• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موجودہ حکمرانوں کے بارے میں سب ہی یہ کہتے ہیں اور درست بھی ہے کہ دیندار اور نمازیوں کی حکومت ہے۔ ’’مادر پدر آزاد‘‘ معاشرےسے ان کا نہ ہی کوئی تعلق ہے اور نہ ہی ’’آزاد معاشرہ‘‘ پر یقین رکھتے ہیں۔ وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار توداتا گنج بخش ؒ کے ایسے شیدائی ہیں کہ ان پر یہ کہاوت صادق آتی ہے کہ ایک داتا صاحب کے ماننے والے عمرہ کی سعادت حاصل کرنے سعودی عرب گئے۔ وہ وہاں علیل ہوگئے تو اپنے ایک عزیز کو لاہور فون کیا کہ میری طبیعت خراب ہوگئی ہے۔ داتا دربار حاضر ہو کرمیرے لئے دعا کرو۔ ہر جمعرات باقاعدگی سے حاضرہوتے رہے اور داتاصاحب امور مذہبیہ کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔ اگرچہ مجھےیہ گلہ ہے کہ میں ہر دور میں کمیٹی کارکن رہااس بار وہ مجھے بھول گئے۔اس وقت ملک لوڈشیڈنگ کے شدید عذاب سے دوچارہے۔ بار بار اعلان کے باوجودافطاراور سحر کےموقع پر بھی لوڈشیڈنگ ختم نہیں کی جاسکی اور اس کا اندازہ لگائیں کہ سحر کےوقت بجلی نہ ہو تو کس قدر تکلیف ہوتی ہے۔ اس حوالے سے جب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا چیخ اٹھے تو جناب وزیراعظم نےاس کا نوٹس بھی لیااور ’’بیانی ہدایات‘‘ بھی جاری کی گئی لیکن یہ سب ’’طفل تسلی‘‘ہی تھی کیونکہ بجلی کے شارٹ فال میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ اگرچہ یہ سچ بھی ہے کہ حکمران کے دن رات اسی فکر میں بسر ہو رہے ہیں کہ اس عذاب سے قوم کو کس طرح نجات دلائی جائے عوام تو پریشان ہیںہی معیشت تقریباً مفلوج ہوکر رہ گئی۔ کارخانے بند ہیں خصوصاً پاور لومز کی صنعت تباہ ہوگئی ہے اورلاکھوں مزدور بھی بیروزگاری سے دوچارہوگئے ہیں۔ جب صنعتیں بند ہوں گی تو پیداوار بھی متاثر ہو گی۔ ٹیکسٹائلز صنعت کے ذمہ دار تو ’’اشتہاری اپیلوں‘‘ تک آگئے ہیں کہ شاید اس طرح ان کی بات حکمرانوں کے دلوں میں اتر سکے۔ نوبت احتجاج، توڑ پھوڑ تک آگئی ہے۔ایک طرف شدید گرمی پڑ رہی ہے، سورج آگ برسا رہاہے دوسری طرف نہ پنکھا ہے نہ بجلی۔ اس پر عوام بلبلا اٹھےہیں اب تو کئی مقامات پر بجلی کے دفاتر پر حملے بھی شروع ہوگئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ حکمران بھی تو ہم میں سے ہی ہیں اور یہ الزام نہیں لگایا جاسکتا کہ وہ تمام حالا ت سے بے خبر ہیں۔ ابھی حال ہی میں پنجاب کے وزیراعلیٰ چین گئے تھے اور کئی اورمنصوبوں پر بات کی گئی ہے لیکن یہ ایک دو ماہ نہیں سالوں کی بات ہے جب یہ منصوبے پیداوار دینا شروع کریںگے۔
