• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قبائلی تنازعے میں گرفتاری نے میرا راز فاش کردیا

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نام وَر گلوکار، عارف بگٹی
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نام وَر گلوکار، عارف بگٹی

بات چیت: وحید زہیر، کوئٹہ

عارف بگٹی بنیادی طور پر انجینئر ہیں، مگر ان کی وجۂ شہرت گائیکی ہے۔ اُنہوں نے بلوچی، براہوی، سندھی اور سرائیکی زبانوں میں گا کر قلیل عرصے میں بڑا نام پیدا کیا۔ کیسٹ کی روایت ختم ہونے تک ڈیڑھ سو سے زائد کیسٹس میں اُن کے گانے مقبول ہوئے۔ نام وَر اساتذہ سے تعلق رہا اور خُود بھی نئی نسل کو سِکھا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی، جس کا احوال جنگ، ’’سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔

س: سب سے پہلے تو اپنے بارے میں کچھ بتائیں؟

ج: مَیں 1982ء میں ڈیرہ بگٹی میں پیدا ہوا۔ میرے والد، حاجی عبدالقادر ایک نام وَر ٹرانسپورٹر تھے اور ڈیرہ بگٹی کے ناظم بھی رہے۔ میٹرک تک تعلیم وہیں حاصل کی۔ پھر مزید تعلیم کے لیے کوئٹہ اور کراچی جانا پڑا۔ کراچی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کر کے واپس اپنے علاقے لَوٹا۔

س: کیا شروع ہی سے انجینئر بننے کا شوق تھا؟

ج:جب ہوش سنبھالا، تو پتا چلا کہ پی پی ایل میں مقامی انجینئرز کی کمی ہے۔ 1990ء تک مقامی افراد اِس کمپنی میں محض کلاس فور کی ملازمتیں ہی حاصل کرتے رہے۔ اس کے بعد جیسے جیسے نوجوانوں نے مختلف یونی ورسٹیز سے انجینئرنگ کی ڈگریز حاصل کیں، وہ کمپنی میں بھرتی ہوتے چلے گئے۔ یوں بگٹیوں میں بھی انجینئر بننے کا شوق بڑھتا گیا۔ 

پرویز مشرّف کی حکومت آنے تک علاقے کے نوجوانوں کی بڑی تعداد بطور انجینئر بھرتی ہو چُکی تھی۔ بعدازاں، وہاں حالات اِتنے خراب ہوئے کہ اکثر گھرانے علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور اُن ہی دنوں ہم بھی کوئٹہ منتقل ہوگئے۔

س: گائیکی کی ابتدا کب ہوئی؟

ج: اسکول کے زمانے میں نعتیہ کلام پیش کرتا تھا۔ مجھے خُوب صُورت آواز اور ترنّم پر خُوب داد ملتی۔ پھر چُھپ کر گانے بھی گانے لگا۔ شیرو بگٹی کی کیسٹس کی دُکان تھی اور سازندوں سے اُن کے روابط بھی تھے۔ میری آواز سے متاثر ہو کر اُنہوں نے ہی مجھے باقاعدہ گائیکی کی طرف راغب کیا۔ 

عارف جانی کے نام سے میرے کئی کیسٹس مارکیٹ میں آئے۔ کشمور، ڈیرہ غازی خان اور کوہِ سلیمان میں یہ کیسٹس بکنے لگے، جس سے شیرو کا کاروبار چمکا اور میری مقبولیت میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔

نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکاسی: رابرٹ جیمس)
نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکاسی: رابرٹ جیمس)

س: کیا گھر والوں کو گانا گانے پر اعتراض نہیں تھا؟

ج: اُنہیں اِس بات کا علم ہی نہیں تھا۔ وہ میری نعت گوئی پر کافی خوش تھے۔ اُنھیں تب پتا چلا، جب مَیں، شیرو اور عنایت اللہ وی سی آر مرمّت کروانے کشمور گئے، تو واپسی پر بگٹی قبیلے کی ایک شاخ اور مزاریوں کے درمیان ہونے والی لڑائی میں مزاریوں نے اپنے مغویوں کی رہائی کے لیے بدلے میں ہمیں پکڑ لیا اور بہت ہراساں کیا۔ 

