• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موسم سرما کی آمد آمد ہے۔ اس کے ساتھ شمالی یخ بستہ ہوا کی آمد کا دھڑکا لگا ہے۔ تاہم روسی سائبیریا سے طویل اُڑان لئے خوبصورت ٹورسٹ پرندے پہنچ چکے ہیں۔ ان پرندوں نے ہمارے دریائوں، کھاڑیوں، ندی نالوں کے پانیوں اور فضا کو گلیمرائز کر دیا ہے۔ صبح صادق ’’چرر چرر‘‘ کی مترنم آوازیں اور آسمانی بلندیوں سے وائلن اور گٹار جیسی گونج (Resonate) مرغابیوں، سارس، وارڈرز اور ٹیل کے پہنچنے کی نوید ہیں۔ افسوس کہ اس دوران اپنے Talented نوجوانوں کی بیرون ملک ہجرتوں کے ارادوں، تیاریوں اور روانگیوں کو دیکھ کر دل گرفتہ ہیں۔ ہم شرمندہ بھی ہیں کہ نوجوان نسل کی مایوسیوں اور صعوبتوں میں سینئر نسل کی نفسانفسی اور بدانتظامی بھی ذمہ دار ہے۔

سائبیریا سے آنے والے زندہ دل اور مہمان پرندوں کے سالانہ شیڈول کو ملاحظہ کریں تو انسانی کم مائیگی اور ناقص پلاننگ کا احساس شدید ہو جاتا ہے۔ پرندوں کے یہ ہزاروں غول سالانہ اوسطاً بیس ہزار کلومیٹر کی فلائٹس لیتے ہیں۔ اپنے لئے راحتیں بھی تلاش کر لیتے ہیں، اس کیساتھ ہزاروں سال سے اپنی نسلوں کی بقا کیلئے کامیابی بھی۔ موسموں کی شدت، طویل ہوائی مسافتیں، آفات اور شکاریوں کے ہاتھوں ساتھیوں کی ہلاکت، انکی ہمتوں اور سفری شیڈول کو متاثر نہیں کرتیں۔ یہ پرندے اپنے حقیقی وطن سائبیریا کی محبت میں ہر وقت وارفتہ رہتے ہیں۔ اپنے بچوں کی پیدائش و افزائش (Breeding) کا فریضہ (مارچ سے اگست) اپنے مادرِ وطن کی خوبصورت وادیوں کوہما، کونڈا، سوسا وغیرہ میں ہی انجام دیتے ہیں۔ ان وادیوں میں بہتے خوبصورت دریائے الیزا، یانا اوب اور سوس کے مرغزار ان کے بریڈنگ سنٹر بنتے ہیں۔

ستمبر، اکتوبر کے مہینوں میں مٹیالی، روپہلی،عنابی اور نیلی رنگت والےپرندے اپنے نوجوانوں کے ہمراہ دنیا بھر کی سیاحت کیلئے اُڑان بھر لیتے ہیں، آسمانوں پر پھیل جاتے ہیں۔ ان خوبصورت پرندوں کے بے شمار غول شمالی فضائوں میں ٹینڈرا، ٹائیگا، دریائے آمولہ پر ٹرانزٹ کرتے چین کی عظیم جھیلوں کے سلسلے پویانگ اور دریائے زرد تک پہنچ جاتے ہیں۔ جنوب کے رُوٹ پر ان پرندوں کی کثیر تعداد پنجاب، سندھ و راجستھان کے دریائوں اور محفوظ مہمان گاہوں سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ بعدازاں مشرقِ بعید، جاپان اور بحرالکاہل کے اس پار برٹش کولمبیا (بی-سی) کینیڈا و شمالی امریکہ کو چھو لیتے ہیں۔ مچھلیوں، آبی حشرات سے خوراک کی ضروریات پوری کرتے ہیں اور انکی پروٹین کو اپنے جسموں کا حصہ بناتے، یہ پرندے اپنی دیرینہ جنم بھومی سائبیریا کے میدانوں کی راہ لیتے ہیں۔

