• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
14؍ اگست 2014ء یا اس سے دو چار روز پہلے پاکستان کے سیاسی آسمان پر چھا جانے والی متوقع سیاسی آندھی یا آندھیوں کے طوفانی اندیشوں کے باوجود، سب سے پہلے ایک ایسے مسئلہ کا ذکر کئے بغیر چارہ نہیں جس کا تعلق پاکستانی مزدور کے مزید استحصال سے ہے، یاد رہے پاکستان میں ورکر کا معاشی استحصال پھر 50، 60اور 70کی ان دھائیوں کی نوعیت اور سطح پر پہنچ چکا ہے جس نوعیت اور سطح کو ذوالفقار علی بھٹو نے فیصلہ کن ضرب لگائی تھی، ان کی پھانسی کے بعد سرمایہ دار نظام کی عمومی درندگی واپس لوٹ آئی ہے مگر اب ذوالفقار علی بھٹو موجود نہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی قیادت کے داخلی اور روحانی بحران کے باعث عوام کی لغت سے لاتعلقی کے جدید سیاسی آلات کو زیادہ فائدہ مند ڈیکلیئر کر چکی ہے، پھر بھی یہ پیپلز پارٹی ہی ہے جس کی دو شخصیات نے پاکستانی مزدور کے اس سنگین ترین متوقع استحصال کی نشاندہی کی کہ اس جماعت نے عوام کی روح سے جنم لیا ہے، کسی قیادت کا ’’عقل کل‘‘ ہونے کا دعویٰ پارٹی کے اس عوامی جنم پر اثر انداز نہیں ہو سکتا، بہت جلد پاکستان پیپلز پارٹی کو عوام سے جدا کرنے کے اس روحانی استبداد کو ہر قسم کے لالچ اور خوف سے بالاتر ہو کر سامنے لایا جائے گا۔ پارٹی کے مخلص میڈیا پرسنز سمیت کسی کے ساتھ بھی نارمل یا گہرے ذاتی تعلق کی آڑ میں اس نیکی کو ترک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، اللہ توفیق عنایت فرمائے! ہاں تو پاکستانی مزدور کے اس سنگین ترین متوقع استحصال کا انکشاف پیپلز پارٹی کی دو شخصیات میاں رضا ربانی اور سنیٹر فرحت اللہ بابر کی مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا گیا۔ پارٹی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل اور سینٹ میں پارلیمانی لیڈر میاں رضا ربانی نے کہا ہے ’’حکومت نجکاری کے ذریعے لوگوں کو بے روزگار کر کے اپنے من پسند افراد کو قومی ادارے دے گی۔ حکومت کی نج کاری پالیسی درحقیقت آئی ایم ایف اور بین الاقوامی سامراج کی شرائط پورا کرنے کا ایجنڈا ہے۔ مزدور یقین رکھیں کہ ان کے مفادات کے تحفظ کے لئے پیپلز پارٹی پارلیمنٹ سے سڑکوں تک ان کے ساتھ ہے۔
انہوں نے چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ کو خط روانہ کر دیا ہے جس میں کہاگیا ہے کہ ’’آپ کو آپ کی آئینی ذمہ داریوں اور صوبوں کے حقوق کے بارے میں آگاہ کرنا میرے فرائض میں شامل نہیں ہے۔ حکومت کی نجکاری پالیسی آئی ایم ایف اور دیگر استحصالی مالیاتی اداروں کی شرائط پورا کرنے کے لئے ترتیب دی گئی ہے۔ حکومت نے ان اداروں کو یقین دہانی کرائی کہ پی پی ایل جو منافع بخش ادارہ ہے اس کے محدود شیئرز کی نجکاری کی جائے گی اور پی آئی اے کی دسمبر تک نجکاری کی جائے گی۔ حکومت نے نجکاری کے لئے جن اداروں کی فہرست جاری کی ہے ان اداروں کا تعلق زیادہ تر آئل اور گیس کے شعبہ سے ہے اور یہ صوبائی دائرہ اختیار میں ہے۔ صوبائی ملکیت کے اداروں کی نجکاری مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری کے بغیر کرنا غیر آئینی ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز کے کیس میں سپریم کورٹ کہہ چکی ہے ’’دوبارہ سی سی آئی سے منظوری لی جائے۔‘‘ اگر حکومت لیت و لعل سے کام لے تو صوبوں کے پاس اختیار ہے کہ وہ صوبائی اسمبلی کا اجلاس بلا سکتے ہیں۔ صوبوں کی توجہ سی سی آئی کے کلاز کی 7کی جانب بھی دلوائی ہے کہ اگر کسی بات کو کوئی صوبہ ناپسند کرتا ہے تو وہ یہ معاملہ پارلیمان میں پیش کروا سکتا ہے۔ تینوں چھوٹے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے درخواست ہے کہ ان معاملات پر صوبائی اسمبلیوں میں بحث کروائیں اور اس قسم کی نجکاری کے خلاف صوبائی اسمبلیوں سے قراردادیں منظور کروائیں۔‘‘
مشترکہ پریس کانفرنس میں نجکاری کمیشن کے چیئرمین کے پی آئی اے کے حوالے سے بیان کی شدید مذمت کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ ’’پی آئی اے کے آٹھ ہزار ملازمین کو فارغ کیا جائے گا۔‘‘ حکمران اپنے من پسند لوگوں کو پی آئی اے دینے کے لئے نئے جہاز بھی خرید رہے ہیں۔ حکومت نے ابھی تک وضاحت نہیں کی کہ پی آئی اے کے 28فیصد حصص یا 51فیصد شیئرز کی نجکاری کی جائے گی۔ پیپلز پارٹی سڑکوں پر اور ایوان پارلیمنٹ میں مزدوروں کا یہ معاملہ اٹھائیں گے۔ عید کے بعد ورکرز فرنٹ بنانے کی کوشش کریں گے۔ حساس اور سٹراٹیجک اداروں کی نجکاری نہیں ہونی چاہئے۔ پی پی نے کے ای ایس سی کی نجکاری کی مخالفت کی تھی، اس کے نتائج دیکھ لئے۔ قومی ادارے غیر ملکیوں یا سرمایہ کار اداروں کے ہاتھ میں نہیں جانے چاہئیں۔‘‘ پیپلز پارٹی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل میاں رضا ربانی اور سنیٹر فرحت اللہ بابر کا شکریہ! انہوں نے پاکستانی قومی سالمیت کے تناظر میں قومی معیشت کی پالیسیوں کے رخ اور پاکستانی مزدور کے متوقع سنگین ترین استحصال کے تذکرے سے کم از کم پی پی کی اصل یعنی ’’عوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہیں‘‘ کے پارٹی نظریئے کو خود یاد کیا، اپنی قیادت کو یاد دلایا اور پی پی کی ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ کی آرزو کرتے، بلکتے اور لرزتے پاکستانی عوام کے دلوں میں امید کی جوت جگائی۔ کوئی سنے یا نہ سنے، نقارہ پر چوٹ تو لگا دی! اب آتے ہیں، علامہ طاہر القادری، عمران خان، چوہدری برادران اور شیخ رشید کی طرف!
کچھ حتمی باتیں ہو رہی ہیں، کہیں اندازے لگ رہے ہیں۔ ’’حتمی‘‘ والوں میں علامہ طاہر القادری صاحب اور منظور وسان ہیں۔ علامہ صاحب کا کہنا ہے ’’یہ حکومت 31؍ اگست سے پہلے ختم ہو جائے گی۔‘‘ منظور وسان فرماتے ہیں ’’پرویز مشرف اس بحران میں، 14؍ اگست سے پہلے بیرونی ملک چلے جائیں گے۔‘‘
