پاکستان کی تاریخ بڑی سیاسی آویزش کی تاریخ ہے۔ اس میں ایک طرف مطلق العنانیت پر استوار حکمرانی ، آمریت کے تسلسل اور نت نئے حربوں کے ذریعے اس آمریت کو طُول دینے والی قوتیں، افراد اور ادارے ہیں جبکہ دوسری طرف ملک کو ایک جمہوری وفاق بنانے اور جمہور کے حقِ حکمرانی کو روبہ کار لانے کی جدوجہد کرنے والی قوتیں ہیں۔ بہت سے سیاسی رہنما، سیاسی جماعتیں اور لاکھوں سیاسی کارکن ہیں جنہوں نے ملک میں جمہوری نظام اور جمہوری کلچر کے قیام کے لیے اپنی جملہ قوتیں، فکروعمل کی اپنی ساری صلاحیتیں، اور اپنی پوری زندگیاں تج دیں۔
یہی نہیں ان میں سے بہت سوں نے عتاب کا سامنا بھی کیا، عقوبت خانوں کی اذیتیں اور کوڑوں کی سزائیں بھگتیں، کتنوں کو برسرِ عام جلسوں اور جلوسوں میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، کتنے ہی پھانسی کے پھندے پر ڈول گئے اور تاریخ کی نظروں میں سرفراز ہوئے۔
ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو تک کتنے ہی نام ہیں جنہوں نے جمہوریت، صوبائی خودمختاری اور سماجی انصاف کی جدوجہد میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھوئے، کئی اپنی موت کے پیچھے بہت سے سوال چھوڑ گئے۔ ان کے قاتلوں کی نشاندہی ہوئی اور نہ ہی کبھی ان کی موت سے وابستہ پراسراریت پر سے پردہ ہٹ سکا۔
یہ سب سیاستدان اپنی سیاست کے حوالے سے مختلف رجحانات اور جداگانہ سیاسی مسلکوں سے وابستہ ہوسکتے تھے مگر ان سب کی قدرِ مشترک ملک میں جمہوریت، سماجی عدم برابری کے خاتمے اور صوبائی خود مختاری کے وہ ارفع اصول تھے جن کو قیام پاکستان کے وقت ملک کے اساسی تصورات کے طور پر قبول کیا گیا تھا۔محترمہ بے نظیر بھٹو ان ہی شہیدانِ جمہوریت کی صف میں شامل ہیں۔
اس صف میں بھی ان کی سیاست اور شہادت کے کئی منفرد پہلو ہیں جو ان کو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک غیر معمولی مقام دیتے ہیں۔ ان کی طویل اور صبر آزما سیاسی جدوجہد تاریخ کی نظروں میں ان کی شہادت ہی سے پہچانی جائے گی۔ آج بے نظیر بھٹو کی برسی ہے، اس موقعے پر خصوصی مضمون ملاحظہ کریں۔
بے نظیر بھٹو مجموعی طور پر اپنے کیریئر میں جمہوریت ہی کی لڑائی لڑتی رہیں اور اسی کوشش میں ان کے سیاسی سفر کا اختتام بھی ہوا۔ ان کی شہادت پرایک سرکردہ اخبار نے اپنے ایڈیٹوریل میں لکھا تھا کہ:
’’بے نظیر بھٹو اب ہمیشہ صرف ایک شہید ہی کی حیثیت سے یاد رکھی جائیں گی، نہ صرف اپنی پارٹی کی نظروں میں بلکہ اس تباہ حال اور پژمردہ سرزمین کے سیاسی طور پر باشعور ہر فرد کی نظر میں بھی۔ ان کے محرکات جو بھی رہے ہوں۔ ان کے نظریاتی یقین، سرکشی اور سرتابی کی ان کی سرشت، یا پھر ان کی سیدھی سادی ضدیں، وہ آخری وقت تک اپنے ہدف کی طرف متوجہ رہیں۔
انہوں نے پاکستان کے سیاسی نقشے پر اپنا ایک ایسا نشان چھوڑ دیا ہے جسے کوئی سپہ سالارِ اعلیٰ یا سرکاری پیادے صفحۂ تاریخ سے مٹا نہیں سکتے۔ ان کی ساری کمزوریاں، خواہ وہ حقیقی ہوں یا محض بہتان تراشی، سب بھلا دی جائیں گی ‘‘۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت ان کی سیاسی زندگی کا عنوان اوراس کاسرنامہ بنی رہے گی۔ ان کی سیاسی زندگی کے کم از کم پانچ ایسے پہلو ہیں جو ان کو دوسرے لیڈروں سے بڑی حد تک ممتاز بھی بناتے ہیں:
