ہمارے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے کئی دوست ہمیشہ اس بات پر حیرانی ظاہر کرتے ہیں کہ جو لوگ عمران خان کی سیاسی مخالفت کرتے ہیں کیا ان میں کوئی عقل نہیں ؟ وہ ایسے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی ’’پڑھے لکھے جاہل‘‘ ہونے کے طعنے دیتے رہتے ہیں جو ان کی دانست میں عمران خان جیسے’’ ہیرے ‘‘ کی قدر نہیں کرتے حالانکہ وہ اپنے ’’مہذب‘‘سوشل میڈیا ٹرولز کے ذریعے جس فراخ دلی سے اپنے سیاسی مخالفین کی ماں بہن ایک کر دیتے ہیں اس بد تہذیبی کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی ـان کی گفتگو کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ عمران مخالفین کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے- حالانکہ اگر آپ عمران خان کی ذاتی زندگی سے لے کر ان کی سیاسی زندگی پر ایک غیر جانبدارانہ نظر ڈالیں تو آپ کو لگتا ہے کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے سوائے بطور ایک کرکٹر کے ، ان کی سیاسی زندگی میں ابن الوقتی، غلط بیانی ، قریبی دوستوں کے ساتھ دھوکہ دہی ، محسن کشی اور سیاسی نااہلی کے ایسے ایسے واقعات موجود ہیں جسکی وجہ سے یہی حیرانی ہمیں اپنے پی ٹی آئی کی دوستوں کے بارے میں ہوتی ہے کہ وہ پڑھے لکھے ہونے کے باوجود کس طرح اس شخص کیلئے اپنی رشتہ داریاں اور دوستیاں ختم کر رہے ہیں جسکی اپنی زندگی میں کسی دوست یا رشتہ دار حتی ٰکہ اپنے بچوں کی بھی کوئی اہمیت نہیں اور جو عقلِ کل ہونے کی خود فریبی میں مبتلا ہے جس نے ایک ایسی خاتون کے کہنے پر اپنی تقریب حلف برداری میں اپنے قریبی دوستوں اور بچوں کو بھی مدعو نہیں کیا تھا کیونکہ اس کا جادو ٹونا اس کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ جسکی وجہ سے ان پر تو ہم پرستی ، ضعیف الاعتقادی اور کرپشن کے سنگین الزامات لگتے رہے ہیں۔ سابقہ خا تونِ اول پر جادو ٹونے اور عملیات کے یہ الزامات پہلے پاکستانی میڈیا میں عام تھے جسے پی ٹی آئی کے ہمدرد اسٹیبلشمنٹ کی سازش قرار دیتے تھے لیکن اب ان کی گونج عالمی سطح پر سنائی دینے لگی ہے جب سے برطانیہ کے تقریباً 200 سال پرانے اور نہایت معتبر جریدے اکانومسٹ کے لائف سٹائل میگزین میں مشہور تفتیشی صحافی اون بینٹ جونز اور انکی معاون بشریٰ تسکین کی ایک طویل سٹوری شائع ہوئی ہے جس میں بشریٰ بی بی کی عمران خان کی زندگی میں آمد ، اسکے جادو ٹونے اور عملیات ، اسکی پراسرار شخصیت ، اسکے خاندانی پس منظر اور تعلیم کے ساتھ ساتھ عمران خان کی اپنی شخصیت اور اس پر بشریٰ بی بی کے اثر رسوخ کا تفصیل سے ذکر ہے ـ ہمارے پی ٹی آئی کے دوست جو کسی کی بھی پگڑی اچھالنےاور کردار کشی کرنے کے ماہر ہیںاسے ایک خاتون کے نجی معاملے میں مداخلت قرار دے رہے ہیں ،ـ کیا یہ خاتون کا نجی معاملہ ہے جسکے حکم سے وزرائے اعلی ، وزیروں اور افسرشاہی کے تقرر و تبادلے ہوتے تھے ـ جسکی اجازت کے بغیر جہاز کو چار چار گھنٹے تک روک لیا جاتا تھا ـ جس نے پاکستان کے اپنے دوست ممالک خصوصاً سعودی عرب کے ساتھ خارجہ تعلقات کومجروح کیا جو پاکستان کے آرمی چیف اور وزیراعظم کی میٹنگز میں ان سے زیادہ بولتی تھی اور قومی اور بین الاقوامی امور پر مشورے دیتی تھی۔ ـ وزیراعظم ،بلوچستان کے مقتولین کے ورثاء کے بار بار بلانے پر بھی نہیں جاتے تھے کیونکہ خاتون اول کے عملیات کے مطابق ان کا کسی جنازے میں جانا اشبھ تھا ـ ۔بنی گالہ میں صدقے کے گوشت کے نام پر جس قسم کی توہمّ پرستی کا مظاہرہ کیا جاتا تھا اسکی تفصیلات تو واقعی شرما دینے والی ہیں لیکن ہمارے دوست اس قسم کی حرکتوں پر شرمندہ ہونے کی بجائے دوسروں پر طعنہ زنی کرتے رہتے ہیں۔
ـ یاد رہے ان تمام حرکات کی سرپرستی ان کے آکسفورڈ پلٹ مرشد خود فرمایا کرتے تھے ـ جہاں تک مرشد کی مقبولیت کا تعلق ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ اس وقت مقبولیت کی معراج پرہیں لیکن کیا انکی مقبولیت انکی کارکردگی کی وجہ سے ہے ؟ سب جانتے ہیں کہ اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں وہ اتنے غیر مقبول ہو چکے تھے کہ اپنے گڑھ کے پی میں بھی تمام ضمنی انتخابات ہار گئے تھے ـ اگر اس وقت فوری طور پر انتخابات کروا دئے جاتے تو پی ٹی آئی بہ مشکل چند سیٹیں حاصل کر پاتی ـ یہ سب مقبولیت عمران خان کو’’سیاسی شہید‘‘بنانے کا نتیجہ ہے ۔ ـ اکانومسٹ میں چھپنے والی کہانی اور نقلِ کفر ، کفر نہ باشد کے مصداق بشریٰ بی بی کا عمران خان سے ملنا ، اپنی مافوق الفطرت طاقتوں اور عملیات سے عمران خان کو قابو میں کر لینا اور نعوذ باللہ انہیں یہ کہنا کہ انہیں خواب میں بشارت ہوئی ہے کہ وہ ان کے ساتھ شادی کر لیں تاکہ وہ وزیراعظم بن سکیںاور عمران خان کا ان فضولیات کو مان جانا ، کیا اکیسویں صدی میں یہ سب الف لیلوی داستانیں قابلّ فخر ہیں ؟ اکثر پی ٹی آئی والے تو ان کہانیوں کو من گھڑت قرار دیتے ہیں لیکن کیا کوئی ان ویڈیوز سے انکار کر سکتا ہے جب عمران خان اور بشریٰ بی بی کی عدالتوں میں پیشی کے وقت عجیب و غریب عملیات کیے جاتے تھے کبھی خود کو سفید چادروں اور کبھی کالے ڈبوں سے ڈھانپا جاتا تھا ؟ کیا حقیقی سیاسی لیڈر اس طرح کی ضعیف الاعتقادیوں اور تو ہّم پرستیوں کو فروغ دیتے ہیں ؟کیا وہ کٹوں، انڈوں اور مرغیوں کے ذریعے معیشت کو فروغ دیتے ہیں؟ اور روحانی یونیورسٹیاں بنا کر قوم کو سائنسی دور میں داخل کرتے ہیں ؟
یہ بہت اچھی خبر ہے کہ پی ٹی آئی والے اکانومسٹ کے خلاف عدالتوں میں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں ـاللہ کرے کہ ایسا ہی ہو اور بشریٰ بی بی و عمران خان کے خلاف جو کچھ لکھا گیا ہے وہ غلط ثابت ہو یا وہ 90فیصد بھی سامنے آ جائے جو بقول اکانومسٹ ابھی پردہء راز میںہےـ یہ بات سب جانتے ہیں کہ اکانومسٹ کی یہ سٹوری عمران خان کی مقبولیت پر کسی بھی طرح اثر انداز نہیں ہو سکتی لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ کا حصہ ضرور بن گئی ہے جسکی صداقت کا فیصلہ بھی وقت ہی کرئیگا،ـ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ میں نہیں جانتا میرے بعد فرشتے آئیں گے یا راسپوٹین۔ میری دوستوں سے درخواست ہے کہ راسپوٹین کے بارے میں جاننے کیلئے کم از کم گوگل ضرور کر لیں۔آج کا شعر
تمہیں تو مجرم و محرم میں بھی کب فرق لگتا ہے
کہیں ایسا نہ ہو اب صید کو صیّاد کر دینا