بہت سے دھاگے الجھے ہوئے ہیں کچھ قیدی ہیں جن کو قومی مجرم نہ بنانا چاہئے نہ سمجھنا چاہئے ۔ستائیسویں آئینی ترمیم پر بھانت بھانت کی آوازیں آ رہی ہیں مگر یہ بھی ہماری قومی جدوجہد کے سفر کا ایک نشان ہے جس سے جمہوریت کے دو بڑے ستون پارلیمنٹ اور عدلیہ مضبوط ہوں گے وہی مقبول سیاسی قیدی سے بھی مکالمہ کر سکیں گے وہ مکالمہ جو خود کُش حملہ آوروں کا مقابلہ کر سکتا ہے اور تاریخ کا پہیہ الٹا گھمانے والوں کابھی۔

تازہ ترین