پہلی بات یہ کہ اُن کو کسی بھی مسلم ملک کی پہلی وزیراعظم ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ماضی میں مسلم خواتین حکمرانی کے منصب پر فائز ضرور ہوئیں، مگر وہ بادشاہتوں اور سلطنتوں کا زمانہ تھا۔ کسی ملک کی پارلیمنٹ کے ذریعے حکمرانی کے منصب تک پہنچنے کا اعزاز بے نظیر بھٹو ہی کو حاصل ہوا ۔ اس اعزاز کے اور بھی کئی معنی تھے۔
ہمارے یہاں مردانہ بالادستی کے معاشرے اور بوسیدہ نظام ِ اقدار میں کسی خاتون کے عملی سیاست میں حصہ لینے کے فیصلے ہی کو بے شمار مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،چہ جائے کہ وہ اعلیٰ ترین حکومتی منصب پر فائز ہونے کا ارادہ بھی کرے۔ سماجی عوامل کے علاوہ اس طرح کے فیصلے کے آگے بند باندھنے کے لیے مذہب کا نام بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
1965میں صدر ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے پر بعض علمائے سُو نے یہ فیصلہ دے دیا تھا کہ ایک عورت اسلامی ریاست کی حکمران نہیں بن سکتی۔ بے نظیر بھٹو کے خلاف بھی اس طرح کے فتوے سنائے گئے۔ لیکن وہ اس معاندانہ فضا میں بھی انتخابات میں کامیاب ہوئیں اور وزیراعظم بنیں۔ ان کی کامیابی نہ صرف پاکستان کے عوام کی روشن خیالی کی مظہر بنی بلکہ بیرونی دنیا میں بھی اس سے مسلم معاشروں کے بارے میں ایک مثبت تاثر لیا گیا۔
دوسری اہم بات یہ کہ بے نظیر بھٹو بنیادی طور پر ایک مقبول لیڈر کے طور پر ابھریں۔ پاپولزم ایک ایسا سیاسی رجحان ہے جس میں بڑی تعداد میں لوگ ایک لیڈر کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ بظاہر عوام الناس کے ایک بڑے حصے کے لیے وہ ایک کرشمہ ساز رہنما بن جاتے ہیں۔
پاکستان کی تار یخ میں قائداعظم کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو ایسے ہی کرشمہ ساز لیڈر تھے۔ بے نظیرب ھٹو سیاست میں بھٹو کی وارث کی حیثیت سے آئیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ان کی مقبولیت میں اضافے کے اور بھی اسباب پیدا ہوتے گئے۔
اپریل1986میں وہ دو سالہ جلا وطنی ختم کرکے واپس آئیں اور لاہور اتریں تو لاکھوں لوگوں نے ان کا استقبال کیا۔ پھر وہ کراچی آئیں، یہاں بھی ائیر پورٹ سے مزار قائد تک وہ کوئی تیرہ، چودہ گھنٹوں میں پہنچیں۔ اس کے بعد وہ کوئٹہ گئیں۔ ان کا قیام یحییٰ بختیار صاحب کے مکان پر تھا۔ اتفاق سے اپنی ایک تحقیق کے سلسلے میں راقم السطور نے بھی یحییٰ بختیار صاحب سے ٹائم لے رکھا تھا۔
بے نظیر صاحبہ کی کوئٹہ سے رخصت کے بعد اگلے روز میں نے یحییٰ بختیار صاحب سے بے نظیر صاحبہ کی لیڈر شپ کے حوالے سے بھی سوال پوچھا کہ، بھٹو کی سیاسی وراثت ان کو کتنے آگے تک لے جاسکے گی؟ اُن کا کہنا تھا کہ بے نظیر اب اپنے میرٹ پر بھی لیڈر بن رہی ہیں۔ بعد کے بر سوں میں یہ بات سامنے آگئی کہ انہوں نے اپنی سیاست کو نئی آزمائشوں، اپنے فیصلوں، اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کے حوالے سے بھی ایک شناخت سے ہمکنار کیا۔
بے نظیر بھٹو کی سیاست کا تیسرا نمایاں پہلو ان کی بین الاقوامی سطح پر بننے والی پہچان اور ان کی قبولیت (Recognition) ہے۔ وہ پاکستان کے ان دو تین بڑے سیاسی لیڈروں میں سے ایک ہیں جو دنیا کی نظروں میں آئے، جن کی ایک مثبت پہچان بنی۔ انہیں عالمی ذرائع ابلاغ نے بھرپور جگہ دی۔
