• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ تاریخی حقیقت اور انسانی المیہ ہے کہ نمایاں خوبیوں اور خصوصیات کے حامل افراد زیادہ تر بادشاہوں اور امراء کے خدمت گزار بن گئے۔ اچھے شاعر، گلوکار، موسیقار، طبیب، کھلاڑی، پہلوان، باورچی اور ہنرمند شاہی عنایات اور روزگار کے حصول کیلئے اپنی بستیوں سے نکل پڑے۔ شاہوں کی نظر التفات کیلئے کوشاں رہے اور جب قربت شاہی حاصل ہو گئی تو اپنی صلاحیتیں اور فن بھی نذرِ دربار کر دیا اور یوں صدیوں تک اپنی پرانی بستیوں کی طرف رجوع نہ کیا اور نہ ہی اپنی گوناگوں خصوصیات سے عوام الناس کو مستفید کر سکے۔ فن تعمیر کے پرانے ماہرین کا رویہ بھی اس سے مختلف نہیں رہا۔ انہوں نے امراء اور شاہوں کی عظمتوں کی دھاک بٹھانے کیلئے ایسی عظیم عمارات کے شاہکار تخلیق کئے کہ آج بھی عقل حیران ہے۔ اہرامِ مصر ان عمارات کی مثال ہے۔ اس کے عظیم اسٹرکچر کو چونے کے پتھر اور گرینائٹ کے عظیم بلاک کاٹ کر، جوڑ کر بنایا گیا، لیکن ان اہراموں کی پائیداری ان پتھروں کے بلا کم و کاست جوڑہیں۔ جزائر مالٹا کے عظیم مقناطیسی معبد کی عمارت بھی قدیم فن تعمیر کا شاہکار ہے جو 3600 سال قبل مسیح میں تعمیر کئے گئے۔ ان عمارات کو بھاری پتھروں کو جوڑ کر بنایا گیا جس میں کوئی مسالہ یا سیمنٹ کا استعمال نہ ہوا، بلکہ انٹرلاک کر کے جوڑ دیا گیا۔ قدیم رومن آرکیٹیکچر کہ جس کے استعمال سے رومی محل اور اکھاڑوں کی تعمیر ہوئی وہ خالصتاً بادشاہوں کیلئے مخصوص تھا۔ اس فن تعمیر میں ایشلر چنائیوں کے استعمال سے عمارات کو مضبوط کیا گیا اور پائپوں اور گنبدوں کے استعمال سے عمارات کو ایستادہ کیا گیا۔ قدیم سلطنت ماچھوپیچھو (Empire of Machu Pichu) نے اپنے استعمال کیلئے وسیع و عریض محلات اور قلعے تعمیر کر لئے۔ جن میں سوائے پتھروں کے کوئی سیمنٹ مسالہ استعمال نہ کیا گیا۔ یہ بھاری پتھر زلزلہ کی صورت میں ایک خفیف حرکت کے ساتھ زلزلہ کی شدت کو جذب کر لیتے اور عمارت محفوظ رہتی۔ افسوس کہ قدیم شاہی معمار اور ماہرین تعمیرات ان گوناگوں تخیلات کو عوامی رہائش گاہوں کی تعمیر کیلئے استعمال نہ کر سکے۔ چنانچہ ہزاروں سال تک رعایا محض مٹی، گارے، کچی اینٹوں، جانوروں کی کھالوں اور عام لکڑی کی مدد سے تعمیر کردہ خستہ حال گھروندوں پر ہی گزارہ کرتی رہی اور عوامی تعمیرات میں کوئی انقلابی سستا، پائیدار میٹریل اور ڈیزائن اختیار نہ کیا جا سکا۔ قدیم ماہرین تعمیرات شاہی تعمیرات کیلئے تو اپنے زرخیز دماغوں کا استعمال کرتے رہے، لیکن عوامی رہائشوں کیلئے بہتر میٹریل اور ڈیزائن پیش کرنے سے قاصر رہے۔ اس میں کثیر تعمیراتی میٹریل کی نایابی ایک وجہ تھی یا رعایا کے ساتھ طبقاتی امتیاز رکھنے والے بادشاہوں کی ناراضی کا خدشہ، بہرحال یہ رحجان ایک تاریخی المیہ تھا۔

