ہماری آبادی کا بڑا حصہ چونکہ نوجوان طبقے پر مشتمل ہے اسلئے ہمیں اس ہیومن کیپٹل پر سرمایہ کاری کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری غیر معمولی طور پر نوجوان آبادی، بہتری کی جانب گامزن ڈیجیٹل انفراسٹرکچر، مواصلات کا معیاری نظام اور جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا و مشرق وسطیٰ کو آپس میں ملانے والے اسٹرٹیجک جغرافیہ کے ساتھ پاکستان کو عالمی سرمایہ کاری کے لیے ایک انتہائی پرکشش مقام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم اس حوالے سے دستیاب مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہمیں ملک میں سازگار سرمایہ کاری کا ماحول فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ طویل مدتی پالیسی پر مستقل مزاجی سے عملدرآمد کی ضرورت ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آج پاکستان میں ہر تین میں سے دو پاکستانیوں کی عمر 30 سال سے کم ہے۔ اس افرادی قوت کو اگر مناسب طریقے سے تربیت یافتہ اور ہنرمند افرادی قوت میں تبدیل کر لیا جائے تو پاکستان نہ صرف اندرون ملک درکار ہنرمند افرادی قوت کی ضرورت پوری کر سکتا ہے بلکہ ہنرمند افراد کو بیرون ملک بالخصوص دوست ممالک میں ملازمت کے مواقع فراہم کرکے قابل قدر زرمبادلہ بھی حاصل کر سکتا ہے۔ قابل تشویش بات تویہ ہے کہ اس وقت نوجوان طبقے کی بڑی تعدادبےروزگار ہے اور انکے پاس کوئی ہنر بھی موجود نہیں کہ جس کی مدد سے وہ اپنے لئے باعزت طور پر روزگار کما سکیں۔ علاوہ ازیں جو نوجوان اعلیٰ ڈگریوں کے حامل ہیں انکی اکثریت بھی اپنے اپنے شعبے میں اس قابلیت سے محروم ہے جس کی موجودہ عہد میں ضرورت ہے۔ اسلئے ہمارا یہ یوتھ کیپٹل ہر گزرتے دن کے ساتھ ریاست کے سماجی و اقتصادی بوجھ میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
محکمہ شماریات اور ورلڈ بینک کے اعداد وشمار بھی اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ افرادی قوت ملک کی مجموعی آبادی کا 56 فیصد ہے۔ اسلئے ہمیں اپنی افرادی قوت کو جلد از جلد ہنرمند، تعلیم یافتہ اور باصلاحیت بنانے کیلئے وسیع پیمانے پر تربیتی ادارے اور انفراسٹرکچر تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں پبلک پرائیویٹ ماڈل پر عمل پیرا ہو کر مختصر عرصے میں نمایاں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس طرح نوجوان طبقے پر مشتمل آبادی کے بڑے حصے کو ملک کی ترقی کیلئے کارآمد بنایا جا سکتا ہے اور انہیں اپنی توانائی غیر ضروری یا مجرمانہ سرگرمیوں میں ضائع کرنے سے بھی بچایا جا سکے گا۔ علاوہ ازیں یہ اقدام عالمی سرمایہ کاری کو پاکستان کی جانب راغب کرنے میں بھی مدد دے گا کیونکہ زیادہ تر عالمی ادارے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے اس لئے گریز کرتے ہیں کہ یہاں انہیں درکار معیار کی افرادی قوت دستیاب نہیں ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان کا ڈیجیٹل ایکو سسٹم اور انفراسٹرکچر بھی بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے ڈیجیٹل ایکو سسٹم کے بارے میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک رپورٹ میں بھی یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ ڈیجیٹل ادائیگیوں، کم لاگت والے براڈ بینڈ کی رسائی اور عالمی ویلیو چینز میں ٹیک اسٹارٹ اپس کے انضمام جیسے شعبوں میں پاکستان خطے کے دیگر ممالک سے آگے ہے۔ حال ہی میں پاکستان نے کرپٹو مائننگ اور آرٹیفشل انٹیلی جنس کے ڈیٹا سنٹرز کیلئے دو ہزار میگاواٹ بجلی مختص کرکے ہائی ٹیک کے شعبے میں آگے بڑھنے کے اپنے عزائم کا اظہار کیا ہے۔ تاہم اس حوالے سے انٹرنیٹ کی تیز ترین اور بلاتعطل فراہمی یقینی بنانے کیلئے مزید کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ برآمدات بڑھانے کیلئے ایکسپورٹ انڈسٹری کی خطے کے دیگر ممالک سے مسابقت بہتر بنانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ عالمی سرمایہ کاری کا رخ اس شعبے کی جانب موڑا جا سکے۔ اس سلسلے میں ہر سیکٹر کا الگ الگ تجزیہ کرکے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے ۔ علاوہ ازیں سی پیک کے تحت چین سے آنیوالے سرمایہ کاروں کو سکیورٹی، محصولات کی وصولی کے نظام، روپے کی قدر میں کمی اور پاکستان میں کاروبار سے حاصل ہونے والے منافع کو ڈالر کی شکل میں واپس اپنے ملک منتقل کرنے سےمتعلق درپیش مسائل حل کرنا ہونگے۔ اس حوالے سے پہلے مرحلے میں بڑی چینی کمپنیوں کے بڑی پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ جوائنٹ وینچر کروائے جا سکتے ہیں۔ اس طرح دونوں ممالک کے مابین نہ صرف سفارتی تعلقات بہتر ہوں گے بلکہ دوطرفہ کاروباری تعلقات میں بہتری سے عوامی رابطوں میں اضافہ ہو گا اور چینی کمپنیوں کو پاکستان میں کاروبار کرنے کے حوالے سے درپیش مسائل کو بھی خاطر خواہ حد تک کم کیا جا سکے گا۔