مسلّح پہرے دار ہماری نگرانی کر رہے تھے اور قریب ہی کھیتوں میں ٹریکٹر پر میرے گانے بج رہے تھے۔ گانوں کی آواز سُن کر میرے دوستوں نے اُن پہرے داروں کو بتایا کہ یہ جو مشہور گانا ”جی باتے مستانی“ اور”بلوچستان باغ وبہارے“ آپ سُن رہے ہیں، اِنہیں گانے والا عارف جانی یہ ہے، جو آپ کے نرغے میں ہے۔ 

اِس تعارف پر وہ مجھے ہکّا بکّا دیکھنے لگے۔ اُنہوں نے فوراً اپنے وڈیرے کو پیغام بھیجا۔ وہ آیا اور اپنی تسلّی کے لیے سازندوں کو بھی بلوالیا، پھر اُن کے کہنے پر مَیں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ یہ بات علاقے میں پھیل گئی۔

چوں کہ’’عارف جانی‘‘ کے طور پر دُور دُور تک میری شہرت تھی، تو یہ بات نواب اکبر بگٹی تک بھی پہنچی۔ سلیم مزاری، طلال بگٹی کا برادرِ نسبتی ہے اور جھگڑا شمبانی قبائل سے تھا۔بہرحال، نواب صاحب نے سخت پیغام بھیجا اور روایات سے رُوگردانی کے علاوہ میرے چچا، وڈیرے عزیز کا حوالہ دے کر ناراضی کا اظہار کیا۔ اگلے روز عید تھی۔ اِس کا فائدہ یہ ہوا کہ بگٹیوں کی درجنوں گاڑیاں وہاں آئیں اور اِس جھگڑے کو خوش اسلوبی سے نمٹا دیا۔ لیکن بُرا یہ ہوا کہ میرے والد اور بڑے بھائی کو میری گلوکاری کا پتا چل گیا۔

مَیں گھر آیا، تو ایک طرف اُن کی غضب ناک آنکھیں تھیں، تو دوسری طرف امّاں کے آنسو۔ خیر، گھر کی خواتین کا احترام کرتے ہوئے آئندہ کے لیے مجھے تنبیہہ کر کے چھوڑ دیا گیا۔ مگر مَیں گانا گانے سے باز نہ آیا، تو بھائی نے چَھڑی سے میری مرمّت بھی کی۔ پھر نواب بگٹی کی ذاتی محفلوں میں دعوت اور تعریف کے بعد گھر کے بڑوں میں نرمی آتی رہی۔ بعدازاں، مَیں’’عارف جانی‘‘ سے عارف بگٹی بن گیا۔

س: ریڈیو اور ٹی وی سے بھی وابستگی رہی؟

ج: جی ہاں، مگر موسیقاروں کی مخصوص ذہنیت کے سبب وابستگی برقرار نہ رکھ سکا، کیوں کہ وہ لوک گلوکاری پر زیادہ کار بند تھے اور مجھ سے مشہور گانے دوبارہ گوانا چاہتے تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ محنت سے فرار چاہتے ہیں، اُن میں مخصوص طرزوں سے آگے بڑھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، جب کہ مَیں لکیر کا فقیر نہیں بننا چاہتا تھا۔ چھوٹی موٹی محفلوں میں شرکت کرتا رہا۔ طلبہ تنظیموں کی تقریبات میں بھی گایا۔ 

اِسی دَوران نواب بگٹی کی شہادت ہوئی، تو اُنہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے بھی کئی گانے گائے۔ جب حالات بہت خراب ہوئے، تو مجھے گانے سے روک دیا گیا۔ کبھی دھمکیاں ملیں، تو کبھی پیار سے سمجھایا گیا۔ حالات کی نزاکت دیکھ کر مَیں نے بھی کچھ خاموشی اختیار کرلی اور اِس دوران زیادہ وقت سُر سنگیت کی ریاضت پر صَرف کیا۔

