• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
16اگست 2014ءکو صوبائی دارالحکومت کی ایک عدالت نے وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ شہباز شریف،8 وفاقی و صوبائی وزراء اور اعلیٰ پولیس افسران سمیت 21 افراد کے خلاف سانحہ ماڈل ٹائون کے مقدمہ قتل کی ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات جاری کردئیے۔
آج سے قریب قریب چھتیس (36)برس قبل بھی اسی شہر لاہور میں ’’حقیقی‘‘ منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھی ایک ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔ اس ایف آئی آر کے بعد آج تک ہم جیسوں کی جھولیوں میں ذوالفقار علی بھٹو کا بھرا ہوا لہو عدل کا متلاشی اور اس کی بے گوروکفن میت تدفین کے انتظار میں ہے۔لاہور کی عدالت کے فیصلے نے مجھے اس مقدمہ قتل اور اس کی ایف آئی آر پر اہل قلم کے نوحوں ،ہمالہ کے آنسووئوں اور عوام کی خاموش سسکیوں نے گھیر لیا ہے جنہیںمنو بھائی نے اپنی آہوں میں لپیٹ لیا تھا۔
وہ کہہ رہا تھا!
احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر!
چوراں ،ڈاکواں، قاتلاں کولوں
چوراں، ڈاکواں،قاتلاں بارے ،کیہ پچھدے او؟
ایہہ توہانوں کیہ دسن گے؟ کیوں دسن گے؟
******
دتی اے کدی کسے نے اپنے جرم دی آپ گواہی؟
کہیڑا پاندا اے اپنے ہتھ نال
اپنے گل وچ موت دی پھائی؟
******
کھوجی رسہ گیر نے سارے، کیہہ پچھدے او؟
اک دوجے دے جرم سہارے،کیہ پچھدے او؟
ڈاکواں کولوں، ڈاکواںبارے، کیہ پچھدے او؟
******
احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر!
ساڈے گھروچ ڈاکے وجے
ساڈیاں نیہاں پٹیا ں گیئاں
ساڈے ویہڑے لاشاں وچھیاں
ساڈیاں عزتاں لٹیاں گیئاں
******
اسی نمانے اپنے زخمی ہتھاں دے نال
انصافاں دے بوہیاں نوں کھڑکاندےرہ گئے
الاں، کانواں،کتیاں کولوں
اپنے زخم چھپاندے رہ گئے
******
درداں کولوں لئو شہادت
زخماں توں تصدیق کرائو
ساڈے ایس مقدمے دے وچ
سانوںوی تے گواہ بنائو
******
کیہڑی ہور شہادت لبھیئے
کیہڑی ہو ر گواہی پائیے؟
ایس تباہی، بربادی دا
کیہڑا ہور ثبوت لیائیے؟
******
اور 36 برس پہلے کی اس ایف آئی آر کا رسہ عباس اطہر نے اپنے کندھے پر رکھ کے لوگوں کو یاد دلایا۔
اور سارے مظلوم تھے
کوئی بیمار تھا اور بستر سے باہر نہیں آسکا تھا
کسی کے لئے گھر کا دروازہ صحرا میں کھلتا تھا
دہلیز پر دھوپ تھی
کچھ سلاخوں کے پیچھے خموشی سے بیٹھے ہوئے تھے کہ رونا منع تھا
جو سر پر کفن باندھ کر، مشعلیں بن کر نکلے
وہ لمحوں میں جل بجھ گئے
اور ان کے لئے رونے والے بہت تھے
علم لے کے مقتل کی جانب سفر کرنے والے نہیں تھے
کہ اس کے سوا ،ایک اس کے سوا
جو اندھیرے میں مارا گیا
سارے مجبور تھے، سارے بے بس تھے اور سارے مظلوم تھے
******
ماں تو نے ہمیں کیسے وقتوں میں پیدا کیا
کیسے ملکوں میں پیدا کیا
کیسے ظلموں میں پیدا کیا
******
آئو، دور ہوجائیں
ظلم کی زمینوں سے
خوف کے مکانوں سے، درد کے مکینوں سے
عباس کہہ رہا تھا!
دیکھو اسے
جس کے حسن اور جس کی صفت کے لئے
شاعروں نے ستاروں میں سو لفظ ڈھونڈے تھے
پھر بھی انہیں اور کی جستجو تھی
کنوئیں میں لٹکتا ہے
اوراس کی گردن میں رسے کا پھندا ہے
اور کالے کپڑوں میں لپٹا ہوا اس کا سر ایک جانب لٹکتا ہے
اور پشت پر ہاتھ جکڑے ہیں، پائوں میں رسی بندھی ہے
سلام اس کی بے چارگی پر
******
خود اس نے اس ایف آئی آر کے بارے میں بولا تھا۔
’’میرا خدا جانتا ہے کہ میں نے اس آدمی کا خون نہیں کیا ،اگر میں نے اس کا خون کیا ہوتا تو مجھ میں اتنا حوصلہ ہے کہ میں اس کا اقبال کرلیتا۔ یہ اقبال جرم اس وحشیانہ مقدمے کی کارروائی سے کہیں کم اذیت اور بے عزتی کا باعث ہوتا۔ میں مسلمان ہوں اور ایک مسلمان کی تقدیر کا فیصلہ قادر مطلق کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ میں صاف ضمیر کے ساتھ اس کے حضور پیش ہوسکتا ہوں اور اس سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس کی مملکت اسلامیہ پاکستان کو راکھ کے ڈھیر سے دوبارہ ایک باعزت قوم میں تعمیر کردیا ہے۔ میں آج کوٹ لکھپت کے اس’’بلیک ہول‘‘ میں اپنےضمیر کے ساتھ پرسکون ہوں!‘‘
لیکن منصف عدل کےقتل کرنے سے باز نہ آیا، بالآخر شہد کی مکھیوں نے اس کی میت پر بین کئے۔ لاہور کی عدالت کے فیصلے نے مجھے چھتیس برس پہلے کی اس ایف آئی آر کی گریہ زاری سامنے لانے پر بے بس کردیا، ہم پاکستانی تو 4اپریل 1979ء کی شب کے پچھلے پہر سے چھپ چھپ کر اشک بار رہنے کے عادی ہوچکے۔ بھٹو خاندان کے تاریخی رازداں بشیر ریاض اس گھڑی میرے پاس ہوتے، میں ان سے ضرور استفسار کرتا’’جب لندن یہ خبر پہنچی، مرتضیٰ کہاں تھا؟ شاہنواز کیسا تھا؟ بی بی اور بیگم صاحب کی دوری آپ لوگوں نے کیسے سہاری تھی؟ صنم کہاں تھی؟ سو آج سے36 برس پہلے بھی ایک ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔
تازہ ترین