ہزاروں سال پر محیط ان پرندوں کی نسلی بقا میں کئی راز مضمر ہیں۔ انفرادی ڈسپلن، شیڈول کی پابندی اور ہر پرندے میں قائدانہ صلاحیتوں کی موجودگی انکی نمایاں خوبیاں ہیں۔ جھنڈ (Flock) کی قیادت منزل منزل سال بہ سال تبدیل ہو جائے لیکن ان کی اجتماعی کارکردگی متاثر نہیں ہوتی۔ ہر قائد پرندہ بری، بحری راستوں (Navigation) سے آگاہ ہوتا ہے۔ دورانِ سفر قائد پرندے کی میوزیکل کال جھنڈ کیلئے حکم ہوتی ہے۔ قائد پرندہ قیادت سے معذور ہو جائے، شکاریوں کے ہتھے لگ جائے تو فوراً اگلا سینئر چارج سنبھال لیتا ہے۔ غول کا کوئی نوخیز یا جواں سال اپنے مرحوم باپ کی جگہ قیادت کا دعویٰ نہیں کرتا، کیونکہ یہ منصب بغیر میرٹ کے نصیب نہیں ہوتا۔ ٹورسٹ پرندوں کے یہ سالانہ سفر ان کی مجبوری نہیں بلکہ خوداختیاری ہیں۔ ہر سال نئی منزلوں کی تسخیر، نوجوان نسل کی عملی تربیت، طویل سیاحتوں کے ذریعے خوراک اور راحتوں کا حصول ان نسلوں کی بقا کا راز بن گیا ہے۔سائبیریا کے یہ درویش پرندے طائرلاہوتی کی طرح Behave کرتے ہیں۔ انکی سیاحتوں میں عبادتوں جیسی پابندی اور خشوع دکھائی دیتا ہے۔ انکی پروازوں میں کوئی کوتاہی نہیں۔ یہ شاید خالق کی طرف سے کسی اولیائی مشن پر رہتے ہیں اور انکے غیرتحریری فرائض میں ہر سال زمینی جغرافیہ کی رپورٹوں کی تیاری بھی شامل ہے۔

آیئے اب آپ کو ملک پاکستان کے بین الاقوامی ایئرپورٹس کے مناظر دکھاتے ہیں جہاں سے ہر روز مایوس نوجوانوں کے غول بیرونِ ملک نقل مکانی کر رہے ہیں۔ نوجوان نسل کی اس اُداس ہجرت کے اسباب میں اِس ملک کی سیاسی بے یقینی، معاشی ترقی کے محدود مواقع، بے روزگاری، پیشہ ورانہ ہنر کی بے قدری، ناقص حکمرانی، معاشرتی عدم استحکام اور جان و مال کے لئے خطرات شامل ہیں۔ نوجوانوں نے اپنے میرٹ کے بل بوتے پر بارہا آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن شرفاء (Elite) کے نامزد کردہ ان کی رکاوٹ بن گئے۔ انہوں نے سیاست کو عبادت سمجھ کر اصلاحات کیلئے جدوجہد کی، لیکن سیاسی پارٹیوں کے مناصب اور قومی و صوبائی قیادتوں پر نسل در نسل خاندانی نسبتوں نے قبضہ جما رکھا ہے۔ ناچار تمام راستے مسدود پا کر یہ لوگ شاید ہمیشہ کے لئے ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

محولہ بالا تمام مصائب کے باوجود ہماری نوجوان نسل سے درخواست ہے کہ اُمید کا دامن نہ چھوڑیں۔ موجودہ ملکی قیادت کے پیش نظر انقلابی اصلاحات کا ایجنڈا زیرغور ہے۔ جس کے تحت نئے صوبوں کی تخلیق، بنجر زمینوں کی زراعت کیلئے بحالی، سیلابی پانیوں کے ذخائر کی تعمیر، قیمتی معدنیات کی بازیافت اور فروخت، آئی ٹی شعبہ میں تیز رفتار ترقی وغیرہ شامل ہیں۔ ان منصوبوں پر عمل درآمد سے یقیناً علم و ہنر کا فروغ ہو گا، نئے روزگار پیدا ہوں گے۔ ملکی معیشت کو استحکام حاصل ہو گا۔ علاوہ ازیں سیاسی اور معاشی اجارہ داریوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔

تازہ ترین