س: گانے کے سلسلے میں بیرونِ مُلک بھی جانا ہوا؟

ج: جی، اکثر ایران اور متحدہ عرب امارات جانا ہوتا ہے۔ دبئی میں سرکاری تقریبات میں نمائندگی کی۔ بلوچوں کی شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی مدعو کیا جاتا ہوں۔ پاکستان کے مختلف شہروں، خاص طور پر کوہِ سلیمان اور سندھ میں شادی کی تقریبات یا فیسٹیولز کے دعوت نامے ملتے ہیں اور وہاں بے حد قدر دانی بھی ہوتی ہے۔ مُلک کے نام وَر گلوکاروں کے بیچ گانے کا موقع بھی ملتا رہتا ہے۔ بیرونِ مُلک کئی نام وَر گلوکار سوشل میڈیا کے ذریعے میرے گانے سُن کر رابطہ کرتے ہیں اور دل کھول کر پذیرائی کرتے ہیں۔

س: آپ خود کون سے ساز بجاتے ہیں؟

ج: کوئٹہ آنے کے بعد 2002ء میں اُستاد عطاء اللہ سے ہارمونیم سیکھنا شروع کیا اور کلاسیکل سنگیت سیکھا۔ وہ افغانستان کے اُستاد پائند خان کے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، جن کا موسیقی کی دنیا میں بڑا نام ہے۔ بینجو بھی بجاتا ہوں۔ اُستاد کریم بخش پیرنا، برّ ِعظیم کے نامی گرامی طبلہ نواز تھے۔ کوئٹہ سے ان کا تعلق تھا۔ اب بھی بھارت اور پاکستان میں اُنہی کا طبلہ بجایا جاتا ہے۔ اُستاد ذاکر اور اے آر رحمان کے بزرگوں نے اُن ہی سے سیکھا۔ 

اُستاد بشیر خان، خان صاحب نے پچیس سال تک اُستاد پیرنا سے طبلہ سیکھا اور اُن کے ساتھ رہے۔ پاکستان میں اُن جیسا دوسرا طبلہ نواز پیدا نہیں ہوا۔ 

اُستاد بشیر خان ہی مہدی حسن کو سمجھتے تھے اور اُن کے ساتھ سنگت کرتے تھے۔وہ ناپا کراچی میں باقاعدہ پڑھاتے بھی تھے۔ 

مَیں نے اُن سے طبلے کی زبان سیکھی، ٹھاٹ سیکھے اور اُن کے انتقال سے قبل تک اُن کے بہت قریب رہا۔ 

کوئٹہ میں اکثر میرے ہاں ہی ٹھہرتے تھے۔ ہم نے تو اپنے اساتذہ سے یہی سیکھا کہ اپنے شعبے میں انفرادیت پیدا کریں اور اِس سے وابستہ افراد کا احترام کریں۔ ویسے ایک اچھے گلوکار، موسیقار کو ہر سُر سے جان کاری ہونی چاہیے۔

س: کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے فن کاروں کی عموماً پذیرائی کیوں نہیں ہوتی؟

ج: یہی تو بد قسمتی ہے۔ اُستاد صادق علی خان، اُن کے فرزند،اُستاد علی اکبر، اُستاد ارباب خان کھوسہ، اُستاد امام دین صلاحی اور اُستاد کریم بخش پیرنا کے علاوہ کئی نام ہیں، جو عوام میں مقبول رہے، اُن کے سیکڑوں شاگرد موجود ہیں، لیکن سرکاری سطح پر اُنہیں یاد نہیں کیا جاتا۔ 

