• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک انتخابی مہم کے دوران اخبارات میں شائع ہونے والا اشتہار خاصہ مقبول ہوا تھا جس کی پنچ لائن تھی’’بجلی بند، گیس بند، کارخانے بند، سی این جی سٹیشنز بند، کاروبار بند‘‘ مسلم لیگ ایک سال سے اقتدار میں ہے، سال بھر بہت کچھ کیا مگر اشتہار کا نفس مضمون برقرار ہے اور سیاسی مخالفین میں سے کوئی اس قابل نہیں کہ اس اشتہار کو موثرانداز میں حکومت کے خلاف استعمال کرسکے۔’’بجلی بند، گیس بند، کارخانے بند، کاروبار بند، سڑکیں بند، موٹر سائیکل بند، بسیں بند، سیاسی کارکن نظر بند اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو چند روز میں موبائل فون سروس بند، پٹرول پمپ اور سی این جی سٹیشنز بند۔
گلیاں ہوجان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے
کل گھر سے دفتر جاتے ہوئے جناح ہسپتال سے برکت مارکیٹ تک جو منظر دیکھا وہ اس اور ہانپتی کانپتی جمہوریت کا اصل روپ تھا جسے اگر کنٹینرز، خار دارتاریں ،بیرئیرز، بندوق بردار پولیس اور رینجرز کی کمک حاصل اور حکمرانوں کا دستر خوانی قبیلہ بیچ بچائو کے لئے دستیاب نہ ہو تو ایک دن چل نہیں سکتی اور خلق خدا کو آزار دئیے بغیر اپنی حفاظت کرنے کے قابل نہیں۔
یوم شہداء اور آزادی مارچ کے اعلان میں سے کسی کو آج تک کوئی نابغہ، غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر قانونی ثابت کرسکا ہے نہ یہ کوئی نئی روایت ہے۔ موجودہ حکمران تحریک نجات اور لانگ مارچ کے ذریعے یہ سب کچھ کرچکے ہیں اور سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کے بقول مخالفین میاں نواز شریف کی ڈالی ہوئی رسم کا اعادہ کررہے ہیں مگر ہمارے جمہوریت پسند سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ جمہوریت بچانے کی تدبیر ہے۔
جو جمہوریت اپنا بچائو انسانی حقوق کی پامالی، شہریوں کے اجتماع، آمد و رفت اور اظہار رائے کے بنیادی انسانی و آئینی حق کی نفی سے کرتی ہے وہ ملک کے لئے کس قدر مفید،معاشرے کے لئے کس قدر فیض رساں اور حقیقی جمہوریت کے کس قدر قریب ہوگی اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
دنیا بھر میں جمہوریت کو اس لئے بہتر سیاسی نظام تصور کیا جاتا ہے کہ یہ انسانی حقوق کے تحفظ ،بہتر طرز حکمرانی، سیاسی و سماجی عدل و انصاف ، شہری آزادی و مساوات اور عوام کی براہ راست شرکت کی ضامن ہے مگر ہمارے ہاں یہ سامری کا بچھڑا ہے جس کی پوجا ہمارا مفاد پرست، ابن الوقت اور حکمران طبقہ پورے خشوع و خضوع سے کرتا اور اس میں موجود خرابیوں کا ذکر سن کر بھڑک اٹھتا ہے۔ اندھے مقلدین بھلا عقل و شعور کی بات کب سنتے ہیں۔
سامری کے بچھڑے کا ذکر قرآن مجید میں ہے جس کے پجاریوں نے عذاب الٰہی اور مکمل تباہی قبول کرلی مگر حضرت موسیٰ ؑ کی بات نہ سنی کہ یہ اندھی تقلید اورمفادپرستی پر مبنی طرز عمل تمہارے لئے تباہ کن ہے۔ اقتدار پسندی، مفاد پرستی ، زراندوزی اور حق تلفی پر مبنی سامری کے بچھڑے کی پوجا کرنے والی محدود مگر طاقتور اشرافیہ سے کوئی کہے کہ یہ اختیار و سرمایہ پرستی عوام کے لئے ضرر رساں ہے تو وہ مختلف دلائل تراشتے اور مفادات سمیٹنے کی اس روش کو رئیل پالیٹک(REAL POLITIC)کا نام دیتے ہیں۔
