دسمبر کا مہینہ ہمیشہ سے شاعروں، مصوّروں اور دانشوروں کے لیے محبت اور رومانس کا مہینہ رہا ہےـ دسمبر کی سردی اور دھند اور ماحول میں چھائی ہوئی گہری اداسی شدت سے اپنے بچھڑے ہوئے پیاروں کی یاد دلاتی ہے ـ یہ نئے سال اور نئے ولولوں کے آغاز اور پرانے سال کے خاتمے کا اعلان بھی ہے ـ اس میں ولادتِ مسیح علیہ السلام کے حوالے سے کرسمس کا خوشیوں بھرا تہوار بھی منایا جاتا ہے جو اب مذہبی تہوار سے بڑھ کر ایک ثقافتی تہوار کی شکل اختیار کر چکا ہے اور جسے ساری دنیا کے تمام انسان بالحاظِ مذہب و ملت مل کر مناتے ہیں لیکن ہماری قومی تاریخ میں یہ مہینہ ایک واقعہ کو چھوڑ کر دکھوں کا مہینہ رہا ہے اور وہ ایک واقعہ ہے بانی پاکستان محمد علی جناح حضرت قائد اعظم کا یومِ ولادت جنہوں نے ہمیں پاکستان کی شکل میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست بخشی لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اسی مہینے کی 16 تاریخ کو قائد اعظم کی بخشی ہوئی دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست دو ٹکڑے ہو گئی بلکہ وہ واقعہ بھی ظہور پذیر ہوا جو دنیا میں ہماری بدنامی اور رسوائی کا باعث بنا اور ایک پرامن اور مہذّب ملک ہونے کے دعوے پر ہمارے اوپر کئی سوالیہ نشان چھوڑ گیا اور وہ تھا آرمی پبلک اسکول کا وہ دل خراش سانحہ جس میں سفاک دہشت گردوں نے انتہائی بے رحمی سے 100 سے زائد معصوم بچوں اور ان کے اساتذہ کو شہید کر دیا تھا گویا 16 دسمبر نے ہمیں دو مرتبہ احساس دلایا کہ ہمارا قومی سفر مہلک غلطیوں کے دائرے کا سفر ہے جس کا کوئی تعلق عوامی اصلاح و بہبود اور ملکی استحکام کے ساتھ نہیں ـ 16 دسمبر 1971 ہماری سیاسی, جماعتی اور سماجی ناکامیوں کا مظہر تھا جس نے دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صرف 23 سالوں میں ایک ملک کے حصے بخرے کر دیئے۔ یہ عمل ہمیں بتاتا ہے کہ ہماری یہ غلطیاں کتنی خوفناک تھیں جنہوں نے اتنی کم مدت میں ہمیں توڑ پھوڑ کر رکھ دیا حالانکہ 23 سال سے کہیں زیادہ تو افراد کے باہمی تعلقات بھی قائم رہتے ہیں جبکہ ملکوں کی عمریں تو صدیوں تک پھیلی ہوتی ہیں ـ اسی طرح 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے بچوں کے خون کی ہولی نے ہمارے خود ساختہ "نظریہ پاکستان " کو بھی خون میں نہلا دیا اور بتا دیا کہ اگر مذہب کی بنیاد پر ملکوں کی تشکیل کی جائے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان مذہب کو اور اس کے بعد اس ملک کی سالمیت کو پہنچتا ہے اور سب سے زیادہ خون خرابے کا شکار اس ملک کے عوام ہی اپنے ہم مذہب جنونیوں کے ہاتھوں بنتے ہیں ـ ہم نے ہوش سنبھالتے ہی قومی یکجہتی کے حوالے سے ایک ہی بھاشن سنا تھا کہ مذہب مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان سب سے مضبوط رشتہ ہے جسے کوئی نہیں توڑ سکتا اور دیگر غیر مذاہب کے لوگوں کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے ریاست کو مذہبی بنیادوں پر مضبوط کرنا زیادہ ضروری ہے لیکن یہ دونوں مفروضے 16 دسمبر نے ہوا میں اڑا دیئے اول ـ مذہب کا رشتہ ملک کے دونوں حصوں کو متحد نہ رکھ سکا جہاں غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی اور دوم نہ ہی پھول جیسے معصوم بچوں کو بے دردی سے قتل کرنے والے اپنے ہم مذہب دہشت گردوں کو کوئی روک سکا ـ یہ ویسے بھی کتنی غیر حقیقت پسندانہ بات ہے کہ صدیوں سے ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے کئی علیحدہ علیحدہ ملک ہیں جو وقتا فوقتا آپس میں لڑتے بھی رہے ہیں جب وہ کبھی اکٹھے نہیں ہو سکے تو آپ نے کیسے فرض کر لیا کہ آپ صرف مذہب کی بنیاد پر مختلف کلچر اور مسائل رکھنے والے عوام کو اکٹھا رکھ سکیں گے ۔ یہ فوجی اور غیر فوجی اسٹیبلشمنٹ کا دیا ہوا فسطائیت پر مبنی وہ نظریہ تھا جسے وقت نے باطل ثابت کر دیا لیکن اسی دسمبر میں پیدا ہونے والے بانی پاکستان کے نظریات کا اس خود ساختہ نظریہ پاکستان سے کوئی تعلق نہیں نہ تھا اگر ہوتا تو وہ اپنی پہلی کابینہ میں دو اہم ترین عہدے دوسرے مذاہب کے لوگوں کو نہ دیتے کیا وزارت قانون جیسا اہم ترین محکمہ قائد اعظم نے ایک ہندو قانون دان جو گندر ناتھ منڈل کو اس لیے دیا تھا کہ وہ ملکی قوانین کو مذہبی بنیاد پرستی پر تشکیل دے ؟ دسمبر کے دکھ صرف یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ 27 دسمبر 2007 کو پاکستان کو آئین بخشنے والی جماعت اور اسلامی دنیا کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے سفّا کانہ قتل نے جاتے جاتے دسمبر کو اور سوگوار کر دیا ـ اس سے پہلے محترمہ کے والد پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے دونوں صاحبزادوں میر شاہنواز بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو کو بھی قتل کر دیا گیا تھا ـ 16 دسمبر کو جن دو واقعات نے پاکستان کے سینے پر گہرے زخم لگائے اسکے اثرات 27 دسمبر کو بی بی کی شہادت کی صورت میں ظاہر ہوئے جس کا مطلب یہ تھا کہ جب ملک کو آئین ، قانون اور فطری اصولوں کیخلاف چلانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اسکے نتیجے میں اس ملک کی حقیقی لیڈرشپ کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے جس کے بعد ملک کٹی ہوئی پتنگ کی طرح لٹیروں کے ہاتھ میں آ جاتا ہے ـ اس ملک کے بدقسمت عوام کو سہانے مستقبل کے سپنے دکھانے والے بازیگر دسمبر کے دکھوں کا مداوا کرینگے تو ہی عوام کے خواب پورے ہوں گے اور خوشحالی کا نیا سال شروع ہو گا۔آرمی پبلک اسکول کے معصوم پھولوں کی شہادت کے حوالے سے ۔
پھولوں کا قتل تھا کہ تھی انسانیت کی موت
آنکھوں سے اب تلک وہ نظارہ نہیں گیا
ہر دور میں ہوا یہاں بچوں کا قتلِ عام
موسیٰ مگر فرعون سے مارا نہیں گیا