جو یہاں مدفون ہیں، اُن کی قبروں تک سے اربابِ اختیار لا علم ہیں، حالاں کہ اِن کے ناموں پر آڈیٹوریم ہونے چاہئیں۔ پھر پی این سی اے، الحمرا اور آرٹس کاؤنسل کی طرح کا یہاں کوئی ادارہ بھی تو نہیں۔ جو ادارہ ثقافت کے نام پر ہے، وہاں بھی منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ 

فنڈز کے ساتھ، کام سے لگاؤ بھی ضروری ہے اور اداروں کے فنڈز کا استعمال نیک نیّتی سے ہونا چاہیے۔ جہاں فنونِ لطیفہ سے عدم دل چسپی ہو، وہاں عدم برداشت کا فروغ یقینی ہے۔ فن کاروں کے مسائل حل ہوں، تو وہ معاشرے میں نکھار اور انسانی جذبات کی تربیت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

س: بلوچستان میں عام افراد کو موسیقی سے کس قدر رغبت یا لگاؤ ہے؟

ج: بہت زیادہ۔ ہر جگہ، عوامی سطح پر موسیقی سُننے والے ملیں گے۔ اعلیٰ طبقہ، حقیقی قبائلی سربراہ اور بیوروکریٹس نہ صرف موسیقی سُنتے ہیں، بلکہ اپنی نجی محفلوں میں گاتے ہیں اور کوئی نہ کوئی ساز بجانے کا ہنر بھی رکھتے ہیں۔

س: آپ کے خاندان میں کوئی اور بھی گاتا ہے؟

ج: میرے کلب سے میرا بھانجا، پرویز بلوچ مقبولیت حاصل کرتا جا رہا ہے۔ کافی نوجوان ہیں، جو ابھی سیکھ رہے ہیں۔ باقی ڈیرہ بگٹی، نوشکی، مستونگ، قلّات اور مکران ڈویژن سے تعلق رکھنے والے بے شمار فن کار اِس شعبے میں اعلیٰ مقام حاصل کر چُکے ہیں۔ 

میری کوشش ہے کہ پرانے اور نئے فن کار، پہلے سے مشہور فوک گانے ہی نہ گائیں، باقاعدہ موسیقی سیکھیں اور اپنی انفرادی شناخت بنانے کی کوشش کریں۔

س: کتنی زبانوں میں گا لیتے ہیں؟

ج: اُردو، بلوچی، براہوی، سندھی اور سرائیکی میں۔ اگر کبھی کسی محفل میں پشتو اور فارسی گانوں کی فرمائش ہو، تو اُن میں بھی گا لیتا ہوں۔ میرے خیال میں آج کل وہی گلوکار کام یاب ہے، جو بیک وقت کئی زبانوں میں گاتا ہو۔ اُردو بڑی زبان ہے، مگر جہاں جو زبانیں بولی جاتی ہیں، وہاں لوگ اپنی زبان ہی میں گانے سُننا پسند کرتے ہیں۔

س: آپ کے بچّے بھی گائیکی کا شوق رکھتے ہیں؟

ج: میرا ایک بیٹا ہے، جو میرے گانے تو سُنتا ہے، مگر اُس کا دھیان اپنی پڑھائی پر ہے اور میری توجّہ بھی اُس کی تعلیم ہی پر ہے کہ کسی بھی شعبے میں مہارت حاصل کرنے کے لیے علم ضروری ہے۔ باقی دیکھتے ہیں، وہ آگے چل کر کیا کرتا ہے۔

س: آپ کے شاگرد بھی ہوں گے؟

ج: اب وہ زمانہ نہیں رہا، جب اُستادوں کے قدموں میں بیٹھ کر سیکھا جاتا تھا۔ مَیں اُستادوں سے اب بھی سیکھ رہا ہوں اور جو سیکھا ہے، دوسروں کو آن لائن سیکھا رہا ہوں۔

