• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کتابوں میں مرقوم ہے، شیخ چلی اور شیخ رشید جیسے جید اہل خرد کی کتابوں میں۔ میدان جنگ کے آخری فاتح کپتان جیسے عظمت کے مینار ہی ٹھہرتے ہیں۔ پہاڑجیسی غلطیوں کے باوجود احتجاجی سیاست ہی ظفر مند ہوتی ہے۔ ناقدری بہت ہے، خیر اندیش مگر شجر سے پیوستہ، پیہم پیوستہ۔
وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لئے
موسم گل میرے آنگن میں ٹھہر جائے گا
تاریخ کا دبستان کھلا ہے۔چار عشرے ہوتے ہیں،احتجاجی سیاست کے بطن سے ایک اجلا اور کامران حکمران تولد ہوا۔ مطلق العنان مگر جمہوریت پسند، رعونت شعار مگر پابند صوم و صلوٰۃ، منافق مگر مردِ مومن، جلاد مگر حلیم طبع، حریص مگر بے طمع، موقع پرست مگر جہاندیدہ، شقی القلب مگر عبادت گزار، عیار مگر پرہیز گار، ریاکار مگر کھرا، کوڑے باز مگر مجسم عجزو انکسار۔ جماعتوں کی خرافات سے پاک،شفاف اور صاف ستھری سیاست کا موجد۔ اقبال اور جناح کے افکار کا معتبر شارح۔ دو قومی نظریے کا حقیقی محافظ، جس کا ایک ایک لفظ لوحِ وطن کی تاریخ کا درخشاں نوشتہ ہے۔ نا معتبر مغربی جمہوریت کے سرکش گھوڑے کو اس نے لگام دی اور عوام کے سفلی جذبات کو بھی۔اپنی شائستگی، رواداری، حلم اور خوش کلامی سے محبوب، آج اس مردِ معقول کی برسی ہے۔ ملک کے درو دیوار پر اُداسی بال کھولے بین کر رہی ہے۔ وہ زینہ ہستی سے اتر گیا مگراس دل سے نہیں، کبھی نہیں۔
تری یاد کی بھول بھلیوں میں کھو کر
مجھے چائے اکثر ٹھنڈی پینا پڑتی ہے
بشری کمزوریوں سے مگرکوئی بھی مبرا نہیں۔ اس سے چھوٹی موٹی غلطیاں ضرور ہوئیں۔جہاد کے نام پر فرقہ پرست لشکروں کی تشکیل اور پھر ان کی باگ ڈور ناتراشیدہ، شدت پسندلوگوں کے ہاتھوں میں تھما دی، جنہوں نے نامناسب حرکات سے مملکت خداداد کو نقصان بھی پہنچایا اور تھوڑی بہت سکھاشاہی اور کشت و خون بھی۔خدا مگر غفورورحیم ہے۔ کوہِ ہمالیہ جیسی غلطی مگر اس نے یہ کی کہ قلب و ذہن کے کسی وجدانی لمحے میں یہ کہا ’’اللہ میری زندگی بھی نواز شریف کو لگا دے ‘‘ دعا اگرچہ اس طرح نہیں مانگی گئی تھی جس طرح ظہیر الدین بابر نے اپنے فرزند کے لئے۔ خدا نے مگر قبول کی۔ اس کی زندگی نواز شریف کو لگ گئی اور ملک کو نظر بھی۔ سائیکل چلانے پر قادر نہیں، حکومت مگر چلاتے ہیں۔ سرتاپا مادہ پرست ہیں،نظریات سے کوئی واسطہ نہیں۔ گھروں میں ان کے دو ہی چیزوں پر تبادلہ خیال رہتا ہے ’’آج کیا پکا ‘‘ اور ’’ آج کیا کمایا‘‘۔ انہیں پروا نہیں کہ کسی درویش کے گھر میں پکانے کے لئے دیسی مرغی میسر آئی یا نہیں ؟ مطلوب اور مفید تھے تو جنرل غلام جیلانی کے تابع معمل تھے اور جنرل ضیاء الحق کے بھی۔ فاتح افغانستان حمید گل اور اختر عبدالرحمن سے پابندی کے ساتھ مشورہ کیا کرتے، جنرل جیلانی سے بھی۔ جنرلوں کی جب ضرورت نہ رہی تو میاں صاحب جمہوریت کے علمبردار بن گئے۔محمد ضیاء الحق کے راستے کو انہوں نے تج دیا۔قصور ان کا نہیں، ماضی کی عسکری قیادت اور اس قوم کا ہے،جس نے انہیں پالا پوسا اور اب فریاد کناں ہیں (ہور چوپو)…بھارت کو وہ پاکستان کا دشمن سمجھتے تھے، ذاتی ضرورت پڑی تو دوست بنانے پر تُل گئے۔ گویا ایٹم بم وزیراعظم ہائوس کی تزئین و آرائش میں استعمال ہونے کے لئے بنایا گیا ہے۔
بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی
بیچ ہی دیویں جو یوسف سا برادر ہووے
وزیراعظم لاکھ کہیں کہ حکومت اور فوج ایک ہی صفحے پر ہیں۔ شاعری، سراسر شاعری۔ جنرل راحیل شریف کے ایک بیان نے ان کا بھانڈا بیچ چوراہے کے پھوڑ دیا، جب سانحہ کوئٹہ کے بعد یہ کہا ’’نیشنل ایکشن پلان پر سست عمل سے فوج کو تشویش ہے ‘‘۔اپنی عقلوں کے گرداب میں گھرے احمقوں کے سوا سب جانتے ہیں کہ دہشت گردی پر حکومت کے طرزِ عمل سے فوج مطمئن نہیں۔ جمہوریت کے مجاور اور لبرل فاشسٹ مگر پھر بھی بینڈ باجے بجائے جاتے ہیں۔ ذمہ دار مگر خودسپہ سالار بھی ہیں، سیاست سے بیزار جنرل عبدالوحید کاکڑ کی طرح، گوجر خان کے اس گرد آلود گائوں کے اجلے فرزند جنرل کیانی کی طرح، جو فوج کی لگی بندھی راہوں پر چلتے رہے۔ملک تباہی کے دہانے پر پہنچا انہوں نے مگر لکیر کے اس پار قدم نہ رکھا…یہ جامہ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا ؟…جب کپتان نے دارالحکومت میں دھرنے کا میلہ سجا کر ملک کو صراطِ مستقیم میں ڈالنے کی سعی کی،مگر ایمپائر کو انگلی اٹھانے کی توفیق نہ ہوئی۔پھر سانحہ پشاور اور کوئٹہ پر چیں بہ جبیں ہونا چہ معنی دارد؟ آج عقل کے اندھوں نے مہم شروع کر رکھی ہے کہ نواز شریف کو طیب اردوان بن جانا چاہئے اور پاکستانی قوم کو ترکیہ کی طرح سوچنا چاہئے۔ آئین اور جمہوریت کے لئے سینہ کوبی کرنے والوں سے عاجز کا سوال ہے کہ اردوان کو کیا کسی جنرل جیلانی نے دریافت کیا تھا ؟ اس نامعتبر مہم کو ایک چھوٹی سی خبر پامال کر گئی۔ یومِ آزادی پر سب سے زیادہ بکنے والی چیز جنرل راحیل شریف کی تصاویر والے بیج ہیں… جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے…
بے عقل قوم کی رہنمائی بہترین وظیفہ ہے اور نیم جاہل معاشرے میں عقل و ہدایت کے چراغ جلانا افضل ترین عمل۔ حد ہوتی ہے مگر صرف نظر کی بھی۔ اس عاجز کی عمر قوم کے چاک گریباں کی رفو گری میں بیتی،مگر حاصل؟ تلقین شاہی میں عشرے گزرے،مگر نتیجہ؟ ڈھور ڈنگروں کو کپتان کے فضائل سناتے زبان کانٹا ہوئی، مگرمنافع؟ کپتان کا بھی وہی اصول ہے کہ جسے پیا چاہے، وہی سہاگن۔ وائے حسرتا ! اگر وہ زود فہم مشیروں سے پیٹھ پھیر کر ابن الوقتوں کو سینے سے نہ لگاتا تو آج سڑکوں پر احتساب ریلیوں میں دھکے نہ کھا رہا ہوتا۔ کچھ نہ ہوگا، بخدا! حکومت اور اپوزیشن کے نئے متفقہ قانون سے کچھ نہ ہو گا، نیپ مانیٹرنگ ٹاسک فورس سے بھی نہیں۔ کپتان بارِ دگر میدان ہموار کیے بیٹھا ہے۔ سپہ سالار کو بروئے کار آنا ہوگا کہ چرواہا کوئی نہیں اور بھیڑوں کو راستہ معلوم نہیں۔ کپتان میاں نواز شریف جیسا ہر گز ثابت نہ ہوگا۔ مگر کپتان کا مقدر، مگر اس بندئہ خاکی کی قسمت… سونے ورگی عمر وے اڑیا،پِتل مانجھ گزاری۔
کتابوں میں مرقوم ہے، شیخ چلی اور شیخ رشید جیسے جید اہل خرد کی کتابوں میں۔ میدان جنگ کے آخری فاتح کپتان جیسے عظمت کے مینار ہی ٹھہرتے ہیں۔ پہاڑجیسی غلطیوں کے باوجود احتجاجی سیاست ہی ظفر مند ہوتی ہے۔ ناقدری بہت ہے، خیر اندیش مگر شجر سے پیوستہ، پیہم پیوستہ۔
وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لئے
موسم گل میرے آنگن میں ٹھہر جائے گا


.
تازہ ترین