اسلام آباد کے سیکٹر ایچ نائن سنڈے مارکیٹ میں پہلے کیش لیس بازار کا آغاز وزیر اعظم شہباز شریف کے معیشت کو ڈیجیٹل کرنے کے اس وژن کا حصہ ہے جسکے حوالے سے انکے بیانات وقتاً فوقتاًسامنے آتے رہے ہیں۔ کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی( سی ڈی اے) نے ڈیجیٹل معیشت کے پھیلاؤ میں معاونت کرنیوالے ادارے ’’زندگی‘‘ کے اشتراک سےنقد لین دین کے بغیر چلائے جانیوالے بازار کے حوالے سے دکانداروں کو آگہی اور ترغیبات دینے کیلئے یقیناً پہلے سے کاوشیں جاری رکھی ہونگی جن کے نتیجے میں’’ کیش لیس‘‘ طریقے سے موبائل اور QRکوڈ وغیرہ کے استعمال سے لین دین کا یہ بازار شروع کرنا ممکن ہوا۔ سی ڈی اے نے اپنی ویب سائٹ پر بتایا ہے کہ وفاقی دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ صرف بازاروں کو نہیں سی ڈی اے کی تمام خدمات کو کیش لیس بنانے کے منصوبے پرکام کررہا ہے۔ مذکورہ طریق کار شاپنگ مالز، کاروباری مراکز اور دیگر مقامات تک پہنچایا جائے گا۔ اس باب میں یہ سوچ بے محل ہوگی کہ منصوبہ سازوں نے خدمات فراہم کرنیوالے اداروں کو ’ کیش لیس‘ ادائیگی کے سسٹم میں شامل نہیں کیا ہوگا ،تاہم اس وقت تک جاری بہت سے خدمات فراہم کرنے والے اداروں کا فیس ادائیگی کی رسید دینے سے گریز کا طریق کار ایسا سوال ہے جس کا جواب نئے نظام میں تلاش کرنا اور ادائیگیوں کی رسیدوں سمیت دستاویزیت یقینی بناتے ہوئےڈیجیٹلائزیشن میں کمپیوٹر یا موبائل اور کیو آر سسٹم یقینی بنانا ضروری ہے۔ ایک خبر کے مطابق39ہزار دکانداروں کوکیش لیس نظام میں شامل کیا گیا ہے۔ نقدی کے بغیر لین دین کے اس نظام کے ابتدائی مرحلے میں دکانداروں کی تعداد کم ہوتی تو بھی اس امر کی اہمیت مسلّم ہے کہ ایک بڑا کام شروع ہوگیا۔ ’ کیش لیس بازار ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ خریدار اور دکاندار نقد رقم( یعنی نوٹوں یا سکوں ) کے بغیر لین دین کرینگے۔ خریداری کی رقم ڈیجیٹل یا رجسٹر کے ذریعے ہوگی۔ ادائیگی کیلئے کمپیوٹر یا موبائل کااستعمال اس عمل کو محفوظ اور شفاف بناتا ہے ۔ ڈیجیٹل سسٹم کی اصطلاح وسیع مفہوم کا احاطہ کرتی ہے جس میں معیشت کا ہر لین دین ، ہر ادائیگی، ہر مالی سرگرمی کمپیوٹر اور موبائل پر نمبروں کی صورت میں محفوظ ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل سسٹم صرف ادائیگی تک محدود نہیں بلکہ کیش لیس بازار، حکومت، بینک اور عوام کے درمیان شفاف اور منظم سسٹم قائم کرتا ہے۔ اسی لئے وزیراعظم شہباز شریف اپنے بیانات اور جاری ہدایات کے ذریعے معیشت کو ڈیجیٹلائز کرنے کا عزم دہراتے رہے ہیں۔ ایک طرح سے معیشت کو ڈیجیٹل بنانا ان کی حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈے کا اولین ستون ہے جس میں مالی لین دین آسان، محفوظ اور تیز تر ہونے کیساتھ ساتھ معیشت کو دستاویزیت کی طرف لانے کا مقصد بھی شامل ہے اس وقت کا منظر نامہ یہ ہے کہ کمپیوٹر یا موبائل کے ذریعے سامان کی خریداری اور ادائیگی کے طریقے کی افادیت کا اعتراف اندرون ملک آن لائن شاپنگ رحجان کی صورت میں کئی برس سے بڑھتا محسوس ہو رہا ہے اور موجودہ سال 2025ءکے اعدادوشمارکےمطابق پاکستان میں ای کامرس مارکیٹ کی مالیت7ارب ڈالر ہے۔ چھوٹے کاروباری ادارے بھی متحرک محسوس ہورہے ہیں۔ ایزی پیسہ اسکیم کے تحت رقوم کی ترسیل اور آرڈرز دینے کا سلسلہ برسوں سے چل رہا ہے مگر اس میں لوگوں کی شرکت زیادہ تر انفرادی ہے۔ اب حکومت نے ڈیجیٹل پاکستان پروگرام کے تحت ای کامرس کو فروغ دینے کے اقدامات کئے ہیں، آسان آن لائن رجسٹریشن، ٹیکس ریلیف اسکیمیں، ڈلیوری اور لاجسٹک سہولتیں فراہم کی گئی ہیں تو چھوٹے بڑے تاجروں، دکانداروں سمیت تمام کاروباری افراد کیلئے بہت سی ترغیبات ہیں۔ اسلام آباد کے کیش لیس پائلٹ پروگرام کے نتیجے میں دکاندار جب یہ محسوس کرینگے کہ ان کا کاروبار اور آمدنی بھتہ خوروں سمیت ناپسندیدہ عناصر کی دست برد سے محفوظ ہے تو ان کی تعداد میں یقیناً اضافہ ہوگا۔ اپنی ماہیت اور طریق کار کے اعتبار سے محفوظ، تیز رفتار، رقم کے جعلی ہونے کے خدشات اور گننے کے جھنجھٹ سے آزاد ہونے کی بنا پر کیش لیس بازار اپنے فوائد منوانے میں کامیاب رہے تو تجارتی ماحول زیادہ پرکشش ہو جائیگا۔ اس ضمن میں انٹرنیٹ سروس سمیت رسل ورسائل کے تمام ذرائع کا فعال ومتحرک رہنا ضروری ہوگا۔ معاشرے ایسی تبدیلی کو تیزی سے قبول کرتے ہیں جو آسانی سے دسترس میں آتی، خطرات کے امکانات گھٹاتی اور معمولات زندگی آسان بناتی ہے۔ اس کی ایک مثال ٹیلیفون کا استعمال ہے۔ سال1990ء تک ٹیلیفون کا حصول مشکل اور اس وقت کے لحاظ سے مہنگا تھا۔ مگر موبائل فون آنے اور مارکیٹ میں مقابلے کی صورتحال پیدا ہونے کے بعد یہ سہولت متوسط اور نچلے طبقے کے خاندانوں کے ہر بالغ فرد کی زندگی کا لازمی حصہ بن گئی۔ اس وقت کیش لیس بازاروں میں جو دکاندار اور ریڑھی والے اپنے کاؤنٹر، دیوار یا کسی اور مقام پر کیو آر کوڈ رکھ کر موبائل والے گاہکوں کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں وہ جب یہ محسوس کرینگے کہ ٹیکس ریلیف سمیت حکومتی معاونت و ترغیب ان کیلئے سودمند ہے تو وہ ٹیکس نیٹ میں آنے کیلئے بخوشی تیار ہونگے اور اگلے پانچ یا دس برسوں میں ان کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوگا جبکہ اتنے عرصے میں ٹیکنالوجی کے فوائد گاہک اور دکاندار دونوں کو مزید قریب لے آئیں گے۔
دکانداروں کی بڑی تعداد کے ٹیکس نیٹ میں آنے کی صورت میں قومی خزانے کی حالت بہتر ہوئی تو حکومت کو مزید قرض لینے ضرورت نہ ہوگی اور غریبوں کا یہ خواب شاید پورا ہو جائے کہ بجلی ، گیس، پیٹرول نرخوں میں اضافے کی صورت میں آئے روز آنے والے مہنگائی کے سیلاب سے انکی جان چھوٹ جائیگی اور بلاواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں امیروں سے رقم لے کر غریبوں پر خرچ کی جائیگی۔ اس وقت کی ایک ضرورت یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف نے گورننس اور کرپشن کے حوالے سے اپنے تجزیے میں پاکستان کے سرکاری اداروں میں پائے گئے جن خدشات و خطرات کی نشاندہی کی ہے ان کے سدباب پر سنجیدہ توجہ دی جائے اور فوری طور پر ایسے اقدامات یقینی بنائے جائیں جو شفافیت، دیانت داری اور انصاف کے اصولوں سے مطابقت رکھتے ہوں۔