• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی ریاست دنیا کی وہ واحد ریاست ہے جو نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اپنی شناخت اور استحکام کے بارے میں کوئی یقینی مثبت رائے قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ یہ ایک دردناک تاریخی حقیقت ہے کہ 1947میں جنم لینے والی پاکستانی ریاست اپنے قیام کے صرف 23سال بعد ہی ختم ہو گئی تھی۔ 1971میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد یہ ایک نئی ریاست ہے جس نے 1947کی ناکام ریاست کے بطن سے جنم لیا تھا۔ دُکھ کی بات تو یہ ہے کہ اس سے علیحدہ ہونے والا بنگلہ دیش بھی جغرافیائی ، سیاسی، معاشی اور امن و امان کے حواے سے کافی مستحکم پوزیشن کا حامل ہو چکا ہے مگر نیا پاکستان بھی ابھی تک ڈانواں ڈول ہے۔
کسی ریاست کے استحکام کے بارے میں اس کا جغرافیہ، تاریخی پس منظر، محلِ وقوع، اس کے قیام کا بنیادی نظریہ، مختلف مذاہب اور قومیتوں کے باہمی تعلقات اور طرزِ حکمرانی وغیرہ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان میں کچھ عوامل قدرتی ہوتے ہیں اور کچھ انسانی کاوش کے محتاج ۔ جیسے جن ریاستوں کا جغرافیہ ’’تاریخی‘‘ہوتا ہے۔ وہ مضبوط ہوتی جاتی ہیں مثال کے طور پر ایران، ترکی ، انگلینڈ جیسی دنیا کی اکثر ریاستیں جو کئی صدیوں سے قائم ہیں۔ ان کا وجود انتہائی مستحکم ہے بہ نسبت پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے نومولود ممالک کے۔ اسی طرح دوسرے قدرتی فیکٹر کیوجہ سے جن ممالک کا جیوپولیٹیکل محل وقوع جتنا زیادہ اہم ہوتا ہے اُن کا استحکام اتنا ہی زیادہ خطرے میں ہوتا ہے کیونکہ وہاں عالمی طاقتوں کے مفادات کے ٹکرائو کا اندیشہ بھی زیادہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ایسے ممالک اندرونی اور بیرونی سازشوں کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں۔ پاکستان اسکی ایک کلاسیکل مثال ہے کیونکہ اپنی جیوپولیٹیکل اہمیّت کے لحاظ سے شاید پاکستان دنیا کا سب سے اہم ملک ہے جس کے قیام کے وقت دنیا کی ایک سُپر پاور سوویٹ یونین اس کا ہمسایہ تھی جس کی دوسری سوپر پاور امریکہ کے ساتھ دنیا میں غلبے کے لئے سرد جنگ شروع ہو چکی تھی۔ اسی طرح اس کے ہمسائے میں دنیا کی دو بڑی معیشتیں یعنی دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک چین اور دنیا کی سب بڑی جمہوریت بھارت واقع ہے۔ صرف یہی نہیں تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ریاستیں اور قدرتی معدنیات سے بھر پور افغانستان ، ایران اور وسط ایشیائی ریاستیں بھی اس کے دہانے پر موجود ہیں۔ اس بے انتہا اہم قدرتی محلِ وقوع کیوجہ سے بھی پاکستانی ریاست عدم استحکام کا شکار رہی ہے۔ لیکن ان دو اہم قدرتی عوامل کی کمزوری کو صحیح حکمتِ عملی کے ذریعے طاقت میں بھی تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ اگر پاکستان بہتر حکمتِ عملی کیو جہ سے داخلی طور پر مضبوط ہو جاتا تو اپنے محلِ وقوع کی اہمیّت کیوجہ سے بہتر بارگیننگ کی پوزیشن اختیار کر سکتا تھا۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا کیونکہ اندرونی عوامل جن میں ریاست کا بنیادی نظریہ،طرزِ حکمرانی اور خارجہ پالیسی شامل ہے کی غلط ترجیحات نے وراثت میں ملنے والی ریاستی کمزوریوں کو دور کرنے کی بجائے اور بڑھادیا ۔ سوم جہاں تک ریاست کے اساسی نظریے کا تعلق ہے تودنیا کی تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ ریاست کی بنیاد مذہب پر نہیں رکھی جا سکتی ۔ ٹھوس مادی ضروریات اور معاشی مفادات کی بہم رسانی ہی ریاست کے افراد کو باہم متحد رکھ سکتی ہے اگر صرف مذہب ہی ملکوں کی بنیاد بن سکتا تو دنیا کے اندر ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے علیحدہ علیحدہ کئی ممالک نہ ہوتے اور نہ ہی وہ آپس میں دستِ گریباں ہوتے۔ دنیا کی پوری تاریخ ایک ہی مذہب کو ماننے والے ممالک اور خاندانوں کے باہمی جھگڑوں سے بھری پڑی ہے۔یورپ کی عیسائی ریاستوں کی باہمی چپقلش ہو یا ماضی قریب میں جنگِ عظیم اوّل اور دوم جس میں متحارب ممالک میں اکثریت عیسائی ممالک کی تھی۔ کچھ صدیاں پہلے ساری دنیا پر مذہب کے نام پر حکومتیں قائم تھیں جو اندرونی اور بیرونی طور پر جنگ و جدل میں مصروف رہتی تھیں ۔ کیونکہ تمام مذاہب میں فرقوں کی موجودگی نے مذہبی نظام میں اتحاد اور یگانگت کی بجائے انتشار اور ابہام پیدا کر دیا تھا۔ درحقیقت موجودہ ترقی یافتہ اور مہذب نظامِ حکومت تمام مذاہب کی بنیادی تعلیمات کا ہی نچوڑ ہے جس میں وہ تمام اخلاقی اصول بیان کئے گئے ہیں جنہیں آفاقی سچائیوں کے نام سے جانا جاتا ہے مثلا سچ بولو، پورا تولو، کسی کا حق نہ مارو، مظلوم کی داد رسی کرو، غربت مٹائو ، خلقِ خدا کی بہتری کرو وغیرہ وغیرہ۔ ۔ مگر صرف مذہب کا نام لئے بغیر تاکہ وہ عمل فرقہ واریت اور انتشارکا شکار نہ ہو جائے۔ اسی نظریے کو سیکولر ازم یا مذہبی رواداری کہتے ہیں ۔ جسے کچھ لوگ غلط طور پر الحاد یا لا دینیت کا نام دیتے ہیں۔ ایک سیکولر ریاست میں کسی کو اس کے مذہبی نظریے پر عمل کرنے سے نہیں روکا جا سکتا البتّہ مذہب کے نام پر زبردستی اور تشّدد کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔آج مذہبی بنیادوں پر ہونے والی قتل و غارت گری ہی موجودہ پاکستان کے استحکام کے لئے سب سے بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے۔ پاکستان سے علیحدہ ہونے والے بنگلہ دیش نے تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی ریاست کی بنیاد یں مذہبی رواداری یا سیکولر ازم پر استوار کر لی ہیں۔ وہاں نہ تو مذہب خطرے میں ہے اور نہ ہی مسلمان ۔ بلکہ ہر کوئی بلا امتیازِ مذہب و رنگ و نسل ترقی کی دوڑ میں شامل ہو گیا ہے اور ان کی معیشت اور استحکام کی صورتِ حال ہم سے بہتر ہو گئی ہے۔چہارم اسی طرح طرزِ حکومت بھی ملکی استحکام میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دنیا کا ہر نظام آزمانے کے بعد انسانی تاریخ نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود ابھی تک کے دریافت شدہ تمام نظاموں میں بہترین نظامِ حکومت جمہوریت ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب ِ فرانس کے بعد یورپ نے اپنے جمہوری نظام کی بدولت جس برق رفتاری سے ترقی کی ہے انسانی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کیونکہ ڈکٹیڑشپ چاہے کسی بھی شکل میں ہو انسانی حرمت ، شعور اوربنیادی حقوق کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے کیونکہ جمہوریت جیسے جیسے میچورہوتی جاتی ہے عوام کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور خواص کا زور ٹوٹ جاتا ہے جبکہ ڈکٹیٹر شپ اس کے برعکس اکثریت یعنی عوام پر چند افراد کے تسلّط کا نام ہے۔