• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت نے طویل عرصے سے ایکسپورٹ انڈسٹری پر عائد ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ سرچارج ختم کرکے ایکسپورٹرز کی عالمی مسابقت کو بہتر بنانے کیلئے بہترین اقدام کیا ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی ٹیم نے جس طرح مثبت ذہن کے ساتھ تمام اسٹیک ہولڈرز کا نقطہ نظر سننے کے بعد فوری فیصلہ کیا ہے۔ اس سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ حکومت برآمدات میں اضافے کے حوالے سے سنجیدہ ہے اور برآمد کنندگان کو درپیش دیگر مسائل کا حل نکالنے کیلئے بھی مثبت پیشرفت ہو گی۔ اس حوالے سے ایکسپورٹ انڈسٹری کو جو بڑے چیلنجز درپیش ہیں ان میں انرجی ٹیرف، بلند شرح سود اور غیر مساوی ٹیکسیشن اہم ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف برآمد کنندگان کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ انہیں برآمدات بڑھانے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس وقت پاکستان میں انڈسٹری کی پیداواری لاگت خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خطے کے دیگر ممالک میں ایکسپورٹرز جو چیز 60 یا 70 روپے میں بنا کر عالمی منڈی میں فروخت کر رہے ہیں ہماری اس پر لاگت 90 سے 100 روپے کے درمیان ہے۔ ایسے میں یہ ممکن ہی نہیں کہ پاکستان کی برآمدات میں قابل ذکر اضافہ کیا جا سکے۔ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کے حوالے سے پاکستان کو عالمی منڈی میں جن ممالک سے مسابقت درپیش ہے ان میں انڈیا، بنگلہ دیش، ویت نام اور چین شامل ہے جہاں بجلی کی قیمت پاکستان کے مقابلے میں آدھی ہے۔ علاوہ ازیں ان ممالک میں ایکسپورٹرز کی مسابقت بہتر بنانے کیلئے حکومتی سطح پر دیگر اقدامات بھی کئے جاتے ہیں اور بیرون ملک موجود ان ممالک کے سفارتخانے بھی برآمدات میں اضافے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم پاکستان میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے اور برآمدکنندگان کو قدم قدم پر مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹیکس کی بابت بھی پاکستان کی صورتحال خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ خراب ہے۔ یہاں کاروبار کرنے والی کمپنیوں سے 60 فیصد تک ٹیکس لیا جا رہا ہے جبکہ سپر ٹیکس اس کے علاوہ ہے۔ اس کی نسبت دیگر ممالک میں یہ شرح 25 سے 30 فیصد کے درمیان ہے۔ ایسے میں پاکستانی ایکسپورٹرز کیلئے ممکن نہیں کہ وہ عالمی مارکیٹ میں اپنی مسابقت برقرار رکھ سکیں۔ جبکہ پاکستان میں شرح سود 11 فیصدہے جو کہ ایک سال پہلے تک 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر تھی اس کے مقابلے میں دیگر ممالک میں شرح سود چار سے پانچ فیصد تک محدود ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات کو کسی بھی طرح کاروبار کرنے کیلئے سازگار قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس جو ایکسپورٹرز ان مشکلات کے باوجود کام کر رہے ہیں وہ داد کے مستحق ہیں کیونکہ ایک طرف وہ ملک کیلئے قیمتی زرمبادلہ کما کر لا رہے ہیں اور دوسری طرف ملک میں لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود ملک میں ایکسپورٹ انڈسٹری کو سونے کا انڈا دینے والی مرغی سمجھ کر اس پر ٹیکس کی شرح میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے سیلز ٹیکس کا نفاذ اور ایڈوانس ٹیکس میں اضافہ اہم ہے جسکی وجہ سے انڈسٹری کو درپیش سرمائے کی قلت سنگین سے سنگین تر ہوتی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت ایکسپورٹرز کے اربوں روپے سیلز ٹیکس ریفنڈز کی مد میں پھنسے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں ایڈوانس ٹیکس کو بھی ایک فیصد سے بڑھا کر دو فیصد کر دیا گیا ہے جبکہ مقامی مارکیٹ میں کام کرنے والی انڈسٹری نہ صرف اس سے مستثنیٰ ہے بلکہ ان سے ٹیکس سہ ماہی بنیادوں پر وصول کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے برآمدکنندگان کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ ایڈوانس ٹیکس کو کم کرکے دوبارہ ایک فیصد کیا جائے اور مقامی مارکیٹ میں کام کرنے والی انڈسٹری کی طرح ایکسپورٹرزسے بھی ایڈوانس ٹیکس لینے کی بجائے سہ ماہی بنیادوں پر ٹیکس لیا جائے۔ حکومت اگر ایکسپورٹ انڈسٹری کو درپیش یہ چند بنیادی مسائل حل کر دے تو برآمدکنندگان کو درپیش سرمائے کی قلت کافی حد تک ختم کی جا سکتی ہے اوربرآمدی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں بھی خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے۔

علاوہ ازیں ایکسپورٹ سیکٹر کو درپیش مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے ایک واضح روڈ میپ ہونا چاہئے۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ گورننس اور سول سروس کے ڈھانچے میں اصلاحات کی جائیں کیونکہ پاکستان کے موجودہ نظام حکومت کو جدید بنائے بغیر ترقی کرنا ممکن نہیں ہے۔ انگریز دور سے رائج سول سروس کے موجودہ ڈھانچے کو بھی حالات کے مطابق اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر شعبے میں اس کی مطلوبہ مہارت اور قابلیت کے حامل سول افسران کی دستیابی یقینی بنائی جا سکے۔ سود اور ٹیکس کی شرح میں کمی کرکے محصولات کی وصولی کے نظام کو وسعت دینے اور مساوی ٹیکسیشن کو یقینی بنانے کیلئے بھی اصلاحات ضروری ہیں۔ اس سلسلے میں دستاویزی معیشت کی طرف قدم برھاتے ہوئے نقد لین دین کو محدود کرنےکیلئے ڈیجیٹل ادائیگیوں کے نظام کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات سےنہ صرف ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکے گا بلکہ پہلے سے ٹیکس دینے والے طبقات بالخصوص تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کے بوجھ میں کمی لائی جا سکے گی۔

تازہ ترین