• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج سے 37 سال پہلے 5 جولائی 1977ء کو جب ہم میٹرک کے امتحان کا پرچہ دینے اسکول گئے تو وہاں فوج کے دستے اسکول کی عمارت میں داخل ہو رہے تھے ۔ پتہ چلا کہ ملک میں مارشل لا لگا دیا گیا ہے ۔ سیاسی ہنگاموں کی وجہ سے امتحانات مارچ کی بجائے جولائی میں منعقد ہوئے تھے ۔ خوف کی فضاء میں پرچہ حل کیا ۔ اسکول سے باہر نکلے تو کچھ لوگ جشن منانے کے لیے سڑک پر موجود تھے ۔ ان لوگوں کا ایک خاص تہذیبی اور فرقہ وارانہ پس منظر تھا ۔ یہ صورت حال دیکھ کر جو ذہنی کیفیت پیدا ہوئی ، وہ 37 سال سے ہر لمحہ زیادہ تکلیف کا باعث بن رہی ہے ۔
یہ5 جولائی آخر ہے کیا ، جس کی ہولناکیوں کو ہم آج تک بھگت رہے ہیں لیکن ہم ان کا ادراک نہیں کر سکے ہیں۔ 5 جولائی سرد جنگ کے آخری زمانے میں برپا ہوا ، جس کا مقصد پاکستان میں ایک ایسی آمرانہ حکومت کا قیام تھا، جو عالمی سرمایہ دارانہ بلاک کی عالمی اشتراکی بلاک کے خلاف حتمی جنگ کے لیے اپنی سرزمین اور اپنی افرادی قوت مہیا کرے ۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ مذہبی انتہا پسندی کے جنون میں لوگوں کو مبتلا کرکے ’’ آتش سامراج ‘‘ میں جھونک دیا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ 5 جولائی برپا کرنے کے لیے پاکستان قومی اتحاد ( پی این اے ) کی نام نہاد تحریک کا ڈرامہ رچایا گیا ، جس کی پشت پناہی امریکا کر رہا تھا اور جس نے اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست کی نئے سرے سے ’’ اسلامائزیشن ‘‘ کا نعرہ دیا ۔ 5 جولائی برپا ہونے کا دوسرا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ 1970ء اور 1977ء کے عام انتخابات سے پاکستان کی حکمراں اسٹیبلشمنٹ کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ پاکستان کے عوام اس کے ساتھ نہیں ہیں اور 1947ء سے وہ جس طرح کا پاکستان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ، عوام اس طرح کے پاکستان سے متفق نہیں ہیں ۔ ایک طرف عالمی سامراجی ایجنڈا تھا کہ پاکستان کو سوویت یونین کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر استعمال کیا جائے اور مذہبی انتہا پسندی اور جنونیت کو فروغ دے کر یہاں کے لوگوں کو ایک عالمی طاقت سے ٹکرا دیا جائے اور دوسری طرف پاکستان کی حکمراں اسٹیبلشمنٹ کا عوام پر قہر آلود غصہ تھا ، جو پاکستان کو ایک مخصوص ’’نسل پرست فرقہ وارانہ ریاست ‘‘ (Ethno-sectarian State ) بناناچاہتی تھی اور عوام کو اس بات پر سزا دینا چاہتی تھی کہ وہ پاکستان کو اس خطے کی تاریخ ، تہذیب ، ثقافت اور اقدار سے جڑی ہوئی قومی ریاست کیوں بنانا چاہتے ہیں ۔ عالمی سامراجی ایجنڈا بھی انتہا پسندی کے ذریعہ پورا ہو سکتا تھا اور پاکستان کی حکمراں اسٹیبلشمنٹ کا غصہ بھی نہ صرف انتہا پسندی سے ٹھنڈا ہو سکتا تھا بلکہ انتہا پسندی کے ذریعہ ہی ایک غیر فطری ریاست بنانے کی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش بھی پوری ہو سکتی تھی ۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ 5 جولائی کے نتیجے میں پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کرنے والے جنرل ضیاء الحق اس مخصوص نسل پرستانہ اور فرقہ وارانہ سوچ کے حامل تھے ، جو ان حالات میں عالمی اور ملکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے آئیڈیل تھی ۔ اس پس منظر میں 5جولائی کی ہولناکیوں کا دوبارہ ادراک کیجئے۔ 5 جولائی پوری دنیا میں روشن خیال ، ترقی پسند ، لبرل ، جمہوری اور اشتراکی قوتوں کو کچلنے کے لیے برپا کیا گیا تھا ۔ 