محترم جناب راج ناتھ سنگھ وزیرِ دفاع، نئی دہلی، بھارت ۔امید ہے کہ آپ بخیریت ہونگے۔آج میں پاکستان کے موقرقومی اخبار روزنامہ جنگ کے توسط سے اپنا یہ احتجاجی خط آپ کو پہنچانا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں آباد محب وطن سندھی ہندو برادری آپ کے اس حالیہ بیان پر شدید غم و غصےکا اظہار کرتی ہے جو آپ نے نئی دہلی میں منعقدہ ایک سندھی ہندو تقریب سے خطاب کے دوران دیا، ایک ذمہ دار ریاستی منصب پر فائز شخصیت سے ایسی غیر محتاط، اشتعال انگیز اور حقائق کے منافی گفتگو کی کسی صورت توقع نہیں کی جا سکتی، خصوصاً ایسے خطے میں جہاں پہلے ہی سیاسی و جغرافیائی حساسیت عروج پر ہے،آپ کا سندھ کے بارے میں یہ بیان کہ مستقبل میں جغرافیائی تبدیلی ممکن ہے اور سندھ ہندوستان کا حصہ بن سکتا ہے، نہ صرف حقیقت سے سراسر متصادم ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین، اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور عالمی سفارتی روایات کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔بطور سرپرست َ اعلیٰ پاکستان ہندو کونسل میں واضح طور پر یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سندھی ہندو کمیونٹی نے آپ کے اس بیان کو نہ کوئی خطرہ سمجھا اور نہ ہی کوئی سنجیدہ سیاسی حیثیت دی، کیونکہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ یہ ایک تقریب کے شرکاء سے داد سمیٹنے کیلئے دیا گیا ایک اشتعال انگیز احمقانہ بیان ہے، تاہم افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آپ نے اپنی اندرونی سیاست کی خاطر پاکستان میں آباد سندھی ہندو برادری کے جذبات کو استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ہمیں اپنے پاکستانی ہم وطنوں کی نظروں میں گِرانے کی جسارت کی، جو اخلاقی، سماجی، مذہبی اور قانونی ہر لحاظ سے قابلِ مذمت اقدام ہے۔جناب راج ناتھ!یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سندھ پاکستان کا آئینی، جغرافیائی اور اہم ترین حصہ ہے، پاکستان کی سرحدیں عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں اور انہیں جذباتی نعروں یا سیاسی تقاریر سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا،آپ کے غیرذمہ دارانہ بیانات نہ صرف خطے میں بے یقینی کو جنم دیتے ہیں بلکہ جنوبی ایشیا جیسے حساس خطے میں امن کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ایک ایٹمی طاقت کے وزیرِ دفاع کو اپنی زبان اور مقام کا زیادہ ادراک ہونا چاہیے۔ہم بطور سندھی، بطور ہندو اور سب سے اہم بطور پاکستانی، یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان ہماری دھرتی ماتا ہے، ہم نے پاکستان کو کسی مجبوری کے تحت نہیں بلکہ دل و جاں سے قبول کیا، اور آج ہماری شناخت، ہماری سیاست، ہماری ثقافت اور ہمارا مستقبل پاکستان سے جڑا ہوا ہے۔بٹوارے کے نازک اور فیصلہ کن لمحے میںسندھ میں صدیوں سے آباد ہندو خاندانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس دھرتی کو نہیں چھوڑیں گے، ہمارے بڑے بتاتے ہیں کہ ان ہندو گھرانوں میں میرے وانکوانی پریوار کے علاوہ موجودہ عمرکوٹ کے رانو خاندان، ننگرپارکر کے راجپوت خاندان اور تھرپارکر کے بھِیل و میگھواڑ قبائل سمیت متعدد خاندان شامل تھے، آپ نے اپنی تقریر میں ایک ایڈوانی کا ذکر کیا جو اپنی سندھ دھرتی چھوڑ کر چلا گیا لیکن آج بھی سندھ میں ایڈوانی کمیونٹی کے بے شمار محب وطن پاکستانی آباد ہیں ،ہمیں فخر ہے کہ سندھی ہندو برادری نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی 11 اگست 1947ء کی تقریر میں دیے گئے اقلیتی حقوق کے سنہری اصولوں پر اعتماد کرتے ہوئے پاکستان کو اپنا وطن تسلیم کیا،سندھی ہندووؤںنے قائد اعظم کی یقین دیانی پر نقل مکانی کا ارادہ ترک کیا اور پاکستان میں رہ کر ملکی ترقی و خوشحالی میں بھرپور حصہ لیا۔