• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانیہ میں ایک چھوٹا سا اخبارنکلتا ہے۔ اس کا نام ہے’ اچھی خبریں‘ ۔ اخبار مفت تقسیم ہوتا ہے لیکن کوئی اٹھا کر دیکھتا بھی نہیں۔ عجیب بات ہے۔ ایک بار ایک بہت جہاں دیدہ اخبار نویس نے کہا تھا کہ بدقسمتی سے اچھی خبر بڑی خبر نہیں ہوتی۔ اور یہ تو طے شدہ بات ہے کہ ہر بڑی خبر چھوٹی خبر کو کھا جاتی ہے۔ نیوزروم میں کام کرنیوالے جانتے ہیں کہ اچانک ایک بڑی خبر آجانے سے کیسی ہڑبونگ مچتی ہے اور ذرا دیر پہلے جو خاصی اہم خبریں تھیں وہ یک لخت غیر اہم ہوجاتی ہیں۔
لیکن نئے دور میں ایک نئی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے۔ نیوز ایڈیٹر کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کتنی بڑی خبر ہو کہ اسے بڑا مانا جائے۔ دوسرے لفظوں میں کسی روز اتنی بہت سے بڑی خبریں آجاتی ہیں کہ یہ طے کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ان میںسے کس کوزیادہ بڑی خبر مانا جائے۔ یہ ہر نیوز روم کا روز کا مسئلہ ہوتا ہے جس کا اخبار پڑھنے والے یا ٹی وی دیکھنے والے کو اندازہ نہیں ہوتا۔ کتنی ہی باتیں ہوتی ہیں جو نیوز ایڈیٹر کا ہاتھ روکتی ہیں۔ کسی خبر کی اشاعت سے کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔ کوئی مشتعل نہ ہو جائے۔ کسی کی اب تک کی ساری محنت پر پانی نہ پھرجائے۔ کوئی منہ اٹھائے اور عدالت نہ پہنچ جائے یا یہ کہ ذرا دیر میں دفتر کے سامنے دھرنا نہ شروع ہوجائے اور اخباری زبان میں نعرہ بازی کی نوبت نہ آجائے۔ سب سے دشوار لمحہ وہ ہوتا ہے جب معلوم ہوتا ہے کہ کسی خبر کی اشاعت پر کوئی ناراض ہوگیا اور اشتہار ملنے بند ہوگئے۔ ہر چند کہ میرا اشارہ مالکان کی طرف نہیں لیکن دھیان ان کی طرف جاتا ضرور ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ زمانہ گزر گیا جب بُری خبر بڑی خبر ہو ا کرتی تھی۔ اب تو بُری خبریں اس کثرت اور اس تواتر سے آتی ہیں کہ نیوز روم میں اچھی بُری کی تمیز کم ہوتی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر کرکٹ کی نہایت ہونہار کھلاڑی لڑکی پر کچھ لوگوں نے بہتان دھرے اوروہ بولی تواسے کروڑوں روپے ہرجانے کا نوٹس بھجوادیا۔ کمزور سی بچی کیا جانے کہ بعض کالے کوٹ والے کھاتے ہی اسی کی ہیں۔ کسی کو نوٹس بھجوانا ہو تو ان کا مضمون تیارہوتا ہے ، جھٹ کتاب سے اتار کر اور نام پتے بدل کر بھیج دیا۔ اب جن لوگوں کا ایسے وکیلوں سے روز روز کا واسطہ رہتا ہے وہ اسے ایسے جھٹک دیتے ہیں جیسے ناک پر بیٹھی مکھی اڑا دی جاتی ہے۔ وہ غریب پاک و پاکیزہ لڑکی کروڑوں کا قانونی نوٹس دیکھ کر سہم گئی اور اس نے تیزاب پی کر جان دے دی۔ یہ واقعہ برطانیہ میں پیش آیا ہوتا تو ایک قیامت برپا ہوتی۔ پوری انتظامیہ حرکت میں آگئی ہوتی، اخبار، ریڈیو اور ٹیلی وژن والے دوڑ دھوپ شروع کر دیتے اور معاملے کے ایک ایک پہلو کو کریدنا اور ٹٹولنا شروع کر دیتے۔ پھر خبر کی ایسی ایسی تفصیل سامنے آجاتی کہ پارلیمان میں سوال اٹھائے جاتے اور ملک بھر میں ایک مباحثہ شروع ہو جاتا۔ ویسے اس میں برطانیہ کا کوئی کمال نہیں۔ اگر یہاں بھی صبح و شام قتل و غارت گری ہونے لگے تو ممکن ہے یہاں بھی یہی ہو ۔
چلئے، جرم اور سزا کے موضوع کو بھول جائیے۔ وہ خبریں جنہیں ہم اچھی اور خوشگوار کہتے ہیں، ان کا حال سنئے۔ اگر سموسے تلنے والا غریب بچّہ اپنی محنت سے پڑھ کر اور تیاری کر کے اعلیٰ پوزیشن لے کر پاس ہوجائے اور یہ واقعہ برطانیہ میں ہو جس کا میں شہری ہوں تو میں تصور کر سکتا ہوں کہ میڈیا میں اس بچّے کی کتنی دھوم مچے گی اور اس کی زندگی کے کون کون سے روشن پہلو اخباروں کے پہلے صفحے کی زینت بنیں گے۔ اور کتنے ہی ادارے اور افراد اس کے لئے کچھ نہ کچھ کرنے کیلئے آگے بڑھیں گے۔ مجھے خوب یاد ہے، برطانوی ٹیلی ویژن پر ذہانت کے جو مقابلے ہوتے ہیں اور جن میں بڑے سنجیدہ موضوعات پر سوالات پوچھ کر ذہانت آزمائی جاتی ہے ویسے ہی ایک مقابلے میں ایک بار تصور کیجئے کون اوّل آیا۔ لندن کا ایک ٹیکسی ڈرائیور۔ دنیا حیران رہ گئی۔ پھر تو میڈیا والوں نے اسے طرح طرح سے آزمانا شروع کیا لیکن وہ ہر آزمائش پر پورا اترا اوراس کی ذہانت کا ایسا سکہ بیٹھا کہ ٹیلی وژن والوں نے اسے اپنے ایک پروگرام کا پیش کار presenterبنادیا۔ اسی طرح ایک اور اچھی خبر ان پاکستانی کوہ پیماؤں کی تھی جنہوں نے خدا جانے کتنی اونچی چوٹیوں کے بعد آخر میں کے ٹو کو بھی سر کرلیا۔ ایک دو روز تو ان کا ذکر رہا اور پھر سنّاٹا چھا گیا۔ کہیں اور ہوتے تو کتابیں لکھ رہے ہوتے اور ان کی دستاویزی فلمیں بن رہی ہوتیں۔ ڈبل ڈیکر بس پر شہر شہر ان کے جلوس نکل رہے ہوتے۔
رہ گئیں بُری خبریں تو اُنکے ہیرو نامعلوم افراد ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر پانچ سو نامعلوم افراد کا ایک مجمع اٹھا اور ایک بستی کو پھونک دیا۔ کئی بچّے اور بڑے زندہ جل گئے۔ اب اپنے تجربے کی بنیاد پر ایک پتے کی بات عرض کروں۔ کسی نے لکھا فرقہ۔ کسی نے کہا مسلک، کسی نے جلنے والوں کو جماعت کا نام دیا اور کسی نے تو کمال کیا ۔ اس نے لکھا کہ دو فرقوں میں جھڑپ ہوئی، ایک کے مکانوں میں آگ بھڑک اٹھی۔ کچھ اموات ہوئیں۔ اس کو کہتے ہیں صحافتی شعبدہ بازی۔ بات کو گھما پھرا کر اس کا حلیہ بگاڑ دینے کا یہ فن سیاست دانوں ہی کو نہیں آتا۔ بالکل یہی کام ہماری جرات مند گُل مکئی نے بھی یہ کہہ کر کیا اسرائیل اور غزہ میں جو لڑائی ہو رہی ہے اس کو روکا جائے۔ ایک فریق ہوائی جیسے پٹاخے چلا رہا ہو اور دوسرا اپنے اسلحہ خانے کے نت نئے بارودوں کو آزما کر اونچے ٹیلوں پر بیٹھ کر تماشا دیکھ رہا ہو اورہر تباہی کے منظر اور بچوں اور ماؤں کی چیخ و پکار پر تالیاں بجاتا ہو ، اس کی بر بریت کو لڑائی کہنا یا تو بھول پن ہے یا نری عیاری(یہ لفظ ملالہ کی طبیعت پر گراں گزرے تو اسے ’ڈپلومیسی‘ پڑھ لے)۔ یہ باریکیاں عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتیں اس لئے نظر انداز ہوجاتی ہیں ۔ یہاں میڈیا کی ذمے داری ہے کہ نشان دہی کرے۔ چلئے چھوڑئیے۔ آخر میں ایک کام کرتے ہیں۔ اپنا موضوع بدلتے ہیں۔ میں ان دنوں سیرت کا مطالعہ کررہا ہوں لیکن خالص تاریخ کے زاوئیے سے۔ اس میں اگر عقیدے کونہ لایا جائے تو احادیث پڑھنے کا ایک اور ہی لطف ہوتا ہے۔ سیرتِ ابن اسحٰق پڑھنے میں بہت سی کام کی چیزیں ہاتھ لگیں لیکن ایک فقرے نے مجھ پر تاریخ کا ایک عجب باب کھولا۔اس نادر و نایاب کتاب کا جو ترجمہ اس دور کے عظیم دانش ور ڈاکٹر حمید اﷲ نے کیا اس کے صفحہ دو سو چوبیس پر ایک عربی نظم درج ہے جس کے متعلق لکھا ہے کہ رسول اﷲ ؐکے خلاف ابو جہل کے منصوبوں سے قریش نے کوئی عبرت حاصل نہ کی چنانچہ ایک کہنے والے یا ابو طالب نے یہ اشعار کہے اور اﷲ بہتر جانتا ہے کہ کہ یہ اشعار کس نے کہے۔ (یہاں میں صرف دو اشعار کا اردو ترجمہ نقل کر رہا ہوں):
’’پس اﷲ کی طرف سے ان پر غضب نازل ہوا اور کھلی مار پڑی ہندوستان کی بنی ہوئی چمکتی دمکتی تلواریں کل اپنی مضبوط اور تیز دھار کے ذریعہ سے کاٹنے کے جوہر دکھائیں گی۔‘‘تو کیا بدر اور اُحد میں ہندوستان کی بنی ہوئی تلواریں استعمال ہوئی ہوں گی۔ کیا عجب ہے کہ عضب ہماری سرزمین پر بنی ہو۔ میرا قیاس یہ کہتا ہے کہ بہت ممکن ہے یہ تلواریں سندھ کے مقام دُبی میں بنتی ہوں جہاں ابوپوٹو قوم کے لوگ آباد تھے جن کے آباو اجداد ہتھیار بنانے کے ماہر تھے اور اپنی بھٹیوں میں بہترین درانتی، کلہاڑی ، تلوار ، بھالے خنجر اور چاقو بناتے تھے۔ یہ جگہ سندھ کے شہر سانگھڑسے پچیس کلو میڑ شمال میں ہے۔ سندھ سے عربوں کی قربت بھی تھی اور قرابت داری بھی تھی۔ اگرچہ یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن آج کی اپنی تحریر کو اسی خوش گوار نوٹ پر ختم کرتا ہوں کہ اس میں غور کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں چھپی ہیں۔
تازہ ترین