عالمی لیڈروں سے ان کی ملاقات اور تعلقات ایک بڑے اور خود اعتماد لیڈر کی حیثیت سے ہوتی تھی جس میں بعض اوقات با وقار بے تکلفی کے مظاہر بھی سامنے آتے۔ وہ غیر ملکی رہنماؤں خاص طور سے عالمی طاقتوں کے لیڈروں سے کسی چھوٹے ملک کے ایک دوسرے درجے کے خوشامدی لیڈر کے طور پر نہیں ملتی تھیں۔
امریکہ کے صدر بش سینئیر، صدر بل کلنٹن، برطانیہ کی مارگریٹ تھیچر، ہندوستان کے وزیراعظم راجیو گاندھی، تنظیم آزادیٔ فلسطین کے رہنما یاسر عرفات اور جنوبی افریقہ کے بلند قامت سیاسی رہنما نیلسن مینڈیلا سے وہ ایک پر اعتماد اور باوقار لیڈر کی طرح ملیں۔ خوشامد کا سایہ کبھی بھی ان کی ڈپلومیسی پر نہیں پڑا۔
بے نظیر بھٹو کے کیرئیر کے حوالے سے ایک چوتھا قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ ان کے بارے میں پاکستان اور بیرونِ ملک بہت کچھ لکھا گیا۔ وہ سینکڑوں کتابوں کا موضوع بنیں۔ بیسیوں عالمی جرائدے نے ان پر تفصیلی فیچر اور ان کے انٹرویوز شایع کیے۔ پاکستان کے کم ہی لیڈروں کو اس سطح کا کوریج حاصل ہوسکا۔
پانچواں پہلو ان کی شخصیت سے متعلق ہے۔ انہوں نے پاکستانی سیاست میں اچھے اخلاقی رویوں کا مظاہرہ کیا، بدترین مخالفین کے ساتھ بھی احترام کا رویہ اختیار کیا، ضیاء الحق کے فضائی حادثے میں ہلاک ہونے پر اپنی پارٹی کے کارکنوں کو خوشی کا اظہار کرنے سے باز رکھا اور کہا کہ ہماری تہذیب اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ دشمن کی بھی موت پر کسی قسم کی خوشی کا اظہار کیا جائے۔
بے نظیر بھٹو کی لیڈر شپ کے یہ سب پہلو اور اوصاف تیس سال پر پھیلے ہوئے ان کے سیاسی کیرئیر میں مستقلاً منعکس ہوتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کا سیاسی سفر جولائی 1977میں بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹے جانے اور اُن کی گرفتاری کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔
پونے دو سال بعد بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد ان کی نظر بندیوں اور گرفتاریوں کالامتناہی سلسلہ بھی شروع ہوگیا، کبھی لاڑکانہ کے مکان المرتضیٰ میں، کبھی کراچی میں70 کلفٹن میں، کبھی روالپنڈی میں نظر نبد رہیں۔ انہوں نے سکھر جیل اورکراچی سینٹرل جیل میں قیدِ تنہائی کی صعوبت برداشت کی۔
ان کی آزمائش صرف گرفتاریوں، نظر بندیوں اور قیدِ تنہائی تک محدود نہیں تھی بلکہ ان کو انتہائی افسوس ناک حالات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ سکھر جیل میں ان کو پینے کا جو پانی دستیاب ہوتا تھا وہ اتنا گرم ہوتا کہ مجبوراً وہ اس میں اپنے دوپٹے کو بھگو کر اور پھر اسے نچوڑ کر پینے کے لائق بناتی تھیں۔ قیدِ تنہائی میں ہی ان کی کان کی تکلیف اتنی بڑھی کہ کان سے پیپ اور خون رسنا شروع ہوگیا، اور انہیں ایمرجنسی میں ہسپتال لے جانا پڑا۔
بعد ازاں بین الااقوامی دباؤ پر پہلے بیگم نصرت بھٹو کو علاج کی غرض سے بیرونِ ملک جانے کی اجازت ملی، بعد میں بے نظیر بھٹو لندن منتقل ہوئیں جہاں انہوں نے اپنا علاج کروایا۔ لندن ہی میں انہوں نے پاکستان میں موجود فوجی امریت کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کے لیے مزاحمتی تحریک کو منظم کرنے کا کام شروع کیا۔