جناب محترم، یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ تحریکِ پاکستان میں سندھ کا کردار فیصلہ کن تھا، سندھ وہ پہلا صوبہ تھا جس نے باقاعدہ طور پر پاکستان کے قیام کے حق میں قرارداد منظور کی، انگریز سامراج سے آزادی کی تحریک میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو دانشور، سماجی کارکن اور مقامی رہنما بھی شامل تھے جنہوں نے پاکستان کی وحدت، خودمختاری اور شناخت کا دفاع کیا،قائداعظم نے جب اپنے شہرہ آفاق چودہ نکات میں سندھ کو بمبئی پریزیڈنسی سے الگ کرنے کا مطالبہ کیا تو تمام سندھی ہندو راہنماؤں نے بھی حمایت کی جن میں کچھ قابلِ ذکرنام دیوان بہادر گووند رام گوکار، دیوان نارائن داس، سیٹھ ناومی ڈی گھیازندوغیرہ شامل تھے ۔جناب عالی!اِس خط کے ذریعے میں آپ کو باور کرانا چاہتاہوں کہ سندھ کسی تصوراتی یا جذباتی خواب کا نام نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے، سندھ کےعوام نے 1947ء میں اپنا فیصلہ ساری دنیا کو سنا دیا تھا کہ ہمارا جینا مرنا اب پاکستان کے ساتھ ہے اورہم آج بھی ہر قسم کے حالات میں اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔ مجھ سمیت بے شمار سندھی ہندوؤں نے پاکستان میں جنم لیا، پاکستان کی آزاد فضاؤں میں سانس لی، پاکستان میں ہی تعلیمی، معاشی اور سماجی ادارے قائم کیے، اور آج ہم اسی سر زمین کے وفادار شہری ہیں ۔پاکستان کے سندھی ہندو شہری تعلیم ، طب، صحافت، تجارت، زراعت ، قانون، سیاست اور سماجی خدمات سمیت ہر شعبے میں کام کر رہے ہیں، سندھ کے بہادر ہندو جوان افواج پاکستان، پولیس، رینجرز اور دیگر سیکیورٹی اداروں میں بہادری سے اپنا قومی فریضہ نبھا رہے ہیں، پاکستان کی عدالتی تاریخ کے ایماندار ترین چیف جسٹس رانا بھگوان داس کا تعلق بھی سندھ کے راجپوت گھرانے سے تھا۔ گزشتہ سات دہائیوں سےہماری شناخت نہ سرحددپار کی کسی نام نہاد سماج سمیلن سے جڑی ہے، نہ کسی بیرونی ایجنڈے سے، بلکہ ہماری شناخت پاکستان سے ہے، پاکستان کی مٹی سے ہےاور آئینِ پاکستان سے ہے۔ہم حکومتِ پاکستان سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ کے اس بیان کا سفارتی سطح پر مؤثر نوٹس لیا جائے اور عالمی برادری کوبھی اس بلاجواز اشتعال انگیزی سے آگاہ کیا جائے۔میں ایک بار پھر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ آپ نے اپنی تقریر میں سندھ کے تہذیبی اور تاریخی تعلق کو بنیاد بنا کر جو جذباتی بیانیہ گھڑنے کی کوشش کی، اُسے سندھ کے پاکستانی ہندوؤں نے مکمل مسترد کردیا ہے، سندھ کی ہزاروں سالہ تہذیب اگرچہ قدیم ہے، مگر آج سندھ کی شناخت اور حقیقت صرف اور صرف پاکستان ہے،میں آپ کو خبردار کرنا چاہوں گا کہ ماضی کو بنیاد بنا کر آج اگر سرحدیں تبدیل کرنے کی بات کی جائے تو پھر موجودہ بھارت کے بے شمار علاقوں کی جغرافیائی حیثیت بھی متنازع ہوجائے گی ۔ مجھ سمیت سرحد کے دونوں پار تمام امن دوست امید کرتے ہیں کہ آپ اپنے خیالات پر نظرثانی کرتے ہوئے اپنا بیان واپس لیں گے، تاکہ دونوںممالک میں بسنے والوں کے درمیان نفرت نہیں بلکہ باہمی احترام اور ہمسائیگی کا جذبہ پروان چڑھے۔