• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی معاشرے اپنی سماجی و اخلاقی اقدار کے ساتھ ہی زندہ رہتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں جب ہم دردی، مدد اور تعاون جیسے امور میں دھوکا بازی کا عُنصر غالب آجائے، تو پھر اُس قوم یا معاشرے کو زوال سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ حالت یہ ہے کہ ایک شخص نے بعض راہ گیروں کو آپس میں گتھم گتھا دیکھا، تو انسانی ہم دردی کی بنا پر لڑائی رُکوانے کے لیے میدان میں کود پڑا۔

لڑائی تو رُکوا دی، مگر پتا چلا کہ اِس دوران کسی نے اُس کی جیب کاٹ لی۔ اِسی طرح بازوؤں سے محروم شخص کو دیکھ کر کسی کا دل پسیج جائے اور وہ اُس کی مالی مدد بھی کرے، مگر بعد میں معلوم ہو کہ اُس شخص کے بازو تو سلامت تھے، جو اُس نے شعبدہ بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی قمیص میں چُھپا رکھے تھے، تو عین ممکن ہے کہ مدد کرنے والا وہ شخص آیندہ کسی پر بھی اعتماد نہ کرے، خواہ مانگنے والا ضرورت مند ہی کیوں نہ ہو۔ 

بعض افراد خود کو معذور ظاہر کرتے ہوئے زمین پر اپنے وجود کو گھسیٹ رہے ہوتے ہیں اور لوگ ترس کھا کر اُن کی مالی مدد کرتے ہیں، لیکن جب اُنہیں اپنے پیروں پر چلتا دیکھتے ہیں، تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مدد کرنے والوں کے کیا جذبات ہوتے ہوں گے۔

ایک ایسا شخص جو کالا چشمہ لگا کر، بیوی بچّوں کے ساتھ بصارت سے محروم ہونے کی اداکاری کر رہا ہو، اُس کی حقیقت سے واقف شخص کا دل ہی دہل جاتا ہے۔ دوسری طرف دیکھیں، ایسا بھی ہوا کہ کسی نے انسانی ہم دردی کی بنیاد پر حادثے میں زخمی ہونے والے شخص کو اسپتال پہنچایا، تو اُسے ہی حادثے کا ذمّے ٹھہرا دیا گیا یا پھر عدالت میں گواہیوں کے لیے اُسے برسوں خوار ہونا پڑا۔ 

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اِن حالات میں کوئی کسی سے انسانی ہم دردی کی بنیاد پر کیوں اور کیسے تعاون کرے۔ یہی سبب ہے کہ اب ایسے مواقع پر لوگ منہ پھیر کر چلتے بنتے ہیں اور اگر کوئی ہمّت سے کام لے کر کسی کی مدد کو پہنچتا بھی ہے، تو اُسے خاندان کے لوگ اور دوست احباب ناسمجھ، پاگل اور بے وقوف قرار دے دیتے ہیں۔ یعنی حالات کے جبر کے پیشِ نظر ایسے مخلص اور انسان دوست شخص کی کوئی حوصلہ افزائی تک نہیں کرتا، بلکہ اُلٹا اُسے ایسی سرگرمیوں سے گریز کی تلقین کی جاتی ہے۔

بعض اوقات ہم سائیوں میں لڑائی ہو یا بھائی سے بھائی کا جھگڑا، معاملہ رفع دفع کروانے، بیچ میں پڑنے والوں کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ جب لڑنے والے دوبارہ شِیر و شکر ہو جاتے ہیں، تو دورانِ لڑائی بیچ بچاؤ کروانے والا اُن کی نظر میں مجرم قرار پاتا ہے اور اُس پر الزامات کی بارش کر دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اُسے جرات کیسے ہوئی، ہمارے گھر میں داخل ہونے کی یا ہماری باتیں دوسروں تک پہنچانے کا اُسے کس نے حق دیا۔

بعض اوقات صلح کروانے والا فریقین کی جانب سے چلائی گئی گولی تک کا نشانہ بن جاتا ہے اور اُسے ہی موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے کہ آخر وہ وہاں گیا ہی کیوں تھا۔ رات کے وقت یا کسی سنسان سڑک پر کسی خاتون، بچّے یا بزرگ کو مدد کے لیے پکارنے پر یا اُنہیں ضرورت مند سمجھ کر کوئی اپنی سواری روکے، تو اُسے اُن افراد کی جانب سے لُوٹے جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اِس طرح کے واقعات اب عام ہیں۔

