• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز کی سیاسی صورتحال تاحال نازک ہے قوم نے 68واں یوم آزادی اسی اضطراب میں گزارا کے مارچ کے نتیجے میں کیا ہونے والا ہے ؟ روائتی طور پر جشن آزادی نہ منایا جاسکا سرکاری سطح پر پارلیمنٹ ہائوس کے سبزہ زار میں مسلح افواج کی پریڈ اور پاک فضائیہ کے طیاروں ، ہیلی کاپٹرز کے فلائی پاسٹ سے مزین ایک پروقار تقریب منعقد کی گئی راقم کی دانست میں صرف یہ تقریب پاکستان کی آزادی کے دن کے شایان شان نہ تھی بہر حال سردست ملک میں دو احتجاجی مارچ منعقد کئے جارہے ہیں یہ دونو ں مارچ گزشتہ رات تک ماڈل ٹائون اورزمان پارک تک محصور تھے لیکن رات گئے ہونے والی سیاسی کاوشوں کے نتیجے میں یہ مقید مارچ 14اگست کی صبح سڑکوں پر رواں دواں نظر آئے اسکا سہرا ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے سر جاتا ہے جنہوں نے سیاسی رہنمائوں سے وسیع تر مشاورت کرکے حکومت کو بھی رابطے میں لیا اور بلاآخر آزادی مارچ اور انقلاب مارچ جی ٹی روڈ پر رواں ہے اسطرح شہر لاہور بڑے تصادم سے بچ گیا ماضی میں کسی بھی سیاسی بحران کی آڑ میں فائدہ اٹھانے کی تاریخ تو دستیاب لیکن ایسے تدبر کی مثال پاکستان کی تکلیف دہ تاریخ سے نکالنا ناممکن ہے مارچ کرنے والی دونوں سیا سی جماعتیں انتہائی نقطہ پر مارچ کررہی ہیں لہذ اسی سیاسی سوچ کو برقرار رکھتے ہوئے سیاسی اکابریں کو اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہیے تاکہ دونوں سیاسی جماعتوں کو پوائنٹ آف نو رٹرن سے واپس لا کر اس مسلئے کا کوئی باوقار حل نکالا جاسکے۔ذرائع ابلاغ کا کردار بھی خاصہ متوازن نظر آتا ہے جو حکمرانوں کے غلط انتظامی فیصلوں کو آڑے ہاتھوں لے رہا ہے جسکے باعث حکومت اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرتی دکھائی دی اسی طرح سیاسی اور اخلاقی دبائو برقرار رکھا جائے تاکہ حکومت اور احتجاجی مارچ کرنے والے قانون کو پامال نہ کرسکیں اور جمہوری عمل کا تسلسل برقرارہے ملک کسی طور جمہوری نظام کے خاتمے کا متحمل نہیں ہوسکتا اور کوئی دوسری قوت جمہوریت کی بقا کی ضمانت نہیںدے سکتی تا وقتکہ سیاسی جماعتیں خود نظا م کے تحفظ میں سنجیدہ نہ ہوں دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ وہ قومیں ترقی کرتی ہیں جو برداشت، تحمل کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ ہمارے معاشرے کے مجموعی مزاج میں سختی اور عدم برداشت پایا جاتا ہے جو مسائل کے حل کی راہ میں بڑی روکاوٹ ہے۔ گزشتہ دنوں جن مطالبات پر حکومت ماننے سے انکار کرتی رہی بلا آخر اس نے مانے لیکن اس وقت تک پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا تھا۔ یہاں یہ کلیہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ وقت پر فیصلہ کرنا ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بڑی اہمیت کا حامل ہے جس کا ادراک حکمران نہ کرسکے۔ اس نازک ترین موڑ پر حکومت کو چاہیے کہ وہ ان سیاسی رہنماؤں کی مدد بدستور حاصل رکھے جنہوں نے تشدد کے بغیر مارچ کو لاہور سے نکال کر اسلام آباد کی جانب رواں کیا ہے۔ یہی رہنما دونوں جماعتوں کو جو مارچ کررہی ہیں ایک قابلِ عمل ایجنڈا پر مذاکرات کے لئے راضی کرسکتی ہیں لہذا ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اس پس منظر میں خاصہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ حکومت اور مارچ کرنے والی دونوں حماعتوں کے مابین کم سے کم مشترکہ نکات تلاش کرکے اس مسلۂ کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ مثلاً ماضی میں ہونے والی انتخابی دھاندلیوں کا ادراک کرتے ہوئے مستقبل میں اس کا تدارک کیا جائے جن نکات کی طرف طاہر القادری نے توجہ مبذول کرائی ہے اس کا بھی احاطہ کرنا ضروری ہے کیوں کہ وہ پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی بات کررہے ہیں تعلیم، صحت، روزگار، گھر اور تحفظ شہریوں کو دینا ایک فلاحی مملکت کی ذمہ داری بنتی ہے اسی طرح اختیارات اور وسائل کو نچلی سطح پر منتقل کرنا آئینی ذمہ داری نبتی ہے اس کو بھی پورا کرنا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے۔ ملک میں کافی عرصے سے نئے انتظامی یونٹ یعنی صوبوں کے قیام کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے لہٰذا اس پر بھی اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ فریقین ماضی کا تلخ باب بھلا کر ایک روشن مستقبل کے لئے اسلام آباد کی شاہراۂ دستور پر سر جوڑ کر بیٹھیں اور ان مسائل کا حل تجویز کرکے پارلیمنٹ کی ضمانت حاصل کریں۔ اگر پھر کسی وعدے پر اس معا ملے کو التوا میں ڈالنے کو کوشش کی گئی تو تصادم ہوسکتا ہے۔مارچ کرنے والی دونوں سیاسی جماعتیں پاکستان کے موجودہ نظام میں رہتے ہوئے اصلاحات کی خواہ ہیں اور میاں نواز شریف بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں فیصلے سڑکوں پر نہیں ہوسکتے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ میاں صاحب نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کو کتنی عزت دی اور وہ گزشتہ سوا سال میںکتنے دن اس ایوان تشریف لائے یقینا یہ سوال ان کے لئے خفت کا باعث ہے جب وہ خود ایوان کو توقیر نہیں دیتے تو ان کے رفقاء اور وزراء اور اراکین کیوں کر اس ایوان کی تکریم کریں گے اور جب حکمرانوں کا یہ رویہ ہوگا تو پھر سیاسی جماعتیں کیوں کر ان آئینی اداروں پر بھروسہ کریں گی لہذا اس میں دو رائے نہیں کہ نظام میں اصلاح کی وسیع گنجائش موجود ہے۔ اس کے طریقہ کار کو طے کرنا ہے اور اس امر کا بھی خیال رکھنا ہے کہ یہ تبدیلی ایک مناسب ٹائم فریم میں ہو۔ یہ یاد دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ آج جو مطالبات لے کر علامہ طاہرہ القادری اور عمران خان سڑکوں پر ہیں ان مسائل کی نشاندہی الطاف حسین نے آج سے تیس برس قبل ہی کردی تھی اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ایوانوں میں صوبائی خودمختاری خواتین کے حقوق اور بنیادی ضروریات ریاست کی جانب سے عوام کو فراہم کرنے کے لئے ایم کیو ایم نے مختلف فورم پر آواز بلند کی اور ایک طویل عرصہ کے بعد اٹھارویں ترمیم کی شکل میں مکمل نہ صیحح جزوی صوبائی خومختاری صوبوں کو ملی کسی حد تک خواتین کے حقوق کے حوالے سے بہتری آئی اور ان کے تحفظ کیلئے قانون سازی کی گئی یہ طریقہ اصلاحات کا ہے جبکہ مارچ کرنے والی دونوں جماعتیں اس منزل کو ایک رات میں جاصل کرنا چاہتی ہیں جو کہ ایک مشکل راستہ ہے۔ اصولی طور پر ان کے مطالبات سے کسی کو انکار نہیں طریقۂ کار پر مختلف آراء سامنے آرہی ہیں اور یہ ایسا مسلۂ نہیں جسے بات چیت کے ذریعے حل نہ کیا جا سکے۔ امید ہے کہ سیاسی اکابرین اپنے فہم و فراست سے مسائل حل کرلیں گے۔اور اگر فراست کا یہ عمل جاری رہا تو انشااللہ نہ تو نظام اور نہ ہی وطن عزیز کو اندیشہ زوال ہوسکتا ہے۔
تازہ ترین