• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریاضی میں ایک دلچسپ تصور ہے جسے Bayes' Theorem کہتے ہیں، یہ تھیورم ہمیں بتاتا ہے کہ کیسے نئے شواہد کی روشنی میں اپنے پرانے نظریات یا اندازوں کو تبدیل کیا جانا چاہیے۔ فی الحال ریاضی چونکہ ہمارا موضوع نہیں لہٰذا مختصراً اِس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی کسی مسئلے سے متعلق آپکو نئی معلومات ملیں تو اپنے پرانے نظریے کو کیوں کر تبدیل کرنا چاہیے! اس تھیورم کا نام 18ویں صدی کے برطانوی ریاضی دان تھامس بیز کے نام پر رکھا گیا تھا۔ بیز تھیورم ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمیں کبھی بھی اپنے عقائد میں سخت گیر نہیں ہونا چاہیے، دانشمندی اِس میں ہے کہ جیسے ہی نیا ثبوت یا حقائق سامنے آئیں، ہم اپنے پرانے خیالات پر نظر ثانی کر لیں۔ یہ نہ صرف ریاضی کا کلیہ ہے بلکہ تنقیدی شعور کا بہترین اصول بھی ہے۔ اب اِس کلیے کو ایک مسئلے پر منطبق کرکے دیکھتے ہیں۔ ”پاکستان میں فنکار کی قدر نہیں کی جاتی۔“ یہ جملہ سن سن کر کان پَک گئے ہیں، اور یہ بات اس قدر دہرائی گئی ہے کہ لوگ اسے سچ ماننے لگے ہیں۔ کیا یہ بات واقعی درست ہے؟ بیز تھیورم کی رُو سے اگر اِسکے برعکس شواہد سامنے لائے جائیں تو ہمیں اپنی رائے تبدیل کر لینی چاہیے۔ اب سوال یہ ہے کہ حقائق کیا ہیں؟ کیا حکومت فنکاروں کی سرپرستی نہیں کرتی؟ اور اِس سے بھی پہلے، کیا حکومت کو سرپرستی کرنی بھی چاہیے یا نہیں؟ کیا معاشرہ فنکاروں کی بے قدری کرتا ہے اور انہیں ’کنجر‘ اور ’میراثی‘ جیسے القابات سے نواز کر اُنکی تذلیل کرتا ہے؟

ہر اچھا فنکار کبھی نہ کبھی عروج ضرور دیکھتا ہے، یہ عروج اُس کی صلاحیت اور قسمت کے حساب سے ملتا ہے، ضروری نہیں کہ ہر کسی کو سلطان راہی، نور جہاں، مہدی حسن یا نصرت فتح علی خاں جیسا عروج نصیب ہو، مگر جیسا بھی عروج ہو، اس دوران فنکار پیسے ضرور کماتا ہے اور اپنی بساط کے مطابق نخرہ بھی کرتا ہے۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ فنکار لاکھوں کروڑوں روپے کماتے ہیں، دنیا بھر میں گھوم پھر کر شوز کرتے ہیں، اور اُس کے بعد چار شادیاں اور ڈیڑھ درجن بچے پیدا کرکے سب کچھ لٹا دیتے ہیں۔ چرس، افیون، گانجا اور شراب کے خرچے اس کے علاوہ ہیں۔ پھر اِن فنکاروں کی بڑھاپے میں بسترِ مرگ پر تصاویر دکھائی جاتی ہیں اور میڈیا پر ایک ہی بات دہرائی جاتی ہے کہ فلاں گلوکار یا موسیقار کسمپرسی کی حالت میں اسپتال میں داخل ہے، حکومت بے حس ہے اور معاشرہ فنکار کی قدر نہیں کرتا۔حقیقت یہ ہے کہ فنکار خود اپنی قدر نہیں کرتا، وہ سمجھتا ہے کہ اُس کے مستقبل کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے چاہے اُس نے اپنے عروج میں کروڑوں ہی کیوں نہ کمائے ہوں۔ دراصل اِس غلط فہمی کا ایک خاص پس منظر ہے۔ تاریخی طور پر برصغیر میں راجے، مہاراجے اور نواب فنکاروں کی سرپرستی کیا کرتے تھے، اگر کسی نواب صاحب کو ستار سننا پسند تھا تو وہ ستارنواز کا ماہانہ وظیفہ مقرر کر دیتا تھا، کسی کو گائیکی پسند آتی تو وہ مغنیہ کے نان نفقے کا بندوبست کر دیتا تھا۔ اب نہ نواب رہے نہ مہاراجے، اب وہ روایتیں نہیں رہیں، وہ ثقافت اب ماضی کا حصہ بن چکی، اب کارپوریٹ دور ہے، اب فنکار کو اپنے فن کے زور پر کمانا ہے اور اچھے فنکار کماتے ہیں اور پیسے بناتے ہیں، مگر چند ہی ایسے ہوتے ہیں جو اُن پیسوں کو سرمائے میں تبدیل کر سکیں، زیادہ تر ہاتھ جھاڑ کر فارغ ہو جاتے ہیں اور پھر وہی ہاتھ لوگوں اور حکومت کے آگے پھیلا دیتے ہیں۔ اور صرف فنکار ہی نہیں، معاشرے کا عمومی رویہ ہی یہ بن چکا ہے۔ ’ہمیں عزت نہیں ملی۔ ہماری قدر نہیں کی گئی۔‘ اصل مسئلہ یہ نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں عام آدمی کو مالی نظم و ضبط کا کوئی تصور نہیں اور فنکار بیچارے تو بالکل ہی اس سے نا آشنا ہیں، مالیاتی منصوبہ بندی ایک ہُنر ہے جو ہمارے ہؤاں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی نہیں سیکھتے اور فنکار تو واجبی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، انہیں پتا ہی نہیں کہ بڑھاپے کیلئے کتنی رقم کیسے پس انداز کرکے رکھنی ہے۔

