اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک کی دگرگوں معاشی صورتحال اور بحران کا شکار انڈسٹری کے بار بار مطالبوں کے باوجود شرح سود کو مسلسل آٹھ ماہ تک 11 فیصد پر برقرار رکھنے کے بعد معمولی کمی کرکے 10.5 فیصد کر دیا ہے۔ اس فیصلے سے موجودہ معاشی حالات میں کوئی بہتری آنے کی توقع نہیں ہے بلکہ اس فیصلے نے بزنس کمیونٹی کی مایوسی میں بھی اضافہ کیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس فیصلے سے صنعتی و کاروباری حلقوں کی وہ توقعات پوری نہیں ہوئیں جو معاشی جمود کے خاتمے کے لئے ضروری تھیں۔ بزنس کمیونٹی بالخصوص برآمدکنندگان کی جانب سے حکومت کو بارہا یہ باور کروایا جا چکا ہے کہ گزشتہ کئی سال سے پاکستان کی شرح سود مسلسل خطے میں سب سے زیادہ چلی آ رہی ہے جس کی وجہ سے ایکسپورٹ انڈسٹری کو عالمی منڈی میں حریف ممالک سے مسابقت میں شدید مسائل کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے شرح سود کو سنگل ڈیجٹ میں لانے کا دیرینہ مطالبہ پورا نہیں کیا۔
واضح رہے کہ معاشی ماہرین بھی گزشتہ کئی ماہ سے پاکستان میں شرح سود میں کمی پر زور دے رہے ہیں اور اس حوالے سے یہ تجویز بھی پیش کی جاتی رہی ہے کہ مہنگائی کی موجودہ شرح اور معاشی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترقی کو فروغ دینے کے لیے شرح سود کو کم کرکے چھ سے سات فیصد کرنا ضروری ہے۔ اس سے ایکسپورٹ انڈسٹری کو درپیش سرمائے کی قلت اور پیداواری لاگت میں اضافے جیسے مسائل سے نجات مل سکتی ہے اور حکومت کو بھی قرضوں کے بوجھ میں تقریباً 3500 ارب روپے سے زائد کی نمایاں کمی کا فائدہ ہو سکتا ہے۔وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب ماضی میں خود بھی شرح سود میں کمی کے حامی رہے ہیں اور وہ متعدد مرتبہ شرح سود میں کمی کے حوالے سے یقین دہانی بھی کروا چکے ہیں۔ اس کے باوجودا سٹیٹ بینک کی طرف سے شرح سود میں نمایاں کمی نہ کرنے کا فیصلہ مایوس کن ہے۔ اس سے کاروباری برادری کی توقعات کو دھچکا لگا ہے اور نئی سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ یہ صورتحال اس لئے بھی افسوسناک ہے کہ حکومت کے اپنے تخمینوں کے مطابق افراط زر کی شرح چھ فیصد کے قریب ہے۔ اس کے باوجود قرض لینے کی لاگت اور اصل افراط زر کی شرح کے درمیان ایک بڑا فرق موجود ہے جس کی وجہ سے کاروباری طبقے کو غیر ضروری مالی بوجھ کا سامنا ہے حالانکہ کاروباری طبقہ پہلے ہی پیداواری لاگت میں اضافے اور بجلی و گیس کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔ حکومت کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مہنگے قرضوں کے باعث پیداواری لاگت بڑھنے سے عالمی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات کی مسابقت کم ہونے کی وجہ سے برآمدکنندگان کو برآمدی آرڈرز کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس لئے شرح سود کو جلد از جلد کم کرکے چھ سے سات فیصد پر لانے کی ضرورت ہے اس کے بغیر برآمدات میں اضافے اور معاشی استحکام کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس وقت امریکہ اور یورپ میں کرسمس سیزن ہونے کے باوجود پاکستان کی برآمدات ماضی کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں جس کی بڑی وجہ پیداواری لاگت میں غیر ضروری اضافہ ہے۔ اگرچہ امریکہ اور یورپ میں پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کی مانگ اب بھی موجود ہے لیکن اس مانگ کو برآمدی آرڈرز میں تبدیل کرنے کیلئے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں مسابقتی قیمتوں پر بجلی اور گیس کی فراہمی، شرح سود میں نمایاں کمی اور ریفنڈز کی 72 گھنٹے کے مقرر وقت میں ادائیگی ضروری ہے۔ ان اقدامات سے جہاں ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کی پیداواری لاگت میں کمی آئے گی وہیں انہیں درپیش سرمائے کی قلت کا بھی خاتمہ کیا جا سکے گا۔ اس وقت پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں اس کے پاس برآمدات بڑھانے کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی میں حصہ ڈالنے کا سنہری موقع موجود ہے لیکن اس کے لئے اسے حکومت سے وہ سپورٹ اور تعاون درکار ہے جس کا وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے تسلسل کے ساتھ اعلان کیا جاتا رہا ہے۔
اس لئے وزیر اعظم شہباز شریف کو اسٹیٹ بینک کے گورنر سے خود بات کرکے انہیں حکومت کے معاشی ویژن کے مطابق صنعتی ترقی کو فروغ دینے اور طویل مدتی معاشی استحکام کیلئے کاروبار دوست فیصلے کرنے کی اہمیت سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسٹیٹ بینک کی طرف سے موجودہ حالات میں شرح سود میں معمولی کمی کی واحد وجہ قیمتوں میں استحکام کی کوشش نظر آتی ہے لیکن اس حوالے سے یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بلند شرح سود کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں مسلسل دباؤ کا شکار ہیں۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ پنجاب میں سیلاب، سندھ میں نہروں کے مسئلے پر احتجاج کی وجہ سے سڑکوں کی بندش اور بھاری جرمانوں کے خلاف گڈز ٹرانسپورٹرز کی حالیہ ہڑتال نے پہلے ہی انڈسٹری کے لئے سپلائی چین کے مسائل میں بہت اضافہ کر دیا ہے۔ اس لئے شرح سود کو کم کرکے بینکوں میں پڑے سرمائے کو گردش میں لانے کی ضرورت ہے تاکہ چھوٹی بڑی انڈسٹری کا پہیہ پوری رفتار سے چل سکے۔