• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہالینڈ کے شہر ’’دی ہیگ‘‘ میں وہ پینٹنگ تو آپ نے دیکھی ہی ہوگی جو ’’پینوراما‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ پینٹنگ اپنی خوبصورتی، دلکشی ، انفرادیت اور نوعیت کے اعتبار سے عجیب و غریب ہے کہ یہ ایک کھلا ہوا مکمل نظارہ ہے جو نہ صرف دائیں بائیں بلکہ مشرق و مغرب و شمال جنوب تک پھیلی ہوئی ہے ایک دائرہ کی شکل میں۔ آپ سامنے لگے جنگلے کو تھام کر دائرہ میں ایک مکمل چکر لگاتے ہیں، یہ پینٹنگ زمان سے لازماں اور مکاں سے لامکاں کا احاطہ کئے ہوئے ہے، بیکراں وسعتوں کی گہرائیوں میں ایک لاجواب جادوئی شاہکار ہے، ’’دی ہیگ‘‘ کا ساحل سمندر جس کا ولندیزی زبان میں تلفظ SCHENVENINGEN ہے کو اس پینٹنگ میں 1818ء کے ایک آرٹسٹ ایچ۔ ڈبلیو مس داخ (H.W.MES DAG) (یاد رہے کہ ڈچ زمان میں جی (G) کو خ (KH) بولتے ہیں) نے بھرپور اور انتہائی مہارت و خوبصورتی سے پیش کیا ہے جس کو ایک کمپنی نے پینوراما کی شکل میں تبدیل کردیا ہے اور اب یہ شاہکار دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، میں یہ بات دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ ذی شعور اسکو ناپسند یا ’’ایویں‘‘ نہیں کہہ سکتا۔ شاید یہ اپنی نوعیت کی پہلی اور واحد پینٹنگ ہے جو بے مثال ہے۔ فوٹوگرافی اور فلم کی ایجاد سے ذرا پہلے وجود میں آنے والی یہ پینٹنگ لینڈ اسکیپ کی حقیقی دلکش اور خوبصورت ترین مثال ہے۔ میرے حساب سے اس وقت دنیا میں قریباً تین سو ایسی پینٹنگ ہیں جو بے مثال اور یکتا ہیں اور یہ پینٹنگ انہی میں سے ایک ہے جو اپنی تصوراتی ، طلسماتی اور حیران کن دل فریبی میں سرفہرست اور یکتا ہے۔
پینٹنگ دیکھتے ہوئے جہاں آپ کھڑے ہوتے وہ ایک دائرہ نما ٹیرس ہے جس کی چھت دائرہ کے درمیان میں ایک ستون کے سہارے کھڑی ہے۔ یہ چھت بھی ایک دائرے ہی کی شکل میں بنی ہوئی ہے جس کا محیط 120 میٹر اور زمین (سطح) سے اونچائی 14میٹر ہے چونکہ درمیان کے علاوہ اور کوئی سہارا یا ستون نہیں ہے ۔اس لئے آپ بیک وقت چاروں جانب کی ہر شے دیکھ سکتے ہیں۔ پینٹنگ دیکھنے والا اسی غلط فہمی میں رہتا ہے کہ سامنے نظارہ (پینٹنگ) قریباً سو میٹر دور ہوگا لیکن جیسا کہ میں بتاچکا ہوں ایسا حقیقت میں نہیں ہے یہ منظر جو کہ ایک مچھیروں کی بستی ، ساحل اور سمندر پر مشتمل ہے محض آپ سے چند قدموں کے فاصلے پر ہے۔ یہ نظارہ نہ صرف روشنیوں کی مدد سے انتہائی دیدہ زیب ہے بلکہ خوشگوار حیرت بھی لئے ہوئے ہے کچھ دیرکیلئے یقیناً آپ حیرت کدے میں گم ہوجائیں گے کہ آپ کے سامنے تاحد نظر نیلے آسمان پر بادل اور تیز چلتی ہوئی ہوائوں کا زور و شور ہے، سمندر کے پانی میں تلاطم ، موجوں میں مدوجزر، پس منظر میں ملاحوں کی آوازیں۔ یہ سب ملکر ایسا تاثر پیدا کرتی ہیں کہ سب پر حقیقت کا گماں ہوتا ہے اور آدمی اس نظارے میں ایسے محو ہوتا ہے کہ بس… اب ذرا آپ جہاں کھڑے ہیں اس گول دائرہ میں چکر لگائیں تو دیکھیں گے گائوں کی اس بستی میں چھوٹے چھوٹے مکانات ، کھیتوں میں کام کرتے کسان اور مزدور ، کھیلتے اور اچھلتے کودتے بچے، جہازوں کے رسوں کے ڈھیر، مچھلیاں پکڑنے کے جال ، کشتیوں پر عورتوں اور بچوں کا ہجوم، ایک ایسے موسم گرما کا نظارہ پیش کرتے ہیں جس پر حقیقت کا گمان ہوگا۔ اس سے ذرا آگے بڑھیں گے (دائرہ میں) تو اونچے گول گنبد نما مینار والے محلات ان کے درمیان ایک چرچ ، ایک طرف گھوڑے اور سازوسامان سے آراستہ بگھیاں جن کے پہیوں کی لکڑی نصف قطر تک گھسی صاف دکھائی دیتی ہے۔ سامنے سے آتی ہوئی کسی نواب کی سواری ، نوجوان شہزادے اور شہزادیاں ، امرا اور طبقہ اشرافیہ کے بچے زرق برق لباس میںِِ کھیلتے نظر آئیں گے۔ اس سے ذرا آگے بڑھیں تو موسم سرما آپ کا منتظر ہے، برف سے ڈھکی ہوئی سرخ مکانوں کی چھتیں ، برف سے کھیلتے بچے، گرم ملبوسات میں لپٹے منہ میں پائپ دبائے ہوئے بوڑھے ، سوئیٹروں اور چادروں میں لپٹی ہوئی بوڑھی عورتیں جو بچوں کو سردی سے بچا رہی ہیں یہ سب جیتی جاگتی دنیا کی حقیقتیں لگتی ہیں۔ سچ پوچھئے تو ایک بار یہ پینوراما آپ کو دیکھنا ہی ہوگا، میری طرح پانچ بار نہ سہی ایک بار ہی سہی۔ وہ جو کہتے ہیں لاہور، لاہور ہے ویسا ہی میں سمجھتا ہوں۔ دی ہیگ کا پینوراما ، پینوراما ہی ہے۔ اس کا کوئی توڑ نہیں۔ کوئی بدل نہیں، کوئی کاپی نہیں۔ اور یہ جو بھی ہے اسے کس طرح پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا ہے، پھر کس طرح فوکس کیا گیا ہے یہ ایک راز ہے۔ بظاہر کوئی سینما کی اسکرین نہیں پروجیکٹر نہیں۔ ایسی کوئی شے، کوئی آلہ، کوئی استاکاری یا کوئی مشین نظر نہیں آتی جس سے حقیقت کی تہہ تک پہنچا جاسکے۔ میرے حساب سے اس دائرہ نما چھت کے۔ ذرا ٹھہریئے پہلے آپ اس پینوراما کا خود مشاہدہ کیجئے اگر آپ حقیقت کی تہہ تک نہ پہنچ سکیں تو اس ناچیز کو ٹیلی فون کیجئے شاید میں آپ کو اس راز سے واقف کراسکوں کہ یہ ناچیز اس دنیا میں خدا کا نائب بھی تو ہے۔
تازہ ترین