انہوں نے مختلف ذرائع سے ملک کی رائے عامہ تک رابطے بحال کیے، پریس پر مختلف طرح کی پابندیاں عائد تھیں، صحافی جو مارشل لاء کے نفاذ کے بعد سے خود بھی آزادی اظہار کی تحریک چلا رہے تھے، بے نظیر نے ان کی جدوجہد کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی حکمتِ عملی بنائی۔ پاکستان کی دوسری سیاسی قوتوں سے بھی سلسلۂ جنبانی استوار رکھا۔
ان کی ملک سے روانگی سے پہلے بحالیٔ جمہوریت کے لیے ایم آر ڈی) (MRDکا پلیٹ فارم 1981میں وجود میں آچکا تھا۔ بے نظیر بھٹو نے باہر جانے کے بعد بھی اس پلیٹ فارم کو فعال رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے ملک سے اپنی جلاوطنی کے زمانے میں عالمی پریس سے گہرے رابطے قائم کیے، مغربی ملکوں بالخصوص برطانیہ کی پارلیمنٹ اور امریکہ کی کانگریس کے اراکین کے ساتھ روابط استوار کیے اور پاکستان میں بحالیٔ جمہوریت کے لیے ان کی حمایت حاصل کی۔
بے نظیر بھٹو کا پہلا دورِ حکومت
بے نظیر کو اقتدار سخت شرائط کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔ ملک کی خارجہ پالیسی، خاص طور سے علاقائی امور اورساتھ ہی اقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے وہ اپنی اسمبلی اور حکومت کے مشورے سے فیصلے کرنے سے باز رکھی گئیں۔ان سب فیصلوں کا اختیار ملک کی مقتدرہ یا اسٹیبلشمنٹ کے لیے مختص کر دیا گیا تھا۔
دوسرے لفظوں میں وہ شریک ِ اقتدار کی گئی تھیں، مسند اقتدار پر فائز نہیں ہوئی تھیں۔ ان کو اقتدار میں شریک کرتے وقت ایک شرط یہ بھی رکھی گئی تھی کہ وہ پنجاب میں مسلم لیگ اور نواز شریف کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کریں گی۔
اُن دنوں نواز شریف مقتدرہ کے قریبی حلیف بلکہ اسی کے پروردہ تھے۔ ان سے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا حلف بے نظیر کے وزیر اعظم کاحلف اٹھانے سے پہلے لیا گیا تاکہ بے نظیر وزیراعظم بننے کے بعد ان کے وزیر اعلیٰ بننے میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔
بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کوئی بڑے اور بنیادی فیصلے کرنے کی اہل نہیں رہی تھی، بظاہر کچھ عرصے کے لیے اس غرض سے شریک ِ اقتدار کیا گیا تھا کہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ ملک میں جمہوریت بحال ہوگئی ہے۔ لیکن بے نظیر کے اس دور کو اُنیس ماہ سے زیادہ برداشت نہیں کیا گیا۔
ان پر امن و امان قائم نہ کر پانے اور کرپشن کے الزام عائد کیے گئے ۔ 6 اگست 1990کو جب دنیا کی نظریں کویت پر عراق کے قبضے پر گٹری ہوئی تھیں، صدر غلام اسحاق نے قومی اسمبلی توڑ نے اور بے نظیر کی حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
دوسرا دورِ اقتدار
بے نظیر کی پہلی حکومت کے خاتمے کے بعد 29اکتوبر کو ہونے والے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کے بنائے ہوئے دائیں بازو کی مختلف جماعتوں کے گروپ اسلامی جمہوری اتحاد(آئی جے آئی )نے کامیابی حاصل کی جبکہ پیپلز پارٹی اور اس کے حلیف حزب اختلاف میں بیٹھے۔
آئی جے آئی کے بارے میں بعد ازاں خود اس کے سیکریٹری جنرل پروفیسر غفور احمد نے ایک موقع پر اعتراف کیا کہ اس کو اسٹیبلشمنٹ نے ہی بنایا تھا۔ لیکن آئی جے آئی کے وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی جلد ہی صدر اسحاق خان سے تصادم میں آئے جس کا انجام 1993میں فوج کی مداخلت کے بعد دونوں کے مستعفی ہونے پر ہوا۔