اُنیسویں صدی کے صنعتی انقلاب کے آغاز میں ہی سول انجینئرزنے کنکریٹ کے اندر فولاد اور لوہے کا استعمال شروع کر دیا۔ تو یہ فارمولہ صنعتی دنیا میں انقلاب اور تبدیلی کا محرک ثابت ہوا۔ اس تبدیلی نے اعلیٰ معیاری تعمیرات کو شاہی درباروں سے نکال کر عام پبلک کیلئے بھی ممکن بنا دیا۔اس سے قبل لوہا زیادہ تر جنگی آلات یعنی تلواریں اور زِرّہ بکتر بنانےکیلئے استعمال ہوتا تھا، لیکن انجینئرز نے اس کی پوشیدہ صلاحیت یعنی Tensile stength کا ادراک حاصل کیا تو انڈسٹریل انقلاب کے دوران اسٹیل اور لوہے کی پیداوار اور استعمال کو زبردست فروغ حاصل ہو گیا۔ چنانچہ فوری طور پر کرسٹل محل اور ایفل ٹاور جیسے عظیم الجثہ پراجیکٹس کی تعمیر ممکن ہو سکی۔ اسٹیل اور کنکریٹ کے باہمی) استعمال سے RCC کی تخلیق نے طویل شہتیر، بلند و بالا ستون، کثیرالمنزلہ عمارات اور طویل پلوں کی تعمیر کو ممکن بنایا۔ سب سے بڑھ کر رہائشی عمارتوں کو غریب اور متوسط طبقہ کی رسائی میں دے دیا ہے۔ تعمیراتی ماہرین نے اپنی عوام دوست صلاحیتوں کے بل بوتے پر تعمیرات کو محض امراء اور بادشاہوں کی استعداد سے نکال کر فیکٹریوں میں منتقل کیا۔ اب CAD اور BM جیسے سوفٹ فارمولوں سے فلک بوس (Sky Scrappers)، ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کو تعمیر کر دیا ہے۔ ترقی کا یہ سفر بس یہیں ختم نہیں ہوا، اب بڑھتے ہوئے ماحولیاتی شعور نے تعمیرات کو نئی سمت دے دی ہے۔ اس شعور کی مدد سے نہ صرف موجودہ استعمال کنندگان کو ماحولیاتی خرابیوں سے بچانے کیلئے اقدامات کئے جاتے ہیں، بلکہ آنے والی نسلوں کے مفادات کا بھی تحفظ پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ ایسے تعمیراتی میٹریل اور تکنیک کا استعمال کیا جاتا ہے کہ تعمیرات سے لے کر عمارات کے استعمال تک توانائی اور نئے میٹریل کا کم از کم استعمال ہو۔ لہٰذا عمارات کو قدرتی موسمیاتی ڈیزائن (Passive design) کے تحت ڈیزائن کیا جاتا ہے جسکی مدد سے ہوا، بارش، سورج کو مقامی موسمی ضرورت کے مطابق استعمال کر سکتے ہیں۔ بلڈنگز میں کم از کم توانائی کی ضروریات کو سولر، جیوتھرمل یا ہوائی ٹربائن کی مدر پورا کیا جا سکتا ہے۔ یوں زیرو لاگت زیرو مصنوعی توانائی کے مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ بلڈنگز میں پانی کے کم از کم استعمال کیلئے اب بارشی پانی کو بلڈنگز کے اندر ہی اسٹور کرنے اور ٹائلٹس میں استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

نایاب، تاریخی لیکن مہنگی تعمیرات سے آسان عوامی استعمال کیلئے RCC بلڈنگز تک اور پھر ماحول دوست عمارات کے ڈیزائن کی تخلیق تک کا سفر ’’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘‘ کے تابع نہیں۔ یہ سفر اس لئے کامیاب رہا ہے کہ ماہرین نے اولین مرحلے میں دیرینہ عوامی استحصال کو محسوس کرتے ہوئے تعمیرات میں انقلابی اقدامات کئے، وگرنہ عزت دار رہائشوں کی ضروریات اور صلاحیتیں تو روز اول سے موجود تھیں جب بادشاہ اپنے شاندار محل اور قلعوں کی تعمیر میں مصروف تھے۔ تعمیرات میں ماحولیاتی اصلاحات کا اگلا مرحلہ بھی اِن شاء اللّٰہ کامیابی سے ہمکنار ہو گا، کیوں کہ اس میں بھی آنے والی نسل انسانی کے مفادات کو ملحوظِ خاطر رکھا جا رہا ہے۔ تو گویا ہم کہہ سکتے ہیں: ’’خلق خدا کا مفاد پیش نظر ہو تو کامیابی لازم ہوتی ہے‘‘۔

تازہ ترین