• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عام طور پر ناجائز تجاوزات کیخلاف جب کارروائی ہوتی ہے تو جانے کیوں بلدیہ کا عملہ سب سے پہلے گدڑی یا کبوتر منڈی کا رخ کرتا ہے دوسرے دن اخبارات میں مسمار کی گئی کچھ دکانوں کے ملبے کی، کچھ مُڑے تُڑے خالی پنجروں اور ایک دو اداس کبوتر بازوں کی تصویریں ہوتی ہیں جنہیں ممکن ہے کہ فوٹوگرافروں نے کہا ہے کہ وہ مزاحمت کار دکھائی دینے کی کوشش کریں مگر وہ خالی افق کو یوں تک رہے ہوتے ہیں جیسے انہیں دیکھ کے اڑائے گئے یا بھگائے گئے کبوتر واپس آ جائیں گے۔عام طور پر بلدیہ کے اس طوفانی حملے میں یہ خبر نہیں ہوتی کہ کتنے پرندے عملے کی تحویل میں ہیں یا انہیں کہاں رکھا جا رہا ہے؟ ملتان میں یہ ایکشن پہلے ہوا دو چار بیانات شائع ہوئے،ایک پریس کے مالک نے وضاحت کی کہ میرا پریس اور کتاب گھر قانونی ہے اس کیخلاف کوئی ایکشن نہیں ہوا اور نہ ہو گا۔ ملتان میں بھی کافی حساس لوگ اور ذوق لطیف کے مالک رہتے ہیں،مگر انہوں نے پرندوں کے حق میں کوئی بیان دینے کی بجائے لفظ گدڑی کے بارے میں مباحث چھیڑ دئیے اس کا تعلق فقیروں سے ہے یا لکھنؤ کےنخاس سے یا سیدھا مصر کے بازار سے؟ پر جب لاہور کے بھاٹی دروازے یعنی داتا گنج بخش کی ہمسائیگی میں ہوا تو ہمارا ’فیقا ملتانی‘مچھر گیا ۔آپ جانتے ہیں کہ وہ این سی اے لاہور کا گریجویٹ ہے جو اپنے تاسیس کا ڈیڑھ سو سالہ جشن منا رہا ہے،جس کے سیاسی طنز کو دور ضیا بھی کند نہیں کر سکا حالانکہ فرنٹیئر پوسٹ کے مالک سے کہا گیا کہ اسے تکنیکی تربیت کے لئے امریکہ بھجوا دو۔سو ہمارے فیقا کی بِلبلاہٹ غُراہٹ میں بدلی اور وہ سیدھا پنجاب کی بنتِ آہن پر حملہ آور ہوا اور اسے غیرت دلائی کہ تم لوگوں نے ان پرندوں کا قتل عام کر دیا جنہیں داتا اور میاں میر نے اپنی پناہ میں لیا تھا۔ اصل میں فیقا سے میری ملاقات فخربلوچ اور قیصر نقوی نے کوئی پینتیس سال پہلے کرائی تھی اور کہا تھا کہ یہ اسلامیہ ہائی اسکول حرم گیٹ میں پڑھتا رہا ہے اس لئےمیں اسے فیقا ملتانی کہتا ہوں مگر وہ سچا آرٹسٹ تھا ایک دو مرتبہ اس کی طویل تر پوسٹوں کو ایڈٹ کرنے اور اردو املا پر توجہ دینے کو کہا تو اس نے کہا دیکھو میرے ٹیچر بننے کی کوشش نہ کرو بس میرے دل کی دھڑکن سنو۔ بے شک عوام کا اپنا مزاج ہے بھارت یاترا کے دوران عام طور پر ہمارے وفد کی قائد کشور ناہید پولیس رپورٹ سے استثنا دلوا دیتی تھیں مگر ایک مرتبہ ایسا نہ ہوا میں نے نماز فجر کے بعد اجمیری دروازہ ڈھونڈنا شروع کیا جہاں وہ تھانہ ہے جو پاکستان سے آنے والوں کیلئے ہے یہاں دلی میں داخلے اور پھر وہاں سے نکلتے وقت اطلاع دینی ہوتی ہے۔ جامعہ ملیہ کے ایک استاد نے سمجھایا کہ مرکز حجاج کے لئے سائیکل رکشہ مل جائے گا وہاں فوٹو گرافر بھی ہوتے ہیں ممکن ہے تمہیں کچھ تصویریں بھی بنوانی پڑیں یا پاسپورٹ کے پہلے صفحات کی کاپیاں فوٹو اسٹیٹ کرا کے دینی ہوں،سو میں نے جب سائیکل رکشے پر بیٹھ کے لطیف الزماں خان کے لہجے میں کہا بھیا! ذری مرکز حجاج تک تو لے چلو۔ اس نے سر سے پاؤں تک مجھے دیکھا اور کہا ’’ارے یہ مرکز حجاج کیا ہے،حاجی منڈی بولو‘‘ پھر مجھے ملتان کی کالے منڈی،کبوتر منڈی،گڑ منڈی یاد آئی اورمعلوم ہوا کہ عوام اپنی بول چال کے لئے بابائے اردو یا ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے ہدایت ناموں کو نظرانداز کرتے ہیں تو زبان آگے بڑھتی ہے۔