دونوں حضرات کی دونوں ’’حتمیوں‘‘ پر تبصرہ یا ان کا تجزیہ عجلت پسندی ہو گی، نہ 14؍اگست دور ہے نہ 31؍ اگست، بشرط زندگی آپ بھی میری طرح منتظر رہیں، ایک چٹکلہ البتہ چھوڑے بغیر طبیعت مضطرب سی رہے گی، پیش گوئیاں پوری نہ ہونے کی صورت میں دونوں صاحبان اسی طرح متاثر کن دلائل دیں گے جیسے یہ پیش گوئیاں کرتے ہوئے دیئے گئے! اندازوں کے ترازو میں اشیاء کی تعداد تو زیادہ نہیں مگر جتنا بھی مال ہے، وزنی ہے۔ مثلاً (1) سکرپٹ لکھا جا چکا ہے۔ (2) حتمی شو سے پہلے کوئی نہ کوئی سمجھوتہ ہو جائے گا (3) نواز شریف استعفیٰ نہیں دیں گے، ان کی جگہ کسی اور وزیراعظم کی نامزدگی بھی ممکن نظر نہیں آتی (4) اہم فیصلے ہونے والے ہیں، سپریم کورٹ کا کردار اہم ہو گا (5) دونوں لیڈر انتہاء پسندی کا مظاہرہ اپنی گرفتاریوں کے لئے کر رہے ہیں، وہ چاہتے ہیں، حکومت انہیں نظر بند کر دے وہ خود کو جس بند گلی میں لے جا چکے ہیں وہاں سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے بصورت دیگر وہ قومی سیاست کے ’’قبرستان‘‘ کی المناک یادگار بن جائیں گے۔ ان ’’اندازوں‘‘ کے صحیح یا غلط ہونے کا فارمولا بھی پہلے سا ہی ہے یعنی کم از کم 14؍ اگست تک تو لازماً انتظار کرنا پڑے گا۔
متوقع سیاسی آندھی کے منظر نامے کی ایک اور جہت شاید ان ’’پیش گوئیوں‘‘ یا ’’اندازوں‘‘ سے زیادہ قابل غور ہے۔ مثلاً شیخ رشید کا تو کچھ بھی خطرے (At Stake)میں نہیں، وہ ایک فرد ہیں، سیاسی جماعت وغیرہ کا نام برائے وزنِ بیت ہے۔ نوازشریف چلے جاتے ہیں تو واہ واہ، ورنہ آپ کو شیخ صاحب کی آواز آئے گی ’’ذرا میری ڈانگ اور پوٹلی دینا۔ ہم حلوہ کھانے آئے تھے کھا کے جا رہے ہیں۔ ‘‘ عوام کے غم میں ان کے الفاظ اور ان کی شخصیت میں مزید ایک لفظ بھی عرض کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، دھرتی کا ذرہ ذرہ ان کی ’’عاجزی‘‘ اور ’’عوامی غم‘‘ کے سچ سے باخبر ہے۔ چوہدری برادران، بی بی شہید کے بقول ’’وہ ایک سیاسی حقیقت ہیں۔‘‘ پنجاب میں اس سیاسی حقیقت سے انکار ناممکن ہے، میں اول روز سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا گواہ اور عینی شاہد ہوں، میری یادداشت کی حد تک اور یہ سو فیصد صحیح ہے، نواز شریف کی ’’ن‘‘ لیگ کے بعد ’’ق لیگ‘‘ مسلم لیگ کا وہ دوسرا ٹکڑا ہے ن لیگ کی طرح جس کی پرورش بھی ایک فوجی جرنیل کی گود میں ہوئی مگر اس کے اقتدار سے اترنے حتیٰ کہ پابند سلاسل ہونے کے بعد بھی مسلم لیگ ن کا یہ ٹکڑا ’’ق لیگ‘‘ بطور جماعت پوری طرح قائم دائم اور ملک کی قومی سیاسی جماعتوں کی صف اول کا ناگزیر حصہ ہے۔ لطیف نکتہ کے مطابق، گو چوہدری برادران ’’حلوہ‘‘ کھانے نہیں آئے لیکن At Stakeان کی بھی کوئی شے نہیں۔ ’’انقلاب‘‘ اور ’’آزادی مارچ ‘‘کے غیر پیداواری نتیجے کے بعد وہ اور ق لیگ قومی سیاست میں اسی پیڈسٹل پرموجود رہیں گے جس پر اب ہیں، زیادہ سے زیادہ ’’انقلاب‘‘ اور ’’آزادی مارچ‘‘ کے بے نتیجہ ہونے کے اسباب پر روشنی ڈالتے رہیں گے! چنانچہ سرے کا آخری بندھن علامہ طاہر القادری اور عمران خان ہیں!
اور ’’سرے کے اس آخری بندھن کے تناظر میں ابھرنے والی لہر میں، افقی اور عمودی ، دونوں شکلوں میں، تصادم، انارکی، مارشل لاء سپریم کورٹ کے (کردار)سب کے امکانات دکھائی دیتے ہیں، مگر "End of the day"طاہر القادری اور عمران خان کی حکمرانی نظر نہیں آتی! واللہ اعلم بالصواب!
تازہ ترین