اہم اور بنیادی مسئلہ کاکوئی حل نکل سکےگا۔اس حوالے سے دلچسپ اور خوش آئند بات یہ ہے کہ وفاقی وزیرپانی و بجلی خواجہ آصف اپنےوزیر مملکت عابدشیرعلی اور سیکرٹری پانی و بجلی کے ہمراہ صحافیوںمیں آگئے اور ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کیا جس میں بہت سی وضاحتیں کی گئیںاور ’’سہانے وعدے‘‘ بھی ہوئے۔اہم ترین اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ خواجہ صاحب نے انتہائی جرأت کامظاہرہ کیااور بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قوم سے معافی مانگی۔ یہ ’’اچھی روایت‘‘ہے لیکن سوال تو اپنی جگہ موجود ہے کہ کیامعافی سے عوام کی پریشانی میںکمی آ جائے گی اورمیرے عزیز خواجہ آصف نے جو ’’سوٹ بوٹ‘‘ تو پہنتےہیں لیکن اندر سے روایتی مسلمان ہیں اور وہ بات ان کے منہ پرآگئی کہ ’’دعا کریں بارشیں ہوں تاکہ لوڈشیڈنگ کم ہوسکے۔‘‘ دوسرے شہروں کا تو علم نہیں گزشتہ رات لاہور میں تو بادل امڈ آئے ہیں۔ خواجہ آصف کا سیالکوٹ کی ایک معروف درگاہ آلومہار شریف سے قریبی تعلق ہے۔ ان کے والد گرامی خواجہ صفدر کے سجادہ نشین آلومہار سے گہرے مراسم تھے اور خواجہ صفدر ان چند سیاستدانوں میں سے تھے جن کے دامن پرکوئی داغ نہیں۔
وہ ملک کے اہم ترین عہدوں پر فائز رہے مگر کیامجال کسی نے انگلی اٹھائی ہو اور سب سے اہم کہ وہ ایک غریب باپ کےبیٹے تھے اور ’’سیلف میڈ‘‘تھے۔اس حوالے سے خواجہ آصف کا کسی اشرافیہ سے کوئی تعلق نہیں اور وہ عوام کا دکھ، درد سمجھتے ہیں اور کھلے دل سے اپنی غلطی کا اعتراف بھی کرلیاہے۔ ہمارے ’’جمہوری کلچر‘‘میں ابھی غلطی پر دستبرداری کی روایت نہیں پڑی ہے۔ اگرایساہوتا تو یقین ہے کہ خواجہ آصف جس گھرانے اور معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں وزارت چھوڑنے میں ایک منٹ نہ لگاتے۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط نہیں ہوئی ہیںاگرچہ سیاسی طور پر آبیاری کی جاتی رہی ہے لیکن نہ ہی جمہوری معاشرہ مکمل طور پر قائم ہوسکا ہے نہ ہی ’’جمہوری کلچر‘‘ ابھرا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ الزام تراشی اور دوسرے کے خلاف بیانات اور الزامات کی بھرمار ہے۔ الیکشن جو جمہوریت کی بنیادہیں ان میں دھاندلی کا شور برپا ہے کہ تحریک انصاف نے ’’گھوم پھر‘‘ کر مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ کردیاہے۔ اگرچہ یہ کوئی انہونی بات نہیںلیکن سیاستدانوںکو حالات کاادراک تو کرناہوگا۔ کیاکسی ایک جماعت کی حکمرانی ختم ہونےسے ملک کے حالات تبدیلی ہوجائیں گے؟ کیا بجلی کا بحران یکدم ختم ہو جائے گا؟ اس وقت موجودہ حکومت پانی، سورج، ہوا، کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کےلئے بہت سے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ بہاولپور کے سولر پارک پر تو کام بھی شروع ہو گیاہے۔ یہ سب اپنی جگہ صحیح لیکن اس طرح منصوبہ بندی تو کی جاسکتی ہے کہ صنعتوں کا نقصان بھی نہ ہو۔ افطار و سحر کے وقت ’’مساجد وگھر‘‘روشن رہیں۔ خواجہ صاحب کی ’’معافی او ر دعا‘‘اپنی جگہ کچھ آگے بڑھ کر عملی اقدام بھی تو کریں۔
تازہ ترین