اخبارات سے معلوم ہوا ہے کہ فیقا ملتانی کی کراہ لاہور کی ایک عدالت سے وابستہ ایک عزت مآب کے کانوں تک پہنچ گئی ہے ۔ممکن ہے آپ میں سے مطالعے کے شائق افراد نے اردو کی ایک یاد گار آپ بیتی ’یہ بازی عشق کی بازی ہے‘ پڑھی ہو۔یہ معروف شاعر شہرت بخاری کی محبت میں مبتلا ہونیوالی شاگرد فرخندہ بخاری نے لکھی ہے جوجنرل ضیا الحق کے دور میں قید و بند سے گزرتی ہوئی جلاوطن ہوئیں۔لیبیا سے انگلستان پہنچیں توشوہر ہوجانے والے استاد محترم تھوڑے سے بدگمان بھی ہوئے۔ بہرطور ۔فیقے کی پکار زمین پر اگر کسی نے سنی ہے تو وہ فرخندہ بخاری کی بیٹی بیرسٹر مقسومہ بخاری نے سنی ہے جو مارے جانے والے پرندوں کی فریاد لے کر لاہور ہائی کورٹ میں پہنچی ہیں۔ہماری عدالتوں میں اس وقت کچھ استعفے گردش میں ہیں مگر امید رکھنی چاہئے کہ یہ مقدمہ کچھ اس طرح سے سنا جائے گا کہ آئندہ اہل کار پرندوں کے قتل سے گریز کریں گے۔

٭٭٭٭

دو دن پہلے فرشتہ اجل نے کچھ بڑے لوگوں کے حُسنِ تکلم میں کھنڈت ڈالی ۔ پہلے ڈاکٹر عارفہ سید گئیں، پھر عرفان صدیقی گئے ان کے تو ماتم گسار بڑے بڑے لوگ ہیں مگر جب اوکاڑہ کے کامریڈ ارشد رانا گئے تو میں نے ان کاپُرسہ ساہیوال کے زکریا خان کو دیا ابھی دو دن پہلے انگریزی کے استاد اور اردو انگریزی تنقید میں گراں قدر اضافہ کرنیوالے سید رضی عابدی گئے،وہ انگریزی کے ان چند استادوں میں سے تھے جو برملا خود کو ترقی پسند کہتے تھے انہوں نے ڈاکٹر مبارک علی کے ساتھ مل کر تیسری دنیا کا ادب اور اچھوتوں کا ادب شائع کیں۔انہوں نے اردو کے تین ناول نگاروں پر لکھا انتظار حسین ،قرۃ العین حیدر اور عبداللہ حسین ۔انتظار حسین کے بارے میں ان کا ایک تخلیقی تنقید کا فقرہ بہت مقبول ہوا ’’اگر انتظار حسین نے ہجرت نہ کی ہوتی تو بھی مہاجرت ان کا مرکزی تخلیقی تجربہ ہوتا‘‘ ان کی دیگر دوکتابیں انگریزی میں ہیں’’ان سرچ آف دی میڈیم‘‘اور ’’دی ٹریجک ویژن‘‘۔انہوں نے شاعری بھی کی ۔ان کی آپ بیتی کا ذکر آیا ہے’بازار کی رونق‘ جو کوچہ و بازار کے کالم نگار نے نہیں پڑھی وہ ان کے اس شاگرد کا ممنون ہوگا جو اس کتاب کے پبلشر کا رابطہ نمبر عطا کرے گا۔ وہ سونی پت سے ہجرت کرکے لاہور آئے،پنجاب یونیورسٹی اور ایم اے او کالج میں پڑھانے سے پہلے ہر محنتی نوجوان کی طرح اے جی آفس میں بھی ملازمت کی۔

تازہ ترین