• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگرچہ گزشتہ برسوں کی نسبت 2025ء کے دوران اسموگ کے خاتمہ کیلئے زیادہ مؤثر اقدامات کئے گئے لیکن اس سال بھی اس خرابی کی ستم ظریفیوں سے شہری محفوظ نہ رہ سکے۔ دسمبر کے ان آخری ایام میں ٹمپریچر میں کمی سے اسموگ کی شدت کم ہو رہی ہے اور سال کی رُخصتی کیساتھ اسموگ بھی روانہ ہو رہی ہے۔ بڑے شہروں کی طرف کن اَکھیوں سے دیکھتے زیرِلب مسکرا رہی ہے گویا اگلے سال نئی حشر سا ما نیو ں کے ساتھ دوبارہ آئیگی۔ آیئے ہم اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے آنیوالے سال میں پیشگی تیاریوںکے ساتھ اسموگ کے مکمل خاتمےکا عزم کر لیں۔ بالخصوص حکومت پنجاب نے اسموگ کے خاتمہ اور مانیٹرنگ کیلئے جن تدابیر پر عمل کیا، ان کی بنا پر پچھلےبرسوں کی سنگینیوں میں اضافہ تو نہ ہو سکا۔ مثلاً بڑے شہروں میں ایئرکوالٹی مانیٹرز کی تنصیب سے اسموگ کی شدت اور نوعیت بارے معلومات حاصل ہو سکیں۔ تجاوزات کے بھرپور خاتمے سے شہریوں میں بغیر رکاوٹ پیدل چلنے کو فروغ حاصل ہوا۔ شہری کثافتوں میںکمی ہوئی، نیز شہری کچرے کا بندوبست اور آبی چھڑکاؤ جیسے اقدامات سے اسموگ کی شدت میں ایک ٹھہراؤ سا پیدا ہو گیا ہے۔ علاوہ ازیں بڑے شہروں میں برقی ٹرانسپورٹ کا اجرا اہم ماحول دوست اقدام ہے۔ گویا اب اداروں اور عوامی حلقوں میں اسموگ سے مقابلے کا ادراک موجود ہے۔ یوں تو اسموگ کی تخلیق کا عمل سارا سال جاری رہتا ہے۔ لیکن بڑے شہروں بالخصوص لاہور میں اسموگ، اکتوبر سے دسمبر تک کے مہینوں کے دوران حملہ آور ہوتی ہے جسکے اہم عوامل میں فضائی کثافتوں کا آبی بخارات سے ملاپ، ہوا کا سکوت اور لاہور اربن کا مضافات سے قدرے زیادہ ٹمپریچر، ان عوامل کے اثرات سے اربن لاہور پر اسموگ کا ایک گنبد نما غیرمرئی اُفقی حصار وجود میں آ جاتا ہے۔ جس میں بیرونی اسموگ بھی دراندازی کرتی ہے، لیکن بدقسمتی سے اندرونِ گنبد لاہوری اسموگ باہر جانے اور آزاد ہونے سے قاصر رہتی ہے اور یوں روز بروز اسموگ کی شدت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اسموگ کے ان تخلیقی عوامل کے خاتمہ کے ذریعے ہم پیشگی طور پر اسموگ کا تدارک کر سکتے ہیں۔ گاڑیوں، فیکٹریوں سے فضائی کثافتوں کا محدود اخراج اور فضائی کثافتوں کی صفائی کیلئے ضروری ہے کہ ایندھن کے معیار کو یقینی بنائیں۔ فضائی کثافتوں کو لاہور شہر میں لگائے گئے دائمی پودے اکتوبر، دسمبر مہینوں میں بھرپور آبی بخارات مہیا کرتے ہیں۔ ان پودوں کی بجائے اگر پنجاب کے روایتی پلانٹ کی شجرکاری کی جاتی تو نہ صرف خوش رنگ سریلی آواز پرندوں کی شہر میں بہتات ہوتی، بلکہ خزاں رسیدہ مقامی درخت اکتوبر، دسمبر کے ایام میں اپنی پت جھڑ کی وجہ سے اسموگ کو نمی مہیا نہ کر سکتے۔ اسی طرح شہرمیںٹریفک اور کنکریٹ کی بے تحاشا تعمیرات کو کنٹرول کیا جا ئے۔ حالیہ چند برسوں میں حکومتوں نے اسموگ کے بعداز پیدائش خاتمے کیلئے جو چند اقدامات کیے، وہ بدقسمتی سے مؤثر ثابت نہیں ہو سکے۔ مثلاً اینٹوں کے بھٹوں میں زگ زیگ ٹیکنالوجی کو متعارف کروایا گیا ہے۔ بھٹوں میں ایندھن کے جلنےسے جو کثافتیں ازقسم ٹھوس کاربن ذرات اور سلفر، نائٹروجن گیسز پیدا ہوتی ہیں ان کا باہر نکلنے کیلئے سیدھے راستے کی بجائے نسبتاً ٹیڑھے لیکن لمبے راستہ سے اخراج ہوتا ہے۔ اس حکمت عملی سے چمنیوں سے نکلنے والی کثافتوں میں بظاہر کمی ہو جاتی ہے، لیکن خاتمہ نہیں ہوتا۔ ہاں البتہ جب سے یہ ٹیکنالوجی اختیار کی گئی۔ اینٹوں کی قیمت میں بے تحاشا ناروا اضافہ ہو چکا ہے۔ اسی طرح موٹرگاڑیوں اور ٹرکوں وغیرہ کی سخت چیکنگ، فیول کوالٹی اور اسموگ کنٹرول کیلئے مؤثر نتائج نہ دے سکی۔ ناقص پٹرول اور گیسولین کا تدارک گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ سے ممکن نہیں، اس کیلئے ایندھن سپلائی کرنیوالے پٹرول پمپس کی روزانہ کی بنیاد پر پڑتال کا میکانزم بنایا جائے اور اسمگل شدہ ایندھن کی سپلائی لائن کاٹی جائے۔ اربن لاہور کے مضافات میں پاور جنریشن پلانٹ کے لئے متبادل فیول / ٹیکنالوجی کی تجاویز پر عمل درآمد کیا جائے۔ ایک اندازے کے مطابق ساہیوال میں واقع کول پاور پلانٹ میں کوئلے کی کھپت پورے پنجاب میں چلنے والے بھٹوں کی مجموعی کھپت سے زیادہ ہے۔ اگر ٹیکنالوجی اور فیول میں تبدیلی ممکن نہ ہو تو اس پلانٹ کو اسموگ کے تین مہینوں میں Layoff دیدی جائے۔ دریں اثناء کنکریٹ برکس کے فروغ کیلئے اقدامات کئے جائیں کیوں کہ زرخیز زمینوں سے کھودی گئی خام مٹی کا اینٹوں کیلئے استعمال بذاتِ خود ماحولیات اور زمینی زرخیزی کیلئے نقصان دہ ہے۔ بے شک موٹرگاڑیوں اور ٹرکوں وغیرہ کے آلودہ اخراج وغیرہ کو کنٹرول کیا جائے لیکن اس چیکنگ کی مدد سے ایسے پٹرول پمپس کا سراغ بھی لگایا جائے جو ناقص پٹرول فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں اور بلاامتیاز تمام پٹرول پمپس میں معیار کو یقینی بنانے کیلئے مسلسل پڑتال کا نظام وضع کیا جائے۔ اندرونِ شہر ٹریفک کے دباؤ اور فضائی آلودگی کو کم کرنے کیلئے یہاں موجود سرکاری اداروں، عدالتوں اور کاروباری مراکز کو متناسب آبادی کے اُصول پر بیرون شہر پھیلا دیا جائے۔ بڑے شہروں میں انفراسٹرکچر کی بار بار اُکھاڑ پچھاڑ سے ممکنہ طور پر احتراز کیا جائے۔ تعمیراتی میٹریل کی بیرونی آمد اور ٹرکوں کے ذریعے باربرداری کو کم کرنے کیلئے پرانے میٹریل کو استعمال میں لایا جائے۔ لاہور اسموگ کی وجہ سے ایک متاثرہ اور بیمار شہر ہے، چنانچہ اس پس منظر میں عارضی طور پر خصوصی انتظامی اختیارات کا استعمال کیا جائے۔ اسموگ کے مہینوں کے دوران یعنی اکتوبر سے دسمبر تک عمارات اور موٹرگاڑیوں میں ایئرکنڈیشنرز کے استعمال پر پابندی عائد کر دی جائے تو درجہ حرارت کے فرق کو کم کیا جا سکتا ہے جسکی مدد سے بیرونی اسموگ کی دراندازی کم ہو سکتی ہے۔یاد رہے کہ اسموگ ہمارے بڑے شہروں کا مقامی مسئلہ ہے۔ اس میں اگرچہ پڑوسی ممالک سے آنیوالی اسموگ بھی حصہ ڈالتی ہے۔ اگر ہم مقامی فضائی آلودگی اور محرکات پر قابو پا لیں، تو بیرونی اسموگ کی سنگینی اور اثرات نہایت خفیف ہو سکتے ہیں اور یوں ہماری شہری آبادیوں کیلئے تالیف کا اہتمام ہو سکتا ہے۔

تازہ ترین