• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ 10 اپریل 1986ءکا ذکر ہے ـ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی پہلی جلاوطنی کے بعد وطن واپس آ رہی تھیں اور اس کیلئے انہوں نے پنجاب کے دل لاہور کا انتخاب کیا تھا ـ مینار پاکستان پر ہونے والا یہ جلسہ غالبا ًاس وقت تک برصغیر کی تاریخ کا سب سے بڑا عوامی اجتماع تھاـ محترمہ نے اپنی تقریر کے آخر میں بڑے پرجوش طریقے سے ایک نظم پڑھنا شروع کی

’’میرے ہاتھ میں حق کا جھنڈا ہے

میرے سر پر ظلم کا پھندا ہے

میں مرنے سے کب ڈرتی ہوں

میں موت کی خاطر زندہ ہوں

میرے خون کا سورج چمکے گا

تو بچہ بچہ بولے گا

میں باغی ہوں میں باغی ہوں

جو چاہے مجھ پر ظلم کرو‘‘

میرے لیے خوشگوار حیرت یہ تھی کہ یہ میری لکھی ہوئی نظم تھی اور یہ اس کا آخری بند تھا لیکن بی بی نے اسے سب سے پہلے پڑھا شاید ان کے تحت الشعور میں کہیں یہ حقیقت چھپی ہوئی تھی کہ انہیں بھی ایک دن اپنے بابا کی طرح اپنی جان اپنی قوم کی خاطر قربان کرنی ہے اور پھر وہی ہوا ـ اپنی دوسری جلاوطنی سے واپسی پر 17اکتوبر 2007کو کراچی میں کارساز کے مقام پر ان پر خوفناک قاتلا نہ حملہ کیا گیاجس میں وہ بال بال بچیں لیکن انکے استقبالی ہجوم میں 300کے قریب افراد شہید ہو گئے ـ اس حملے کے باوجود اس دلیر خاتون نے عوامی رابطہ مہم ختم کرنے سے انکار کر دیا اور پھر وہ منحوس گھڑی آن پہنچی جب آج ہی کے دن یعنی 27 دسمبر 2007 کو انہیں شہید کر دیا گیاـ ۔محترمہ کی شہادت کے ساتھ ہی پاکستان میں حقیقی عوامی سیاسی قیادت کا خاتمہ ہو گیاـ انکی پوری زندگی جمہوریت کی بحالی کیلئے طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے گزری ـ وہ ابھی صرف 23 برس کی تھیں جب انکے والد اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کر دی گئی اور بھٹو خاندان سمیت پوری پیپلز پارٹی پر مصائب کا ایک طویل دور شروع ہو گیاـ انہیں اور انکی والدہ محترمہ نصرت بھٹو کو پابندِ سلاسل کر دیا گیا اور بالآخر جناب بھٹو کو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں سزائے موت دے دی گئی ـ۔

بی بی نے ہر طرح کے ظلم و ستم برداشت کیے لیکن نہ تو جنرل ضیاء کے سامنے سر جھکایا نہ اداروں کے خلاف تخریبی کارروائیاں کیں اور نہ ہی اقتدار میں آ کر کسی کو انتقام کا نشانہ بنایا ـ ،پیپلز پارٹی کا گزشتہ دورِ حکومت پاکستان کی تاریخ کا واحد دور تھا جس میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا۔محترمہ کی شہادت کے بعد جب سندھ میں پاکستان مخالف جذبات عروج پر تھے تب بھی انکی پارٹی نے اسکا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور ان کے شوہر صدر آصف علی زرداری نے ’پاکستان کھپّے‘ یعنی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ ـ صرف یہی نہیں جب بی بی کی شہادت کے بعد میاں نواز شریف نے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تو زرداری صاحب نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے کیلئے آمادہ کیاـ ۔

یہ تھی ایک دانشمندانہ سیاسی سوچ ـ وگرنہ اگر کوئی اور ہوتا تو وہ اپنے لیڈر کی شہادت کے بعد اکیلے ہی ہمدردی کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ـ پیپلز پارٹی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے تمام الیکشن اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر اپنے بل بوتے پر لڑے اور بڑے بڑے آئینی اور سیاسی فیصلے اسی کے دور میں ہوئے اور یہی ایک حقیقی سیاسی جماعت کی نشانی ہوتی ہے ۔ـ بی بی نے جب پاکستان آنے کا فیصلہ کیا تو میاں نواز شریف کو بھی واپسی کیلئے قائل کیا جو ایک معاہدے کے تحت 10 سال کیلئے جلا وطن کیے گئے تھے ـ اس سے پہلے دونوں لیڈر میثاقِ جمہوریت کے ذریعے یہ معاہدہ کر چکے تھے کہ وہ آئندہ غیر جمہوری طاقتوں کے ہاتھوں ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہیں ہونگے اور جمہوریت کے استحکام کیلئے ایک دوسرے کا ساتھ دینگے اسی جذبے کے تحت 2008ءکے انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد بھی جناب آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کو مخلوط حکومت بنانے کی دعوت دی ـ یہ وہ سیاسی اقدامات تھے جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے بعد سیاست دانوں کیلئے نظام کے اندر ایک جگہ (space) بنا دی ۔ جسکی وجہ سے ایک ڈکٹیٹر کی طرف سے کی گئی غیر جمہوری آئینی ترامیم کو منسوخ کر کے اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبائی خود مختاری کا دیرینہ مسئلہ حل کرنے میں مدد ملی۔ ـ

یہ وہ اقدامات تھے جنہوں نے غیر جمہوری طاقتوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی جسکی پاداش میں انہوں نے جمہوری حکومت کیخلاف سازشیں شروع کر دیں اور اسے کمزور کرنےکیلئے نہ صرف میموگیٹ جیسے اسکینڈل بنائے گئے بلکہ عمران خان کو بھی اپنے مہرے کے طور پر سیاسی میدان میں اتارا گیا جسکی وجہ سے اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کا لب لباب یہ ہے کہ سیاست دانوں کیلئے بڑی مشکلوں کے بعد جوا سپیس بنی تھی آج وہ مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے اور بالادستوں کی گرفت پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو گئی ہے ـ۔ محترمہ کی شہادت کے بعد جو خلا پیدا ہوا اس نے سنجیدہ سیاست اور ڈپلومیسی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ محترمہ کا مدبرانہ کردار تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا ـ یہی وجہ ہے کہ آج انکی سابق سیاسی حریف جماعتیں بھی انہیں عزت و احترام کے ساتھ یاد کرتی ہیں جسکی وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔

تازہ ترین