• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی میڈیا کے مطابق اب بھارتی قیادت نے اپنے دماغی خلجان کا سر عام اظہار کرنا شروع کردیا ہے اور یہ حقیقت جانتے ہوئے بھی کہ بھارت پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ، سرابوں سے خیالی محلات تیار کرنا شروع کردیے ہیں۔ ایک سر پھرے شخص راج ناتھ سنگھ نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’آج چاہے سندھ کی سر زمین بھارت کا حصہ نہ ہو لیکن تہذیبی طور پر سندھ ہمیشہ سے بھارت کا حصہ رہے گا اور جہاں تک زمین کا تعلق ہے تو سرحدیں بدل سکتی ہیں، کون جانتا ہے کہ کل سندھ دوبارہ بھارت کا حصہ بن جائے۔‘‘ بھارتی وزیرِ دفاع کو شاید معلوم نہیں کہ سندھ نے تو 1936ء ہی میں بمبئی پریذیڈنسی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی گویا پاکستان میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔اس یاوہ گوئی پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے ردعمل میں کہا کہ ’’پاکستان بھارتی وزیر دفاع کے صوبہ سندھ سے متعلق وہم و گمان پر مبنی اور خطرناک حد تک تاریخ کو مسخ کرنے والے بیانات کو مسترد کرتا ہے۔‘‘ بھارتی وزیرِ دفاع نے، سندھی سماج سمیلن کے عنوان سے ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کی متعدد ویڈیوز ، اپنے ایکس اکاؤنٹ پر بھی شیئر کی ہیں تاکہ پاکستان کا اس پر ردعمل جان سکیں۔ انہوں نے سابق وزیراعظم لال کرشن ایڈوانی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’انہوں نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ سندھی ہندو، بالخصوص اُن کی نسل کے لوگ، آج تک سندھ کو انڈیا سے الگ کرنے کو قبول نہیں کر پائے ہیں۔‘‘ ہماری رائے میں یہ دعویٰ عبث ہے اور تاریخ سے نابلد شخص کی رائے سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ سندھ کا ایک بھی ہندو بھارت جانا چاہتا ہے نہ ہی وہاں کے شدت پسند ہندو انہیں قبول کرتے ہیں بلکہ انہیں شودر سے بھی زیادہ اہمیت دینے پر تیار نہیں ہیں۔ کئی سال پہلے جنہوں نے بھارت ہجرت کرکے غلطی کی تھی انہوں نے بھی توبہ کرلی تھی۔کون نہیں جانتا کہ بھارت نے پاکستان کو روز اول سے ہی دل سے تسلیم نہیں کیا اور اس کی قیادت کے دعویٰ تھے کہ چند ہی سال میں پاکستان پھر ہندوستان کا حصہ بن جائے گا اور اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گا لیکن ایٹمی طاقت پاکستان نے ان کی خواہشوں کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا، وہ کبھی اور کسی بھی صورت میں نہیں چاہتے کہ ان کا پر امن پڑوسی ملک پھلے پھولے اور ترقی کرے۔ آج دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ انیس سو اکہتر میں پاکستان کا ایک بازو جدا کرنے کے بعد سے درجنوں بار انڈیا نے جنگیں مسلط کرکے بھی ناکامی کا منہ دیکھا ہے۔ ابھی تازہ تازہ شکست بھی اسے ہضم نہیں ہوئی اور امریکی صدر وقفےوقفےسے اس کے زخموں پر نمک پاشی کردیتے ہیں کہ ’’پاکستان نے بھارتی جارحیت کے جواب میں اپنے دفاع میں سات طیارے مار گرائے تھے۔‘‘ لگتا ہے کہ اس مسلسل بیان سے جان چھڑوانے کیلئے بھارتی وزیراعظم کو ٹرمپ کے سامنے کئی چڑھاوے چڑھانے پڑیں گے تاکہ وہ اس بیان کو بھول جائیں اور اس کی رہی سہی عزت کو مزید پامال نہ کریں مگر کیا کیجئے اس کا کہ بے وقوفوں نے دبئی ایئر شو میں ایک اور جنگی جہاز سے ہاتھ دھو کر اس کا بھی الزام پاکستان کے سر تھونپ دیا ہے اور دنیا بھر کے سامنے یہ بات ثابت کردی ہے کہ بھارتی فضائیہ کی نالائقی کا کوئی جواب نہیں ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتی وزیر دفاع کے وہم و گمان پر مبنی اور خطرناک حد تک تاریخ کو مسخ کرنے والے بیانات ایک توسیع پسند ہندوتوا ذہنیت کو ظاہر کرتے ہیں جو مستحکم حقائق کو چیلنج کرنے کی کوشش ہیںاوربین الاقوامی قانون، تسلیم شدہ سرحدوں کی حرمت اور ریاستوں کی خود مختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ بھارتی وزیر دفاع کا سندھ سے متعلق بیان امن کیلئے خطرہ ہے کیونکہ اس کے پیچھے بھارتی جنگی جنون عیاں ہے اور وہ سندھ کو زمینی طور پر پاکستان سے الگ کرنےکیلئے صف بندی کررہا ہے اور اس کے پیدل دستوں کی جنگی مشقیں تواتر سے جاری ہیں۔راج ناتھ کا یہ بیان صرف ایک بیان نہیں بلکہ بھارت کے مکروہ عزائم اور ارادوں کا بھی اظہار ہے اور ان اقدامات کی بھی چغلی کھا رہا ہے جو وہ اختیار کرنے والا ہے، وہ اب صحرا و دریا کا میدان گرم کرنے کے درپے ہے اور اندرون سندھ قوم پرستوں اور علیحدگی پسندوں پر بھی زرِ کثیر خرچ کرنے والا ہے۔ ایسی آوازیں سیٹی بجاتے ہی چیخ و پکار شروع کردیں گی۔ لازم ہے کہ جہاں پاکستان بھارت پر زور دیتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں اور زیر تسلط کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق جموں و کشمیر کے تنازع کے حقیقی اور پُرامن حل کیلئے قابلِ اعتماد اقدامات کرے اور پاکستان انصاف، مساوات اور بین الاقوامی قانونی ضابطوں کی بنیاد پر بھارت کے ساتھ تمام تنازعات کے پُرامن حل کے لیے پرعزم ہے۔

تازہ ترین