• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پڑوسی برادر ملک افغانستان میں عالمی حمایت سے محروم طالبان حکومت کے اقتصادی امور کے نائب وزیر اعظم مُلا عبدالغنی برادر نے اپنے ملک کے تاجروں سے کہا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تجارت کے بجائے دوسرے ممالک کی مارکیٹیں تلاش کریں۔ وہ چاہتے ہیں کہ آنے والے تین ماہ کے اندر، تمام اکاؤنٹس سیٹل کئے جائیں اور پاکستان سے مزید دوائیں بھی درآمد نہ کی جائیں۔ طالبان حکومت نے گویا واضح اعلان کردیا ہے کہ افغان تاجر اب پاکستان کے ساتھ تجارت نہیں کریں گے۔ افغانستان کے نائب وزیرِ اقتصادیات نے یہ ہدایت بھی جاری کی ہے کہ تین ماہ کے اندر پاکستانی راستے سے تمام تجارتی سرگرمیاں ختم کر دی جائیں اور اب طالبان وزیر کے مطابق متبادل تجارتی راستے ایران، ترکمانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے ذریعے تلاش کئے جا رہے ہیں۔ افغان حکومت نے انسانی جان بچانے والی پاکستانی ادویات کی درآمد کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے طالبان نے ابھی تک کسی افغانی سے یہ نہیں کہا کہ وہ پاکستان چھوڑ کر افغانستان واپس آجائیں جو کہ ان کا اپنا ملک ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی کے باعث بند آٹھ کراسنگ پوائنٹس سے ہونے والے مالی نقصانات کے نتیجے میں دو طرفہ تجارت اور علاقائی ترسیلات بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔ پاکستان،ا فغان سرحد کے تمام آٹھ کراسنگ پوائنٹس کی بندش سے وسط ایشیائی ممالک کو جانے والی پاکستانی برآمدات بھی متاثر ہوئی ہیں جبکہ ایک ہزار سے زائد ٹرک کراچی پورٹ پر کھڑے ہیں۔ نارمل حالات میں افغانستان ہر ماہ پاکستان سے قریباً پندرہ کروڑ ڈالر مالیت کی درآمدات کرتا رہا ہے جب کہ پاکستان کو افغان برآمدات کا حجم تقریباً چھ کروڑ ڈالر ماہانہ رہا ہے۔ افغانستان جس نے پڑوسی ہونے کے باوجود بھی پاکستان کو قیام کے روز اول سے کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا اور پس و پیش سے کام لیتا رہا جبکہ ایران نے سب سے پہلے پاکستان کو اپنے بازو وا کرکے تسلیم کیا تھا جبکہ افغان قیادت کا یہ رویہ بھارت جیسا تھا جس نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور پاکستان پر بارہا جنگیں مسلط کیں جو کہ آج بھی جاری ہیں۔ اب بھارت کا دوست افغانستان، کھل کر پاکستان کے مقابل آن کھڑا ہوا ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان جغرافیائی طور پر اس خطے میں ایسا واحد ملک ہے جس کے ساتھ جھگڑا کرکے وہ عالمی تنہائی کے بعد اب علاقائی تنہائی کا بھی شکار ہو جائے گا، اس نے تاحال ہٹ دھرمی نہیں چھوڑی۔ دوسری طرف پاکستان نے افغانی تازہ پھلوں کی ایران کے راستے درآمد کی ایک کوشش ناکام بنا دی ہے جس کا مقصد دوطرفہ تجارت کی معطلی سے بچنے کے لیے متبادل راستہ اختیار کرنا تھا، ساڑھے پانچ ہزار سے زائد افغان ٹرانزٹ کنٹینرز بین الاقوامی سرحد کی بندش کے باعث پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ افغانستان کے لیے سامان کی بڑھتی ہوئی رکاوٹوں کے باوجود یہ صورت حال کابل کے پاکستان پر انحصار کو ظاہر کرتی ہے، اگرچہ وہ متبادل تجارتی راستے تلاش کرنے کی کوششوں میں بھی مگن ہے۔ اس صورت حال میں وسط ایشیائی ریاستوں کو بین الاقوامی تجارت کی معطلی کے اثرات سے بچانے کے لیے پاکستان نے ازبکستان کو پانچ کارگو فضائی راستے سے لے جانے اور انتیس کنٹینرز کو چین کے راستے منتقل کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے، یہ اقدام اس بین الاقوامی کنونشن کے تحت کیا جا رہا ہے جس پر تمام علاقائی ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں۔ شر پسند پڑوسی ملک افغانستان اپنی برآمدات کے لیے ہمسایہ ممالک پر سمندری بندرگاہوں تک رسائی کے لیے انحصار کرتا ہے، سرحدوں کی بندش نے افغان برآمدکنندگان خصوصاً کسانوں کے لیے شدید مشکلات پیدا کر دی ہیں جو اپنی آمدنی کے لیے پھل اور سبزیاں پاکستان اور دیگر علاقائی منڈیوں میں فروخت کرتےہیںان کو اب سراسر خسارے کا سامنا ہے ۔چند روز قبل ہی ایک درآمدکنندہ نے تقریباً تیئس ملین ٹن وزنی تازہ پھلوں کی کھیپ ایران کے راستے درآمد کرنے کی کوشش کی تھی جسے ناکام بنا دیا گیا تھا۔ تجارتی سو دو و زیاں کا اگر منظر عنیق جائزہ لیا جائے تو افغانستان، پاکستان سے کم و بیش آٹھ سو ملین ڈالر کا سامان خریدتا ہے اور تقریباً سات سو ملین ڈالر کا پاکستان کو بیچتا ہے یعنی اگر پاکستان کی سالانہ بتیس ہزار ملین ڈالرز کی برآمدات میں سے یہ پانچ یا چھ سو ملین ڈالرز کم ہو جائیں تو پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پاکستان نئی منڈیاں ڈھونڈ لے گا۔ پاکستان کو افغانستانی انار، انگور اور خشک میوے نہ ملنے سے کوئی خاص فرق پڑتا ہے نہ ہی دوسری اشیاء سے، چلغوزہ پاکستان کا اپنا ہے، کاجو سری لنکا اور پستہ ایران سے آتا ہے۔ کچھ کوئلہ پاکستان افغانستان سے خرید رہا تھا لیکن کوئلہ پاکستان میں بھی کم نہیں ہے لیکن افغانستان، پاکستان سے جو اشیاء منگواتا ہے وہ چین اور انڈیا سے براستہ ایران منگوانا اسے پچاس فیصد مہنگا پڑے گا، ان کا بھی بیشتر حصہ وہ پاکستان کو واپس بھیج کر فروخت کرتا تھا البتہ جو اشیاء وہ پاکستان بھیجتا ہے وہ کسی صورت انڈیا یا کسی اور ملک نہیں بھیج سکتا بالخصوص سبزیاں اور پھل وغیرہ جن کی ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کو قطعاً ضرورت نہیں۔ کوئلے کا بھی سب سے بڑا خریدار پاکستان تھا یعنی افغانستان کو اس تجارتی بندش کا زیادہ نقصان ہے اسی لیے طالبان مسلسل تجارتی راستے کھولنے پر اصرار کرتے رہے ہیں۔

یہ سارے حالات و واقعات اور اعداد و شمار افغان حکمرانوں کی نظر میں یقینا ہوں گے اس کے باوجود پھر بھی وہ ہوش کے ناخن نہیں لے رہے اور ایک دانا و برادر ملک کو چھوڑ کر دوست نما دشمن بھارت کے ساتھ ہاتھ ملا رہا ہے جو کہ اس کیلئے سراسر نقصان کا سودا ثابت ہوگا۔

تازہ ترین