اصحاب رائے کا ماننا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو اللّٰہ تعالیٰ نے سیاسی شعور کی بجائے ملک کے خلاف سازشوں، شرارتوں اور شرانگیز پروپیگنڈا کرنے کے علاوہ کئی شیطانی "صلاحیتوں" سے مالا مال کر دیا۔پاکستان کو گالی دینے گے ساتھ دنیا میں رسوا کرنے کے مواقع تلاش کرنا، ریاست کے خلاف جھوٹے بیانیے بنانا، ریاستی اداروں کو بدنام کرنا اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ملک دشمنوں کے ذریعے سوشل میڈیا پر پاکستان کی مسلح افواج کاتمسخر اڑانا ان کے سیاسی، سماجی اور مذہبی منشور کی بنیاد ہے اور پاکستان دوستوں سے نفرت اور اسرائیل اور بھارت سمیت دشمنوں سے عقیدت رکھنا اور ان کے وضع کئے گئے پاکستان مخالف ایجنڈے کی پیروی کرنا ان کے ایمان کا جزو لاینفک تصور کیا جاتا۔پاکستانی عوام کی سوچ بلا شبہ کئی حصوں میں بٹی ہوئی ہے، ریاست سے انتہائی محبت کرنے والی سوچ اور عمران خان کی ریاست مخالف سوچ (جو ملک کی تعمیر ترقی، قومی یکجہتی اور خوشحالی کے خلاف منفی نظرئیے پر ایمان رکھتے ہیں اور جو پاکستان کے خلاف بھارت اور اسرائیل کے نظریات کو رائج کرنے پر یقین رکھتے ہیں) جبکہ تیسرا طبقہ جو پاکستانیت سے لبریز ہے، دنیا کے کسی بھی حصے میں مقیم ہو، اپنے اپنے انداز میں ملک کی خدمت اور محبت کرتا دکھائی دیتا ہے۔تحریک انصاف عوام کی سڑکوں پر نکالنے میں باربار ناکامی کے بعد 8فروری کے احتجاج کا جواز یا گراؤنڈ بنانے، صوبائی سطح پر باہمی نفرت پھیلا کر ذہنوں میں صوبائیت کو ہوا دینے کے لئے وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا لاہور کے دورہ پر ہیں اور مختلف سیاسی اور غیر سیاسی حرکات کے ذریعے احتجاجی تحریک کا ماحول سازگار بنانے کی کوششوں میں ہیں۔معیشت کی بنیادوں میں بارود بھرنے والی تحریک انصاف آج برین ڈرین کے بیانیہ کے ساتھ ملک میں معیشت کی ابتری کی بات کرتی ہے۔برین ڈرین” (Brain Drain) کو بطور قومی المیہ پیش کرنے کی روایتی تشریح کو اب ماہرینِ معاشیات ایک نامکمل بیانیہ قرار دے رہے ہیں۔ عالمگیریت کے دور میں ڈاکٹروں، انجینئروں اور سائنس دانوں جیسے ہنرمند پیشہ ور افراد کی بیرونِ ملک منتقلی کو زیادہ موزوں طور پر “برین سرکولیشن” (Brain Circulation) کے تصور کے تحت سمجھا جا رہا ہے۔ یہ فکری تبدیلی اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ انسانی سرمائے کا انخلا کسی صفر جمع صفر (zero-sum) نقصان کا کھیل نہیں، بلکہ سرحدوں سے ماورا ایک متحرک تبادلہ ہے جو ترقی پذیر ممالک کے لیے طویل المدتی اور قابلِ قدر فوائد پیدا کر سکتا ہے۔اس عمل کا ایک نہایت گہرا فائدہ “ترغیبی اثر” (Incentive Effect) ہے۔ عالمی سطح پر زیادہ اجرت والی ملازمتوں کا امکان درحقیقت اندرونِ ملک “برین گین” کو فروغ دیتا ہے، کیونکہ اس سے آبادی کا ایک بڑا حصہ اعلیٰ اور سخت گیر تعلیم حاصل کرنے کی طرف راغب ہوتا ہے۔ چونکہ عالمی منڈی کے لیے تربیت پانے والے تمام افراد لازماً ہجرت نہیں کرتے، اس لیے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وطن میں ہنرمند افرادی قوت کا مجموعی ذخیرہ بڑھ جاتا ہے اور تعلیمی معیار اس سطح سے کہیں بہتر ہو جاتا ہے جو بند سرحدوں کے نظام میں ممکن ہوتا۔اعلیٰ مہارت کے حامل تارکینِ وطن کا معاشی اثر ترسیلاتِ زر کے طاقتور ذریعے سے نمایاں ہوتا ہے۔ غیر ملکی امداد کے برعکس، جو اکثر بیوروکریسی کی نذر ہو جاتی ہے، یہ رقوم براہِ راست مقامی معیشت میں داخل ہو کر صحت، چھوٹے کاروباروں اور آئندہ نسل کی تعلیم کو سہارا دیتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ آمدن قیمتی زرمبادلہ فراہم کرتی ہے جو عالمی معاشی اتار چڑھاؤ کے دوران قومی معیشت کو استحکام بخشنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن عالمی نیٹ ورک بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی کے لیے ایک پُل کا کردار ادا کرتا ہے، ملکی کمپنیوں کو عالمی تجارت میں رہنمائی فراہم کرتا ہے اور بالآخر، واپسی کی ہجرت (Return Migration) اس دائرے کو مکمل کرتی ہے۔ بہت سے پیشہ ور افراد وقت کے ساتھ اپنے وطن لوٹ آتے ہیں اور اپنے ساتھ سرمایہ، عالمی تجربہ اور کاروباری جذبے پر مشتمل ایک قیمتی اثاثہ لے کر آتے ہیں۔ یہ واپس آنے والے افراد اکثر ادارہ جاتی اصلاحات کے محرک بنتے ہیں، بہتر طرزِ حکمرانی کے لیے آواز اٹھاتے ہیں اور ہائی ٹیک منصوبوں کا آغاز کر کے مقامی منظرنامے کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہیں۔ جب کسی قوم کی صلاحیت کو ایک جامد ملکی وسیلے کے بجائے ایک اسٹریٹجک عالمی اثاثہ سمجھا جائے تو وہ اپنی ذہانت سے محروم نہیں ہوتی، بلکہ دنیا بھر میں اپنی فکری اور معاشی وسعت کو پھیلا دیتی ہے۔تحریک انصاف نے پاکستان سے انتقام لینے کے لئےغیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ترسیلات زر پاکستان بھیجنے سے منع کیا لیکن پاکستان محبت کرنے کا اظہار ترسیلات زر میں کئی گنا اضافہ کرکے کیا اورحالیہ برسوں میں سالانہ تقریباً 30 سے 38 ارب ڈالر ملک بھیجے ہیں۔ یہ زرمبادلہ کا وہ بنیادی ذریعہ ہے جو معیشت کو سہارا دئیے ہوئے ہے۔