رئیل پالیٹک کی ترکیب 1853ءمیں جرمنی کے ایک سیاستدان نے گھڑی جس کا جواز اخلاقی اقدار میں نہیں طاقت کی ہیرا پھیری میں ہے، حاکم وقت ڈنڈے کی سیاست کرے، ریاستی وسائل اور ادارے مخالفین کی سرکوبی کے لئے استعمال کرے، قومی سرمائے کو ذاتی تحفظ اور فائدے پر خرچ کرے اور جمہوری اصولوں اور روایات کی مٹی پلید کرڈالے، سب روا ہے، حاکم کو پرکھنے کی واحد کسوٹی ’’وقتی کامیابی‘‘ ہے۔ وقتی طور پر کامیاب شخص ہی مدبر، لائق اور دور اندیش سیاستدان ہے۔ قومی تصور، اخلاقی تقاضے، جمہوری روایات، آئین و قانون حتی کہ مجموعی قومی مفاد بھی محض ڈھکوسلہ ہے، جو اپوزیشن کی بنچوں پر بیٹھ کر مخالف حکومت کے خلاف بطور سیاسی ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔
آج کی قومی کانفرنس اگر وزیر اعظم اور ان کے ہمنواوں و حاشیہ نشینوں کو ’’وقتی کامیابی‘‘ سے ہمکنار کرتی ہے تو ہم خوش ہمارا خدا خوش۔رئیل پالیٹک میں میاں صاحب کا کوئی ثانی نہیں۔ پچھلے سال ڈاکٹر طاہرالقادری کے تاریخی دھرنے کے موقع پر بھی میاں صاحب کو سید منور حسن، مولانا فضل الرحمن اور پیپلز پارٹی نے اسی طرح اپنا کندھا پیش کیا تھا۔ انتخابات میں جمہوری نظام کے لئے اپنا کندھا پیش کرنے والوں کے ساتھ مسلم لیگ(ن)نے جو سلوک کیا وہ شاید کسی کو یاد نہیں رہا۔ پندار کا صنم کدہ ویران کئے ہوئے کوئے ملامت میں طواف کے لئے بے قرار سیاسی و مذہبی رہنما اگر ملک کو بحران سے نکالنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو بھلا کس کم بخت کو خوشی نہ ہوگی مگر ہونے والے فیصلوں اور کرائی گئی یقین دہانیوںپر عملدرآمد کی ضمانت کون دیگا ،چودھری نثار علی خاں، سراج الحق یا خورشید شاہ؟
ایک سوال مگر جمہوریت پسند حکمرانوں اور بیچ بچائو میں مصروف سیاسی و مذہبی رہنمائوں سے کہ کیا لاہور و اسلام آباد کی کنٹینروں سے بندش، شہر شہر، قصبہ قصبہ گرفتاریوں، مقدمات اور جگہ جگہ موٹر سائیکل سواروں کی شاخت سے اس بے ننگ و نام جمہوریت کی قلعی کھل نہیں گئی؟ جو طاقتوروں کے گھر کی لونڈی ہے اور کمز وروں ،غریبوں اور محتاجوں کے لئے کیکر کا درخت اور نیچ کی آشنائی ؎
نیچاں دی آشنائی کولوں فیض کسے نئیں پایا
ککرتے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا
اور یہ بھی کہ غریبوں کے محلے اجاڑ کر اپنے محلات آباد کرنے، کمزوروں کے خون ناحق سے اپنے محلات کو روشن کرنے والا یہ ظالمانہ نظام آخر قومی بحران کے موقع پر بھی اس وقت انگڑائی کیوں لیتا ہےجب ہر طرف سے’’سب ٹھاٹھ پڑارہ جائیگا جب لاد چلے گا بنجارا‘‘کی صدائیں بلند ہونے لگیں اور 31اگست سے قبل اس کی رخصتی کی تاریخیں دی جانے لگیں آخر یہ پہلے تکبر،رعونت اور بے حسی و لاپرواری کی تصویر کیوں بنا رہا؟اور کسی کی کوئی معقول بات، کوئی جائز مطالبہ سننے کا روا دار کیوں نہ تھا؟
ابن الوقتی ،موقع پرستی، دھوکہ دہی، فریب کاری اور شعبدہ بازی کا یہ کاروبار عمران خان کی سادگی اور ایک ہی سوراخ سے دوبارہ ڈسے جانے کی عادت کی وجہ سے چل بھی گیا تو کتنا عرصے چلے گا اور حکمرانوں کو ملنے والی مہلت کتنی طویل ہوگی؟ آج کی قومی کانفرنس کے بعد سب پتہ چل جائیگا۔ ملک میں دستیاب جمہوریت کا رنگ روپ تو قوم نے ماڈل ٹائون کے اردگرد لگے کرفیو سے دیکھ لیا ہے یہ کنٹینرز، خاردار تاریں، بیرئیرز اور بندوق بردار پولیس اہلکار نہ ہوں تومعلوم نہیں مخالفین رئیل پالیٹک کا کیا حشر کریں؟
تازہ ترین