بعد ازاں 6اکتوبر1993کو ہونے والے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی دوبارہ اقتدار میں آئی۔ اس مرتبہ اس نے مسلم لیگ جونجو گروپ کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ یہاں سے بے نظیر بھٹو کا دوسرا دورِ اقتدار شروع ہوا۔
دوسرا دور بھی شراکت اقتدار کا دور تھا لیکن اس مرتبہ بے نظیر بھٹونے مصالحت اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنے لیے سیاسی گنجائش نکالی۔ نئے صدر کے انتخاب میں پارٹی کے جنرل سیکریٹری فاروق لغاری کو کامیاب کروایا۔ بظاہر اس مرتبہ ان کے لیے کام کرنے کی زیادہ گنجائش موجود تھی، مگر شراکت ِ اقتدار کی پابندیاں اپنی جگہ برقرار تھیں۔ بالادست ادارے ہنوز بالادست تھے مگر اندرونی طور پر بھی ان کی مشکلات کچھ کم نہیں تھیں۔
صوبہ سندھ میں ہر چند پیپلز پارٹی کی حکومت تھی لیکن نواز شریف کے دور میں یہاں جو فوجی آپریشن شروع ہوا تھا وہ جاری تھا اور ایم کیوایم کے ساتھ ریاستی اداروں کی لڑائی میں پیپلز پارٹی زیادہ سے زیادہ سیاسی بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے بحران کو کم کرنے کی کوشش کر سکتی تھی۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی قیادت کے درمیان پورا عرصہ مذاکرات ہوتے رہے لیکن یہ دونوں حالات کو کنٹرول کرنے پر مکمل طور پر قادر نہیں تھے۔
دوسری طرف بے نظیر کی حکومت عدلیہ کے ساتھ بھی تصادم میں آئی جس نے اس کے لیے مسائل پیدا کیے۔ حکومت پر بدعنوانی کے الزامات مسلسل لگتے رہے، امن و امان کے قیام میں ناکامی بھی ہر ایک کی نظر میں تھی۔
ایسے میں ان کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کا قتل آخر ی وارثابت ہوا۔ صدر لغاری اور بے نظیر بھٹو کے درمیان کئی امور پر اختلافات پہلے ہی شروع ہوچکے تھے، بے نظیر بھٹو کا یہ دور بھی 58(2)b کی تلوار سے 1996کے آداخر میں ختم کیا گیا۔
سیاسی و جمہوری جدوجہدکا ایک اور مرحلہ
جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں بے نظیر بھٹو کابیشتر وقت پاکستان اور بیرون ملک گذرا۔ پاکستان میں انہوں نے اپنا وقت اپنی پارٹی کے امور کو دیکھنے، سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ عدالتوں میں پیشیاں بھگتنے، اپنے اسیر شوہر کے مقدمات کو دیکھنے اور جیل کے چکر لگانے میں گذارا لیکن پھر بیرونِ ملک منتقل ہونے پر انہوں نے ایک مرتبہ پھر لندن اور دبئی کو اپنا مرکز بنایا، جہاں سے وہ اپنی جماعت کو رہنمائی فراہم کرنے اور عالمی سطح پر پاکستان میں ایک بار پھر جمہوریت کی بحالی کے لیے لابنگ کرنے میں مصروف رہیں۔ 14مئی2006 کو انہوں میاں نوز شریف کے ساتھ جو جنرل مشرف کی قید سے رہائی کے بعد سعودی عرب منتقل ہوچکے تھے۔
لندن میں ’میثاقِ جمہوریت‘(Charter of Democracy) پردستخط کیے۔اس چارٹر میں جہاں اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ آئندہ یہ دونوں جماعتیں ماضی کی ان غلطیوں کو نہیں دہرائیں گی جو انہوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے 1988سے 1999کے درمیان گیارہ سال جاری رکھی تھیں۔ یہ بھی طے کیا کہ اب جو بھی مستقبل میں اقتدار میں آئے گا، دوسری جماعت اُس کو پانچ سال سے پہلے اقتدار سے محروم کرنے کی کوشش نہیں کرے گی۔
