رواں مالی سال کے پہلے پانچ مہینوں میں برآمدات میں کمی اور درآمدات بڑھنے کے باعث پاکستان کا تجارتی خسارہ 37فیصد اضافے سے 15.5 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ محکمہ شماریات کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق جولائی سے نومبر کے دوران درآمدات بڑھ کر 28.3ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 3.3 ارب ڈالر یا 13.3فیصد زیادہ ہیں۔ دوسری طرف گزشتہ پانچ ماہ کے عرصے میں مجموعی طور پر برآمدات میں 12.8 ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے جو کہ گزشتہ سال کے پہلے پانچ ماہ کے مقابلے میں 6.4 فیصد کم ہیں۔ محکمہ شماریات کے مطابق نومبر میں برآمدات کم ہو کر 2.4 ارب ڈالر رہ گئیں جو گزشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں 435 ملین ڈالر یا 15.4 فیصد کم ہیں۔ برآمدات میں کمی کا یہ مسلسل چوتھا مہینہ ہے۔ اس کے برعکس نومبر میں درآمدات 5.4 فیصد کی شرح سے بڑھ کر پانچ ارب ڈالر سے زائد ہو چکی ہیں۔ یہ مسلسل پانچواں مہینہ ہے جب درآمدات پانچ ارب ڈالر سے اوپر رہیں اور گزشتہ ماہ درآمدات میں تقریبا 270 ملین ڈالر کا اضافہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ بڑھ کر 2.9 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
یہ حالات ایک دن میں پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ برآمد کنندگان کئی ماہ سے اس کا اندیشہ ظاہر کرتے آ رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پیداواری لاگت میں مسلسل اضافے اور ٹیکسز و انٹرسٹ ریٹ میں کمی نہ ہونے کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں پاکستانی برآمدکنندگان کیلئے مسابقت برقرار رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں حالیہ کچھ عرصے کے دوران متعدد کمپنیوں کی مکمل یا جزوی بندش کی بڑی وجہ بھی بجلی، گیس اور خام مال کی قیمتوں میں ہونے والا مسلسل اضافہ ہے۔ علاوہ ازیں ملک میں جاری سیاسی کشمکش اور ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں ابتری نے بھی پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
اس کیساتھ ساتھ حکومت کی طرف سے برآمدات بڑھانے کیلئے واضح روڈ میپ کی بجائے وقت گزاری کی بنیاد پر ہونے والے فیصلوں کی وجہ سے بھی انڈسٹری کی ترقی کو دھچکا لگا ہے۔ اسی طرح مالیاتی اور سیاسی پالیسیوں میں عدم تسلسل نے بھی انڈسٹری کی مشکلات بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی مثال اسٹیٹ بینک کی بی ایم آر اسکیم ہے جس کے تحت انڈسٹری کو جدید مشینری خریدنے کیلئے رعایتی مارک اپ پر قرضے دیئے گئے تھے۔ تاہم جب یہ مشینری کراچی پورٹ پر پہنچ گئی تو ڈالر کا ریٹ بڑھنے سے حکومت نے امپورٹ پر پابندی لگا دی اور یہ مشینری طویل عرصے تک پورٹ پر پڑے رہنے سے زنگ آلود ہو گئی اور انڈسٹری کو اسے کلیئر کروانے کے لئے اضافی لاگت و ہرجانہ ادا کرنا پڑا تھا جس کے بعد اسٹیٹ بینک کی طرف سے دی گئی رعایت کا بھی فائدہ نہ اٹھایا جا سکا۔ اسی طرح ایکسپورٹ فیسلی ٹیشن اسکیم کے تحت برآمدکنندگان کو میسر سہولت کا خاتمہ بھی ہماری پالیسی سازی کے عمل میں پائے جانیوالے ابہام کو ظاہر کرتا ہے۔ قبل ازیں ایکسپورٹ انڈسٹری کو اس اسکیم کے تحت خام مال کی خریداری کے حوالے سے جو تھوڑی بہت سہولت حاصل تھی حکومت نے اسے بھی سپننگ انڈسٹری کے دبائو پر واپس لے لیا ہے۔ اس کے باوجود سپننگ انڈسٹری کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مقامی سپننگ انڈسٹری کی زیادہ تر مشینری فرسودہ ہے۔ اس صورتحال کے باعث ایکسپورٹ انڈسٹری کو مقامی دھاگہ مہنگا اور درآمدی دھاگہ سستا پڑتا ہے لیکن اب درآمدی دھاگے پر بھی 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرکے ایکسپورٹ انڈسٹری کا اس طرف سے بھی گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ رواں سال آنے والے سیلاب کے باعث کپاس کی فصل پہلے ہی مقررہ ہدف سے کم رہنے کا امکان ہے ایسے میں درآمدی یارن پر ٹیکس کا نفاذ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اب خود سپننگ انڈسٹری کے اندر سے یہ آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی نمائندہ ہونے کی دعویدار چند شخصیات نے ایک نان ایشو کو ایشو بنا کر پوری انڈسٹری کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے اثرات اب برآمدات میں مسلسل کمی کی شکل میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ اس باب میں انہی صفحات پرمتعدد مرتبہ یہ تجویز دی جا چکی ہے کہ اگر حکومت مقامی کسان اور سپننگ انڈسٹری کو سپورٹ کرنا چاہتی ہے تو درآمد شدہ یارن پر ٹیکس عائد کرنے کی بجائے ایکسپورٹ انڈسٹری کے لئے مقامی مارکیٹ سے خریداری پر عائد ٹیکس ختم کرے۔ اس سے نہ صرف مقامی یارن کی کھپت میں اضافہ ہو گا بلکہ پاکستان کی برآمدات کو بھی بڑھایا جا سکے گا۔
ہمارے ہاں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ڈالر کی قدر میں اضافے سے ایکسپورٹرز کو فائدہ ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چھ سال کے دوران ڈالر کی قدر میں تقریبا 300 فیصد اضافے سے انڈسٹری کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زرمبادلہ کی شرح میں عدم استحکام کی وجہ سے ویلیو ایڈڈ سیکٹر میں استعمال ہونے والے زیادہ تر خام مال کی قیمت میں ڈالر کی قدر سے بھی زیادہ اضافہ ہو گیا جس کا تمام تر بوجھ ایکسپورٹرز کو برداشت کرنا پڑا۔ اسی طرح بجلی اور گیس کی فراہمی کے حوالے سے بھی حکومت کی پالیسیاں انڈسٹری کے لئے فائدے کی بجائے نقصان کا باعث بنتی آ رہی ہیں۔ حال ہی میں حکومت کی طرف سے ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ سرچارج کے خاتمے سے انڈسٹری میں کچھ امید پیدا ہوئی تھی لیکن اس کے بعد سے مسلسل خاموشی سے انڈسٹری میں ایک بار پھر مایوسی بڑھ رہی ہے۔ اس لئے اگر حکومت ملک میں معاشی استحکام لانا چاہتی ہے تو اسے انڈسٹری کو درپیش دیگر مسائل کو حل کرنے کے لئے بھی فوری اقدامات کرناہوں گے۔