سینئر بھارتی صحافی راج دیپ سرڈیسائی نے بابری مسجد گرائے جانے کے دن 6 دسمبر کو شرمندگی والا خون آشام دن قرار دے دیا۔
ایک بیان میں راج دیپ نے کہا کہ یہ دن ہمیشہ بدترین یادوں کے ساتھ رہے گا، اس دن بابری مسجد کو گرایا گیا، آئین توڑا گیا اور ممبئی نے وہ فسادات دیکھے جس میں ایک ہزار سے زائد افراد اپنی جان سے گئے۔
راج دیپ نے لکھا بطور عینی شاہد رپورٹنگ کرتے ہوئے وہ ان کے صحافتی کیریئر کا سب سے مشکل وقت تھا، اُس کریہہ جرم، ہنگامہ آرائی، تشدد اور لوٹ مار کے سارے ذمے دار بالآخر سب ہی بچ نکلے۔
خیال رہے کہ بابری مسجد کی شہادت کو 33 سال مکمل ہوگئے، 6 دسمبر 1992 کو انتہا پسند ہندوؤں نے ایودھیا میں بابری مسجد کو شہید کردیا تھا۔
انتہا پسند حملہ آوروں کا تعلق بی جے پی، آر ایس ایس، وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل سے تھا، انہوں نے کلہاڑوں، ہتھوڑوں اور دیگر اوزاروں سے بابری مسجد کو نشانہ بنایا تھا۔
بابری مسجد کی شہادت کے دوران مسلمانوں کی طرف سے شدید احتجاج اور مزاحمت کی گئی، فسادات کے نتیجے میں 2000 سے زائد مسلمان شہید جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے۔
ایل کے ایڈوانی اور منوہر جوشی انتہاپسند ہندوؤں کو بابری مسجد شہید کرنے کیلئے اشتعال دلاتے رہے۔ 2009 میں جسٹس منموہن سنگھ کی تحقیقاتی رپورٹ میں بی جے پی رہنماؤں سمیت 68 لوگوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا۔
سربراہ بھارتی انٹیلیجنس بیورو ملوئے کرشنا کے مطابق ہندو انتہا پسند تنظیموں نے بابری مسجد کی شہادت کا منصوبہ اُس دن سے 10 ماہ پہلے بنایا تھا۔
بابری مسجد کی شہادت کا کیس تو چلا مگر بھارتی سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019 کو بابری مسجد کی شہادت میں ملوث تمام ملزمان کو بری کردیا۔