میثاقِ جمہوریت‘ میں یہ بھی طے پایا کہ مستقبل میں آئین میں بعض اہم ترامیم کی جائیں گی۔ آئین میں دی گئی مشترکہ مضامین کی فہرست (Concurrent List)حذف کر دی جائے گی اور اس میں درج مضامین کو صوبوں کی طرف منتقل کر دیا جائے گا۔ آئین کو اس کی اصل روح یعنی پارلیمانی نطام کی طرف واپس لے جانے کا عزم بھی اس میثاق میں درج کیا گیا تھا۔
اگست 2007میں دبئی میں بے نظیر بھٹو کی جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ملاقات ہوئی جس میں یہ طے ہوا کہ پاکستان میں اقتدار کی شراکت کا کچھ ایسا اہتمام کیا جائے گا کہ جس میں نئے انتخابات کے بعد جمہوری حکومت اقتدار میں آئے گی۔مشرف کے ساتھ اس اتفاق رائے کا راستہ امریکہ نے استوار کیا تھا۔ لیکن بعد ازاں یہ بات سامنے آئی کہ مشرف کے خیال میں بے نظیرکو الیکشن کے بعد واپس آنا تھا جب کہ بے نظیر اس سے پہلے واپس آئیں۔
واضح رہے کہ 2006میں’ میثاقِ جمہوریت ‘کے موقع پر انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ الیکشن سے پہلے ملک جائیں گی اور الیکشن میں حصہ لیں گی، اسی خیال کا اظہار میاں نواز شریف نے بھی اپنے حوالے سے کیا تھا۔
انتخابات فروری 2008میں ہونا طے پائے تھے۔ بے نظیر بھٹو 18اکتوبر 2007 کو پاکستان پہنچیں۔ لیکن اُن کی واپسی شدید خطرات کے جَلو میں ہوئی۔ اندورنِ ملک اسٹیبلشمنٹ نے امریکی دباؤ پر ان کے ساتھ مصالحت کا عندیہ تو دیا تھا لیکن ان سے اور ان کی پارٹی سے مقتدرہ کی دیرینہ عداوت میں کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔
اس پورے عرصے میں ایک بڑا واقعہ یہ بھی ہوا کہ ملک میں مذہبی انتہا پسندتوان کے خلاف تھے ہی، لیکن اب مذہبی انتہاپسندی کا بین الاقوامی نیٹ ورک بھی ان کے خلاف متحرک ہوچکا تھا۔ بے نظیر خود یہ کہتی رہی تھیں کہ 1989میں ان کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کو اس نیٹ ورک کی بھی پشت پناہی حاصل تھی اور اراکین اسمبلی کو خریدنے کے لیے اسامہ بن لادن سے بھی مالی معاونت حاصل کی گئی تھی۔
27دسمبر 2007کو راولپنڈی کے جلسہ ٔ عام میں اپنی جذبات سے بھرپور تقریر کے بعد جس میں انہوں نے پاکستان کو عوام کی امنگوں کے مطابق ایک فلاحی اور جمہوری مملکت بنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا، جلسے سے واپس جاتے ہوئے وہ ایک بڑی دہشت گرد کارروائی کا نشانہ بنیں۔
راولپنڈی کے اسی باغ کے دروازے پر اپنی جان جانِ آفر یں کے سپرد کر دی جس باغ میں ملک کے پہلے وزیراعظم کو بھی شہید کر دیا گیا تھا۔ تب وہ کمپنی باغ کہلاتا تھا۔ اب اس کا نام لیاقت باغ ہو چکا تھا۔ پاکستان میں جمہوریت اور شہادت کا ایک گہرا رشتہ بہت شروع میں قائم ہوگیا تھا۔
بے نظیر بھٹو کا مجموعی سیاسی کیرئیر جہاں ایک طرف آمریتوں کے خلاف کی پُر عزم مزاحمت کا حامل رہا وہیں انہوں نے اپنے تئیں عملیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مفاہمت کا راستہ بھی اختیار کیا۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ اُن کی پہلی کتاب ’دختر مشرق‘ اُن کے احتجاج اور مزاحمت کی تفصیلات پر مشتمل ہے جبکہ ان کی آخری کتاب کا عنوان ہی ’مفاہمت‘ (Reconciliation)ہے۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں یہ دونوں راستے اختیار کیے ۔ یہ ایک المیہ ہے کہ دونوں ہی راستے ان کو شہادت کی طرف لے گئے۔