س: سُنا ہے آپ’’ گلوگاروں کے رہنما‘‘ ہیں، یہ کیا معاملہ ہے؟

ج: ادارۂ ثقافت کے زیرِ اہتمام ایک فنڈ کا اجراء ہوا، جس کے طریقۂ کار اور غیر متعلقہ افراد میں اعزازیوں کی تقسیم کا معاملہ عدالت تک پہنچا۔ عدالت کے حکم پر مَیں بلوچی زبان کے فن کاروں کی جانب سے رُکن منتخب ہوا۔ بعدازاں، مجھے تمام زبانوں میں گانے والوں کی جانب سے نمایندہ منتخب کیا گیا۔ اُن کی مدد، اعزازیے یا فن کاروں کی قومی تقریبات میں شمولیت، حق دار ہونے کی تصدیق میری ذمّے داری ہے۔ 

اداکاروں، کمپیئرز کے نمائندے الگ ہیں۔ جب بھی ادارۂ ثقافت کے کسی فیصلے سے فن کاروں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں، تو آواز اُٹھانی پڑتی ہے۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں منعقدہ فیسٹیول میں جب کہنہ مشق اور مقبول فن کاروں کی بجائے نوواردوں کو بھجوایا گیا، تو اکثر فن کار ناراض ہوئے اور مَیں نے بھی اِس عمل پر احتجاج کیا۔ فن کاروں کے ساتھ افسران کے منفی رویّوں پر بھی میں نے سخت ردّ ِعمل دیا۔ 

میرے احتجاج پر مشیرِ ثقافت، زرین خان مگسی نے سخت نوٹس لیا اور یقین دہانی کروائی کہ بلوچستان کے فن کاروں کے ساتھ آئندہ کسی قسم کی زیادتی نہیں ہوگی۔ غیر متعلقہ افراد اِس انڈومنٹ فنڈ میں شامل نہیں کیے جائیں گے۔ فن کاروں کی نمائندگی میں غفلت نہیں ہوگی۔ ویسے مجھے لیڈر بننے سے کافی نقصان بھی ہوا۔ بعض اوقات بیورو کریٹ حق بات پر بُرا مناتے ہیں۔ 

یہاں جتنا فنڈ فن کاروں کی مالی معاونت کے لیے رکھا گیا ہے، دیگر صوبوں سے آنے والے فن کار ایک بار کی پرفارمینس کا اس سے زیادہ معاوضہ وصول کر کے جاتے ہیں۔ اگر ایسا ہی معاوضہ یہاں کے فن کاروں کو بھی دیا جائے، تو اُنہیں ماہانہ بیس ہزار روپے کے لیے اِتنا خوار نہ ہونا پڑے۔

س: موسیقی کا مستقبل کیا ہے؟

ج: عجیب بات یہ ہے کہ ہم سایہ مُلک کے بعض اساتذہ کا تعلق یہاں سے ہے، مگر یہاں اِس شعبے کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ مہدی حسن، شوکت علی اور دیگر نام ور گلوکار، گم نام ہوتے جا رہے ہیں کہ اُن کا تسلسل قائم نہیں رہا۔ سطحی چیزوں کو نمایاں اور موسیقی کے بڑے کینوس کو چھوٹا کیا جا رہا ہے، جو کوئی اچھی بات نہیں۔ 

فن اور فن کاروں کی دنیا آباد رکھیں تاکہ ہنستے بستے چہروں میں اضافہ ہو اور عوام کو شور شرابے کی آلودگی سے نجات ملے۔ تمام فن کار قابلِ احترام ہیں، ان میں بدگمانیاں پیدا نہیں کرنی چاہئیں۔ 

معاشرے میں لہجوں کی کرختگی کا واحد حل موسیقی کی زبان میں بات کرنا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے، جب شعر، ادب اور موسیقی کا جہاں آباد رہے۔ جذبات کی سچّائی دبائی نہ جائے اور زندگی کی خُوب صُورتی کا تصوّر زندہ رکھنے میں ایک دوسرے کی مدد کی جائے۔

سنڈے میگزین سے مزید