جس سے عوام میں مایوسی اور ریاست سے بغاوت کے جذبات جنم لیتے ہیں پاکستان میں اس کے قیام سے لیکر زیادہ عرصہ تک ڈکٹیڑشپ کا راج رہاہے ۔ جس کے دوران 1947کا پاکستان جو ووٹ یعنی جمہوریت کے ذریعے وجود میں آیا تھا۔ ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گیالیکن تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا بلکہ اسے پھر بار بار دہرایا گیا۔ حالانکہ جمہوریت کا تصّور اسلام سمیت کسی مذہب کی بنیادی تعلیمات سے متصادم نہیں۔ قرآن پاک میں تو شوریٰ یعنی مشورے کے نام سے ایک سورت نازل فرمائی گئی کہ اپنے معاملات باہمی مشاورت سے سرانجام دو۔ اسی کا نام جمہوریت ہے۔ اسلام میں ملوکیت، وراثت اور طاقت کے زور پر حکومت حاصل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ معرکہء کربلا بھی اسی حکم کا پر تو تھا۔ریاستی استحکام کے بارے میں پانچواں اور انتہائی اہم عنصر کسی ریاست کا اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات پر مبنی ہے۔ اندرونی اور بیرونی امن کے بغیر ترقی ممکن ہی نہیں۔ جنگیں صرف تباہی لاتی ہیں۔ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اپنے اختلافات کو جنگ سے بچے بغیر تدّبر سے حل کرنا ہی عقلمندی ہے۔ جنگی جنون نہ صرف ترقیاتی کاموں کو روک دیتا ہے بلکہ معاشرے میں انتہا پسندی کو جنم دیتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد مستقبل کے خطرات سے بے نیاز ہو کر ہمارے حکمرانوں نے بھارت، سوویت یونین اور افغانستان کی مخالفت میں جس طرح پاکستان کو امریکی مفادات کی غلامی میں دے دیا تھا۔ آج اس کا خمیازہ ہم انتہا پسندی اور قتل و غارت گری کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔ افغان جہاد کے نتیجے میں سوویت یونین کی شکست و ریخت نے تیسری دنیا اور مسلم ممالک کی اکثریت کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا ہے۔ جبکہ بھارت کے ساتھ ہمارے مسائل حل ہونے کی بجائے پہلے سے بھی بدتر صورت اختیار کر چکے ہیں۔ اگر آپ کی سرحدوں کے اندر اور باہر دونوں طرف بد امنی ہو تو آپ کب تک اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں؟ کسی ریاست کے کامیاب یا ناکام ہونے میں چھٹا عنصر ۔۔’’ قومی ترجیحات‘‘ کا ہے۔ جو افراد یا اقوام مسائل (Issues)کو حل کرنے کی بجائے اپنی توانائیاں فروعی مسائل یا نان ایشوز (Non-Issues)میں صرف کرتے ہیں۔ وہ کمزور سے کمزور ہوتے جاتے ہیں۔ انسانی معاشرے کے بڑے مسائل روٹی کپڑا ، مکان ، تعلیم اور صحت سے متعلق ہیں ۔ جب آپ ان پر توجہ دینے کی بجائے لوگوں کے اعتقادات ، شکل وصورت ، وضع قطع اور نظریات پر اپنی توانائیاں صرف کریں گے تو معاشرے میں انتشار ، نفرتیں اور ابہام جنم لیں گے۔ جو ریاست کو عدم استحکام کا شکار کر سکتے ہیں ۔ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارا سفر سلامتی کی طرف ہے یا خدانخواستہ کسی نئی تباہی کی طرف؟
تازہ ترین