• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہالینڈ کے ایک موقر جریدے نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ایران بعض افریقی ممالک سے یورینیم کی بھاری مقدار درآمد کرچکا ہے یا کرنا چاہتا ہے، یہ ویسا ہی یورینیم ہے جو دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے جانے والا بم بنانے کیلئے استعمال کیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یورینیم 238 کی بھاری مقدار تنزانیہ کے کسٹم حکام نے قبضہ میں لے لی تھی جو کہ کانگو کی کانوں سے اسمگل کرکے لایا جارہا تھا۔ تنزانیہ کے حکام نے اخبار سنڈے ٹائمز کو بتایا تھا کہ یہ یورینیم ایرانی بندرگاہ بندر عباس پہنچایا جارہا تھا جو کسٹم حکام نے روک لیا۔اس انکشاف کے بعد مغرب کے اس خوف میں اضافہ ہوگیا ہے جو اسے ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ہے۔ یہ رپورٹ اس موقع پر منظر عام پر آئی ہے یا لائی گئی ہے جب ایران نے یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی طرف سے پابندیوں کی دھمکی کے باوجود یورینیم کی افزودگی میں اضافہ کردے گا جبکہ ایرانی ایٹمی مذاکرات کے نمائندے نے سلامتی کونسل کی طرف سے یورینیم کی افزودگی روکنے کی اپیل یکسر مسترد کردی ہے۔ ایران نے گزشتہ دنوں اعلان کیا تھا کہ اس نے 164 سنٹری فیوجز کے ذریعے یورینیم کی افزودگی کی ہے جبکہ جلد ہی سنٹری فیوجز کی تعداد تین سو تک بڑھادی جائے گی جس کے بعد ایک سال کی مدت (قلیل یا طویل) میں ایٹمی ہتھیار تیار کئے جاسکتے ہیں۔ ادھر ایران کے ایک معتبر اخبار گہیان نے خبر دی ہے کہ ایرانی سائنس دانوں نے ایک ’’نئے مقام‘‘ پر یورینیم کی افزودگی کا عمل شروع کردیا ہے۔ اخبار نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ اس نئے مقام پر کوئی فضائی حملہ کارگر ثابت نہیں ہوسکتا کہ یہ جگہ ایسی سرنگ میں واقع ہے جس پر کوئی بم بھی اثر نہیں کرسکتا لیکن میرے حساب سے ایران کو امریکی جنرل مارٹن ڈیمپسی کی بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ امریکہ نے اگر اس جوہری پروگرام پر حملہ کیا تو ایران کا یہ جوہری اثاثہ بالکل ختم ہوجائے گا لیکن امریکہ کو یقین ہے کہ ابھی تک ایران نے ایٹمی ہتھیار تیار کرنے شروع نہیں کئے۔ ابھی ایران یہ ہتھیار تیار کرنے کیلئے راہ ہموار کررہا ہے یہی وجہ ہے کہ ابھی امریکہ اور یورپی یونین سلامتی کونسل کی وساطت سے ایران کو جوہری ہتھیاروں سے دور رکھنے کیلئے سفارتی اور معاشی اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تاہم امریکہ ایران کی نیوکلیئر تگ و دو سے غافل نہیں ہے۔ امریکہ نے نیوکلیئر سائٹس پر امکانی حملے کی ہنگامی منصوبہ سازی کے طور پر ’’بسٹر بم‘‘ کی تیاری کی کوششوں کو تیز کردیا ہے۔ اس نے اپنے سب سے بڑے ہتھیار ’’بنکر بسٹر بم‘‘ کی تیاری تیز تر کردی ہے۔ کچھ فوجی ماہرین کے مطابق ایسا بم تیار ہو چکا ہے۔ وال اسٹریٹ جنرل نے امریکی عہدیداروں کے حوالے سے خبر دی ہے کہ اس بم کو قلعہ نما اور انتہائی مضبوط حصار کے بیچ واقع مراکز کو تباہ کرنے کیلئے بطور خاص تیار کیا گیا ہے۔امریکی طیارہ ساز کمپنی بوئنگ کو ایک کنٹریکٹ دیا گیا تھا جو امریکی فضائیہ کےB-2 اسٹیلتھ بمبار طیاروں میں کلسٹر بم لگانے سے متعلق تھا۔ امریکی وزیر دفاع نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں تسلیم کیا ہے کہ زمین کے اندر کافی گہرائی میں موجود بعض بنکرز کو موجودہ کلسٹر بم پوری طرح تباہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس اعتبار سے اس میں خامیاں (کم انسانی جانیں لینے کی خامیاں) ہیں جن کو دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔ وزیر دفاع نے توقع ظاہر کی کہ 82 ملین ڈالر کی زائد رقم سے مزید طاقتور بنکر بسٹر بم جلد تیار ہوجائے گا جو یورینیم کی افزودگی کے محفوظ ترین مراکز کے خلاف زیادہ کارگر ثابت ہوگا۔ ایران کا یہ پلانٹ ایک پہاڑی کمپلیکس میں زمین کے اندر کافی گہرائی میں ہے جسے زبردست قلعہ نما انتظامات کے تحت محفوظ کیا گیا ہے۔ قلعہ بندیوں کے بیچ ایسے مراکز ایران اور شمالی کوریا نے اپنے نیوکلیئر پروگرام کی حفاظت کیلئے تیار کئے ہیں۔ پہاڑی کمپلیکس کے اطراف بھاری اور جدید طیارہ شکن توپیں لگائی گئی ہیں۔ یہ پلانٹ شہر قم کے قریب واقع ہے۔
امریکی فضائیہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بنکر بسٹر بم ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ساتھ 5300 پونڈ وزن دھماکا خیز مٹیریل ہے کہ امریکی اسلحہ کے ذخیرہ میں سب سے زیادہ طاقتور ہتھیاروں کے ذریعے ہی ایسے پلانٹ کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ یہ بسٹر بم زمین کے اندر 200 فٹ گہرائی میں داخل ہونے کے بعد دھماکہ کرتا ہے جس سے زمین کے چیتھڑے اڑ جاتے ہیں اور یہ بم یہی مقصد حاصل کرنے کیلئے بنایا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ افزودگی پلانٹ کم از کم 212 فٹ بلند ہے یہاں یہ بتانا بھی بے حد ضروری ہے کہ دنیا میں امریکہ کے بعد صرف اسرائیل ہی کے پاس ایسے بم موجود ہیں۔ کالم کے آغاز میں، میں نے تنزانیہ سے اسمگل ہو کر آنے والے جس یورینیم کا ذکر کیا تھا یہ بم بنانے کے علاوہ سیل فون کے چپ بنانے میں بھی استعمال کی جاتی ہے اور اس یورینیم 238 کو ایٹمی ری ایکٹر میں پلو ٹونیم میں تبدیل کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جس سے ایٹمی ہتھیار بنایا جا سکتا ہے مگر میرے حساب سے ابھی کافی عرصہ تک امریکہ ہی دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت رہے گا اور صدر اوباما کی طرف سے آئندہ دہائی کے دوران اپنے ارب ہا ڈالر کے بجٹ خسارے کو کم کرنے کے سلسلے میں 487 بلین ڈالر کے مختلف دفاعی اخراجات پروجیکٹوں کو ختم کرنے کی تجویز اور فوجی اخراجات میں کمی کے امریکی ارادوں کا غلط نتیجہ نہ نکالا جائے کہ امریکہ آج بھی گیارہ منٹ میں آدھی دنیا تباہ و برباد کرسکتا ہے۔ اب رہ گیا ایران پر حملے کا اندیشہ… تو میں اس کو خارج از امکان قرار دیتا ہوں کہ ایران کو نیوکلیئر بم بنانے سے روکنے کیلئے حملے کی جو دھمکیاں دی جارہی ہیں اس وجہ سے ایران بم بنانے کے فیصلے سے گریز کرے گا۔ یہ دھمکیاں اور سفارتی و معاشی اقدامات ہی ہیں جو ایران کو نیوکلیئر بم بنانے کی خواہش کے باوجود بم بنانے سے روکتے ہیں۔ ادھر ایران کے ایٹمی پروگرام کے تعلق سے کچھ عجیب سا ماحول ہے۔ بعض اوقات دھماکے ہوتے ہیں کبھی سنتے ہیں وائرس کے سبب یہ عمل روک دیا گیا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا بتاتا ہے کہ گزشتہ تین برس سے ایرانی نیوکلیئر پلانٹ طرح طرح کے حادثوں کا شکار ہورہا ہے۔ کیا حقیقتاً ایسا ہی ہے…؟
تازہ ترین