اب آجاتے ہیں معاشرے کی بے قدری پر۔ کچھ سال پہلے تک لوگ فنکاروں، موسیقاروں، گلوکاروں اور اداکاروں کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے، انہیں گھٹیا القابات سے پکارتے تھے۔ لیکن وقت بدل رہا ہے اور کافی حد تک بدل چکا ہے۔ ثبوت چاہیے تو پاکستان آئیڈل دیکھ لیں، اِس پروگرام میں ایسا ایسا ٹیلنٹ سامنے آ رہا ہے کہ یقین نہیں آتا کہ یہ پاکستان جیسا ملک ہے جہاں موسیقی سیکھنے کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ عام گھرکے لڑکے لڑکیاں، کوئی یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے تو کوئی نوکری کر رہا ہے، بغیر کسی استاد کے، بغیر کسی روایتی تربیت کے اِس پُروگرام میں نمودار ہو رہے ہیں اور ایسے سُریلے گیت گا رہے ہیں کہ جن کا ڈنکا سرحد پار بھی بج رہا ہے۔ اِن بچوں کا تعلق نہ موسیقی کے کسی گھرانے سے ہے اور نہ ہی یہ باقاعدہ ریاض کرتے ہیں، یہ صرف اپنے شوق کی خاطر گاتے ہیں۔ اِن حالات میں موسیقی کے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کا یہ کہنا کہ موسیقی سے اُنکے عشق اور شوق کی قدر نہیں کی جاتی دراصل ایک واہمہ ہے۔ شوق کو شوق کی طرح پالیں اسے ذریعہ معاش نہ سمجھیں، یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ آپ کا شوق آپ کیلئےپیسے کمانے کا ذریعہ بھی بنے گا، اگر بن جائے تو اِس سے اچھی کوئی بات نہیں لیکن وہ غالب نے کہا نا کہ ”شوق، ہر رنگ رقیبِ سرو ساماں نکلا۔“ سو، اگر آپ کو طبلہ بجانے کا شوق ہے تو ضرور بجائیں مگر حکومت کو یہ نہ کہیں کہ آپ کا شوق پورا کرے، یہ ایسے ہی جیسے میں کہوں کہ مجھے ہارلے ڈیوڈسن چلانے کا شوق ہے تو حکومت مجھے یہ ہیوی بائیک خرید کر دے۔ اگر آپ نے شوق پورا کرنا ہے تو اپنے پیسوں اور اپنے وقت سے کیجیے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی کام دھندا نوکری کاروبار کریں اور اس کے بعد جو دل میں آئے وہ کریں۔

یہ بات لکھتے ہوئے مجھے تکلیف ہو رہی ہے مگر سچ یہی ہے کہ ہم ایک ناشکری قوم ہیں، ایک فنکار کو تمغہ حسنِ کارکردگی ملتا ہے، پھر ستارہ امتیاز سے نوازا جاتا ہے، اُس کے بعد ہلال امتیاز عطا کیا جاتا ہے، چالیس ممالک میں وہ فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے، صدور اور وزرائے اعظم اُس کے فن کی ستائش کرتے ہیں مگر وہ یہی افسوس کرتا ہے کہ تمغوں کے ساتھ نقد رقم نہیں ملی۔ بندہ خدا شکر کرو کہ تمہارا شوق ہی تمہیں اِس ملک میں عروج پر لے گیا، اور کیا چاہیے۔ نہ جانے کیوں ہم اپنے آپ کو طعنے دیتے ہیں کہ اِس ملک میں فنکار کی قدر نہیں کی جاتی، اگر یہ بے قدری ہے تو پھر قدر کیسے کی جاتی ہے، پلیز کوئی مجھے سمجھا دے!

تازہ ترین