• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں پھر طبل ِ انقلاب بج رہا ہے جس نے کچھ پرانی یادوں کو تازہ کردیا ہے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 77ء کے عام انتخابات میں دھاندلیوں کے حوالے سے پاکستان قومی اتحاد کی تحریک زور وں پر تھی۔ بھٹو نے 71ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد اُس وقت بقیہ پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ جب عالمی سطح پر بقیہ پاکستان کی بقاء کے بارے میں انتہائی مایوسی پائی جاتی تھی۔ پاکستان اقتصادی ، فوجی اور نفسیاتی لحاظ سے بدترین حالت میں تھا۔ ان حالات میں بھٹو نے دن رات محنت کرکےپاکستان کو نہ صرف ایک متفقہ آئین دیا اور اسے ایٹمی طاقت بنانے کی بنیادرکھی بلکہ چند سالوں کے اندر ہی اسے عالمِ اسلام اور تیسری دنیا کا انتہائی اہم ملک بنا دیا۔
جب بھٹو نے جمہوریت کے استحکا م کی خاطر مقررہ وقت سے ایک سال پہلے عام انتخابات کا اعلان کیا، تو ان کے مقابلے میں اپوزیشن نہ ہونے کے برابر تھی۔ پھر یوں ہوا کہ راتوں رات بھٹو کے خلاف ایک اتحاد بنا دیا گیا۔ جس میں نو جماعتیں شامل تھیں جن میں سے اکثر کا منشور بھی ایک دوسرے کے ساتھ متصادم تھا۔ ان میں مذہبی جماعتیں بھی شامل تھیں اور اے این پی جیسی سیکولر جماعتیں بھی۔ لیکن سب کا اتحاد ایک منفی نکتے پر تھا اور وہ تھا بھٹو دشمنی ۔ پہلے قومی اتحاد نے انتخابی نتائج ماننے سے انکار کردیا ۔ پھر انتخابی دھاندلیوں کی تحریک ِ نظامِ مصطفیٰ ﷺکی تحریک میں تبدیل ہوگئی ۔ بھٹو نے نئے انتخابات کا مطالبہ بھی مان لیا لیکن اس کھیل کی اصل خالق طاقتیں ہر قیمت پر بھٹو کو راستے سے ہٹانا چاہتی تھیں۔ اس وقت بھٹو نے اپنی تقریر میں ایک تاریخی فقرہ بولا تھا کہ مجھے نہیں پتہ میرے بعد کون آئے گا فرشتے یا راسپوتین ۔ راسپوتین زارِ روس کے آخری زمانے کا وہ پادری تھاجو مذہب کی آڑ میں ہر طرح کی غیر مذہبی حرکات کو جائز سمجھتا تھا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ جنرل ضیاء نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور جھوٹ ، منافقت، ظلم اور منافرت کا بازار گرم ہوگیا۔ جو اب تک رکنے کا نام نہیں لے رہا۔اس وقت جب ہر طرف انقلاب کے فلک شگاف نعرے گونج رہے تھے۔
ہمارے ایک ٹیچر نے کہا تھا کہ لوگوں نے انقلاب کو مذاق بنا دیا ہے۔ یہ جو انقلاب کے داعی ہیں ان کو تو انقلاب کے مفہوم کا بھی پتہ نہیں۔ انقلاب اور اسلامی نظام کا نعرہ لگانا آسان ہے لیکن کوئی اس کے عملی نفاذ کے بارے میں کچھ نہیں بتاتاکہ وہ نظام ہوگا کیا اور کہاں سے اس کے نفاذ کے عمل کا آغاز ہوگا۔ چنانچہ 1977کی پی این اے کی تحریک آمریت اور مذہبی نظام کے بارے میں مکمل کنفیوژن پیدا کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہ کرسکی۔ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے وقت کے آمر نے کبھی متناسب نمائندگی کے انتخابی نظام کی بحث چھیڑ دی کبھی صدارتی نظام کی اور کبھی خلافت کی۔ حالانکہ وقت کے حکمران کو چاہے گورنر جنرل کہہ لیں یا وزیرِ اعظم یا صدر یا کچھ بھی اور اصل مسئلہ نام کا نہیں کام کا ہے۔ اگر خلوصِ نیت سے کام کیا جائے تو ہر نظام کی اپنی خوبیاں بھی ہوتی ہیں لیکن جب مقصد اپنے اقتدار کی طوالت ہو تو پھر الفاظ کی عزت و توقیر بھی جاتی رہتی ہے۔ جناب طاہر القادری صاحب آج کل بڑے زور و شور سے انقلاب کے نعرے لگا رہے ہیں اور اسے دنوں کی بات قرار دے رہے ہیں لیکن اُن کا انقلاب اور اسکی نوعیت اتنی ہی مبہم ہے جتنی 77ء میں تحریک ِ نظام ِ مصطفیٰﷺ کے انقلابیوں کی تھی۔ جس کے نتیجے میں فرشتے تو نہ آسکے البتّہ کئی راسپوتین ضرور آگئے ۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ حضورآپ غصّے اور نفرت سے لال پیلے ہونے کی بجائے پیار اور محبت سے قوم کو اپنے مجوزّہ انقلاب کے لائحہ عمل ، فلسفے، طریقہ کار اور مبادیات سے آگاہ کیجئے اور یہ بھی بتائیے کہ آپ کا انقلاب، القائدہ ، طالبان اور داعش جیسی مذہبی تنظیموں کے انقلابوں سے کس طرح مختلف ہوگا۔ اور اس کے نتیجے میں ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں ترقی یافتہ ممالک کا کیسے مقابلہ کریں گے۔
ہماری معیشت کن اصولوں پر استوار ہوگی اور اس گلوبل ویلج میں ہم جو اچھوت بن چکے ہیں کس طرح اس کا مہذب طریقے سے حصّہ بنیں گے کیونکہ تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جذباتی پن ، خود ساختہ برتری کا احساس ، عظمت رفتہ کی نوحہ خانی یعنی ناسٹلجیااور نفرت کی بنیاد پر تشکیل پانے والے ردّ ِ عمل بذاتِ خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہوتے ہیں جو قوموں کو تباہ کردیتے ہیں۔ یہ انقلاب کی نہیں، ردّ ِ انقلاب کی بنیاد ہوتے ہیں جن کے خلاف انقلاب آتا ہے۔ ایک حقیقی انقلابی، ایک حقیقت پسند سائنٹفک ذہن کا مالک ہوتا ہے۔ جس میں مذہبی ، مسلکی ، نسلی اور لسانی تعصّبات کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور جس کے سامنے عوام الناس کی بھوک، جہالت اور پسماندگی کو دور کرنے کا ایک واضح پروگرام ہوتا ہے۔ جو ٹھوس اور قابلِ عمل ہوتاہے۔ وہ فتوئوں اور پیش گوئیوں پر یقین نہیں رکھتااور نہ ہی خانقاہوں کا مجاور ہوتا ہے۔ کیونکہ اس نظام کو توڑنا ہی انقلاب ہے نہ کہ اسے مستحکم کرنا۔ پاکستان میں 1977کی طرح پھر وہی خطرہ شدّت کے ساتھ ہمارے سروں پر منڈلارہا ہے۔ جب ایک نام نہاد انقلابی تحریک کے نتیجے میں فرشتوں کی بجائے راسپوتین نازل ہوگئے تھے جن سے ابھی تک ہماری جان پوری طرح نہیں چھوٹ سکی۔
کاش ہم تاریخ سے کوئی سبق حاصل کر سکیں اور اُن غلطیوں کے اعادے سے باز رہیں جن کی سزا کے طور پر ہم نہ صرف اپنا آدھا ملک گنوا بیٹھے ہیں بلکہ دنیا میں ہر لحاظ سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ردّ ِ انقلاب کی قوتیں ، انقلاب نہیں صرف تباہی لا سکتی ہیں۔
تازہ ترین