خاص طور پر خواتین کی جانب سے بلیک میل کرنے کے تو متعدّد واقعات میڈیا میں آتے رہے ہیں۔ اسپتالوں کے اندر اور آس پاس خُود یا اپنے کسی عزیز کے مرض میں مبتلا ہونے کا رونا رونے والوں سے آپ کا بھی پالا پڑا ہوگا، جو زیادہ تر فراڈیے ہی ہوتے ہیں۔

اُن کی شعبدہ بازیاں دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون ضرورت مند ہے اور کون ٹھگ۔ یقیناً ایسے افراد کو مختلف اداروں کے منتظمین بھی روز دیکھتے ہوں گے، جب کہ پولیس کو بھی ان سے متعلق علم ہوگا، لیکن چوں کہ زندگی کے معاملات اتنے گمبھیر ہوتے جارہے ہیں کہ ہرطرف لاتعلقی کا سا ماحول بن گیا ہے۔ 

پھر یہ کہ بھکاریوں کی تو پوری مافیا ہے، جس کی پُشت پر بڑے بڑے ٹھیکے دار ہوتے ہیں، جن سے کون اُلجھے اور کیوں؟ ضعیف الاعتقاد لوگ اِن بہروپیوں کی بد دعاؤں سے بھی ڈرتے ہیں، خصوصاً خواتین اِس معاملے میں زیادہ نرم دل واقع ہوتی ہیں اور ایسے ہی کم زور عقیدے کے حامل افراد کی وجہ سے فراڈیوں کا روزگار عروج پر ہے، جب کہ سمجھ دار افراد قانون کی بے بسی دیکھ کر چُپ سادھے ہوئے ہیں۔

کچھ بھی ہو، لیکن یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اِن عوامل کے سبب کتنی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔ سیکڑوں لوگ محنت، مزدوری سے فرار بھی اِسی لیے حاصل کرتے ہیں کہ جب بھیک یا فراڈ کے ذریعے باآسانی دن میں دو، چار ہزار روپے مل جاتے ہیں، تو کوئی روزگار کے دوسرے ذرائع کیوں اختیار کرے۔

مخیّر افراد، فلاحی اداروں کی خدمات انتہائی اہم اور قابلِ قدر ہیں، مگر کئی مواقع پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نظم وضبط کے فقدان، کام کے پھیلاؤ یا دیگر وجوہ کی بنا پر اِن اداروں سے وہ مقاصد پورے نہیں ہو پا رہے، جن کی اُمید کی جاتی ہے۔ یہی دیکھ لیں کہ حادثاتی طور پر مستحق بننے والے، مستقل مستحق بنتے جارہے ہیں۔

ایسے افراد کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا جانا چاہیے تھا، مگر وہ اب خیراتوں ہی پر پلنے لگے ہیں، حالاں کہ پہلے وہ اپنے چھوٹے موٹے کام کرکے گزر اوقات کرلیتے تھے۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مثال سامنے ہے کہ اِس پروگرام میں رجسٹر ہونے والے افراد برسوں سے امداد ہی لیے چلے جا رہے ہیں۔ اِس صُورتِ حال میں بھکاری قوم کا دھبّا کوئی معمولی بات نہیں کہ بیرونِ مُلک بھی ہماری بدنامی ہورہی ہے۔

یہ سب لکھنے کا خیال یوں آیا کہ اِس مرتبہ مُلک میں شدید گرمی پڑی، تو سندھ سے بڑی تعداد میں لوگوں نے کوئٹہ کا رُخ کیا۔ چھوٹے چھوٹے مکانوں میں درجنوں لوگ کرائے پر رہنے لگے۔ جب مکان دست یاب نہ ہوئے، تو اُنہوں نے کُھلے میدانوں میں پڑاؤ ڈال لیا۔ شہر بَھر میں خواتین اور بچّے بھیک مانگتے نظر آئے،بلکہ یوں کہیے، شہر پر گویا یلغار کردی گئی۔ 

مکروہ دھندے کی بھی شکایات ملیں، جس سے اندازہ ہوا کہ معاشرے میں کتنی بے راہ روی پھیل گئی ہے۔نیز، چوری چکاری میں بھی اضافہ ہوا۔ایسے میں یہ سوال تو بنتا ہے کہ حکومتی ادارے کہاں ہیں، انسانیت کیوں منہ چُھپانے پر مجبور ہوتی جا رہی ہے؟ ایسا نظام اور ماحول کیوں فروغ پا رہا ہے، جس میں لوگ دوسروں کی مدد کرنے سے گھبرانے لگے ہیں کہ بعض صُورتوں میں نظام میں موجود نقائص ہی انسانیت کی مدد کی سزا دینے پر تُل جاتے ہیں۔

سنڈے میگزین سے مزید