5 جولائی رواداری اور برداشت کی اعلیٰ اقدار، محبت کے جذبوں اور امن کی خواہش کو مٹانے کے لیے قہر کے طور پر نافذ کیا گیا تھا ۔ 5 جولائی کو ہی انتہا پسندی ، وحشت اور درندگی کا رقص شروع ہوا ۔ کلاشنکوف کلچر ، ہیروئن کلچر ، نسلی ، لسانی ، علاقائی اور فرقہ وارانہ تقسیم کو بام عروج حاصل ہوا ۔ جمہوریت ، انصاف ، انسانی حقوق ، اظہار رائے کی آزادی سب پر قدغن لگا دی گئی ۔ فکرو آگہی ، دانش و بینش ، فنون لطیفہ ، جمالیاتی احساس سب کو روند ڈالا گیا ۔ جمہوری اور لبرل سوچ رکھنے والوں کو ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور نسل پرست اور فرقہ وارانہ دہشت گرد تنظیموں کو قتل عام کا لائسنس دے دیا گیا ، جو ابھی تک منسوخ نہیں ہوا ۔ گذشتہ 37سال سےآج تک 5 جولائی کا سورج غروب نہیں ہوا ۔ اس دوران لاکھوں بے گناہ لوگوں کی زندگی کے چراغ گل ہو گئے ۔ اسی دوران 4اپریل اور27دسمبر جیسی کئی قیامتیں بھی برپا ہوئیں لیکن 5جولائی جاری رہا ۔ اسی دوران مارشل لا آرڈر نمبر 53بھی نافذ ہوا ، جس کے تحت کسی بھی شخص کو عدم استحکام یا خوف پیدا کرنے کے الزام میں موت کی سزا دی جا سکتی تھی ۔ ان 37 سالوں میں ایم آر ڈی کی تحریک بھی چلی اور جمہوری کارکنوں کو گولیوں سے چھلنی ہوتے ہوئے بھی دیکھا گیا ۔ سمری ملٹری کورٹس کے فیصلوں کی بھی ہیبت ناک گونج سنائی دیتی رہی ۔ عقوبت خانوں میں سیاسی کارکنوں اور صحافیوں پر تشدد کی وجہ سے نکلنے والی چیخیں اب بھی فضائؤں میں موجود ہیں ۔ ہوا میں لہراتے ہوئے کوڑوں کی شائیں شائیں اب بھی سنی جا سکتی ہے ۔ رات کے آخری پہر مختلف جیلوں میں پھانسی گھاٹ کی طرف جمہوری اور سیاسی کارکنوں کو لے جانے کے دل دہلا دینے والے مناظر ابھی تک وقت کی آنکھوں میں محفوظ ہیں ۔بم دھماکوں ، نامعلوم افراد کی فائرنگ اور ہتھوڑا گروپ کی کارروائیوں سے جو لاشیں گری تھیں ، وہ آج بھی سڑکوں ، گلیوں ، بازاروں ، امام بارگاہوں ، مساجد ، مندروں اور گرجا گھروں میں ابھی تک پڑی ہوئی ہیں ۔ آج بھی جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ 5 جولائی ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ انتہا پسندی پہلے سوویت یونین کے خلاف لڑنے کے لیے ضروری تھی اور اب امریکا اور اس کے حواریوں کی مداخلت اور پوری دنیا پر یکطرفہ جنگ مسلط کرنے کے لیے ضروری ہے ۔ 5 جولائی کو شروع ہونے والی دہشت گردی پہلے نامعلوم دہشت گردوں کے کھاتے میں ڈالی جاتی تھی اور اب نائن الیون کے بعد کچھ ’’برے ‘‘ انتہا پسندوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے ۔ سرد جنگ کے بعد جو ’’نیو ورلڈ آرڈر ‘‘ نافذ ہوا ، وہ بھی 5جولائی ہے ۔ 5جولائی پاکستان کی تباہی اور بربادی کا استعارہ ہے ۔ 5جولائی اس خطے کے امن کو نیست و نابود کرنے کا حوالہ ہے ۔ 5جولائی خواتین ، اقلیتوں اور مظلوم طبقات و گروہوں پر ظلم و استبداد کا نام ہے۔ 5جولائی انتہا پسندی کے ذریعہ عالمی اور ملکی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کو زبردستی مسلط کرنے کی قابل نفرت مثال ہے ۔ 5 جولائی تاریخ کے پہیے کو الٹا گھمانے کی کوشش ہے ۔ 5 جولائی 1977ء کو جو لوگ جشن منانے کے لیے باہر نکل آئے تھے ، آج وہ ڈھائی ہزار سال پہلے ایتھنز کے ان باشندوں کی طرح محسوس ہوتے ہیں ، جو جانوروں کے ساتھ شفیق اور انسانوں کے ساتھ ظالم تھے ۔ وہ نہتے شہریوں کے پورے ہجوم کو قتل کرکے پر مسرت نیند سوتے تھے ۔ پاکستان کا سب سے بڑا تہذیبی بحران یہ ہے کہ یہاں 5 جولائی اور جنرل ضیاء کی اس طرح مذمت نہیں کی گئی ہے ، جس طرح ہونی چاہیے تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا 5 جولائی پہلے سے زیادہ ہولناک ہے ۔
تازہ ترین