• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد کے ریڈ زون میں پھٹتے ہوئے سیاسی آتش فشاں کی تازہ ترین تصویر پیش کررہا ہوں۔ یہ تصویر 25 اگست سہ پہر کے بعد امکانی طور پر انسانی خون کے رنگوں سے مزین ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ (خدانخواستہ)
آج 26 اگست کی صبح جب یہ تحریر لکھی جارہی ہے پاکستان عوامی تحریک کے چیئرمین ڈاکٹر طاہر القادری کا قومی پریس میں شائع شدہ ’’اعلان شہادت‘‘ بمعہ تفصیلات میرے سامنے ہے، شیخ الاسلام نے اپنے الفاظ کا چنائو ’’صبح انقلاب یا شام شہادت‘‘ کے جلو میں کیا۔ ریڈ زون میں اپنے عہد کے لہراتے پرچم تلے انہوں نے کہا ’’کل شام تک (یعنی آج 27 اگست کی شام تک جب آپ یہ کالم دیکھ رہے ہیں) حکمرانوں کو آخری الٹی میٹم دے رہا ہوں، وہ قومی اسمبلی سمیت ملک کی تمام اسمبلیاں تحلیل کردیں، سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر درج کی جائے اورخود کو قانون کے حوالے کردیں۔ جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ سامنے لائی جائے، میرے اس آخری الٹی میٹم پر عمل درآمد نہ ہونے کی شکل میں نتائج کی کوئی ذمہ داری مجھ پر نہ ہوگی۔ میں نے کچلے اور پسے ہوئے عوام کے حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے شہادت کی نیت کرلی اوراپنا آخری غسل لے لیا۔ کیا ملک میں کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں رہا ،غریبوں کی صدائیں جس کی سماعت سے ٹکرا سکیں؟
25 اگست 2014ء کی سویر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق ایڈیشنل سیکرٹری محمد افضل خان کے 11 مئی 2013ء کے عام قومی انتخابات کے حوالے سے انکشافات نے موجودہ ’’منتخب‘‘ وزیراعظم نوازشریف اور ان کی ’’منتخب‘‘ حکومت کے ’’ڈی فیکٹو‘‘ سائے فیصلہ کن حد تک گہرے کر دیئے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے مقتولوں کا لہو اور افضل خان کے انکشافات کے نتیجے میں نوازشریف اوران کی حکومت کے اخلاقی بحران نے اقتدار کے لئے جان لیوا حیثیت اختیار کرلی۔ افضل خان کا کہنا تھا ’’الیکشن 2013ء میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی، الیکشن میں 35 نہیں سینکڑوں پنکچر لگائے گئے۔ جسٹس (ر) ریاض کیلانی نے الیکشن 2013ء کو تباہ کیا، الیکشن کو تباہ کرنے میں ان کا 90 فی صد ہاتھ ہے۔ گریٹ گیم میں سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اورافتخار محمد چودھری بھی ملوث تھے۔ میں بھی کسی نہ کسی حد تک ظلم میں شریک تھا، قوم کا مجرم ہوں۔ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ الیکشن میںعوام کا مینڈیٹ چوری ہوا۔ انتہائی منظم طریقے سے کرپشن کی گئی۔ کچھ جماعتوں نے الیکشن جوڈیشل کمیشن کے ذریعہ کرانے پر زور دیا۔ جہاں جہاں کیمرے لگے تھے دھاندلی نہیں ہوئی جیسے اسلام آباد، چودھری نثار نے بھی ہر حلقے میں ہزاروں ووٹ ناقابل تصدیق قرار دیئے۔ چودھری نثار کو سیل شدہ ووٹوں کے ناقابل تصدیق ہونے کا کیسے پتہ چلا؟ سارے ووٹ تو سیل ہوتے ہیں۔ لگتا ہے الیکشن 2013ء طے شدہ دھاندلی کے تحت ہوئے، پہلے مجھے اس بات کا شک تھا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی، اب یقین ہے۔ اگر یہ لوگ دھاندلی میں ملوث نہ ہوئے تو 4 حلقے کھول دیتے۔ عمران خان دھاندلی کے متعلق سچ کہہ رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے بجائے سابق چیف جسٹس نے ریٹرننگ افسروں کو تعینات کیا، دھاندلی کی شکایت والے کیسز کو جان بوجھ کر طوالت دی گئی، سابق چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے آر اوز کی درخواست دے کر افتخار محمد چودھری کو بچایا۔ سابق جسٹس ریاض کیانی کے فیصلوں کی فخرو بھائی توثیق کیا کرتے تھے۔ فخرو بھائی نے آنکھیں بند کرلی تھیں، انہیں نوٹس لینا چاہئے تھا۔ فخرو بھائی کام کرنے میں خوف زدہ تھے، انہیں کراچی میں فائرنگ کر کے ڈرایا گیا۔ آصف زرداری نے کہا ’’فخرو بھائی آپ نے ہمیں مایوس کیا‘‘۔ الیکشن ٹریبونل نے بھی فائدے اٹھائے۔ بچوں کے لئے نوکریاں لیں۔ الیکشن ٹریبونل 2 نمبری نہیں 100 نمبری ہے۔ ٹریبونلز پیسے کی چمک اور دیگر مفادات کے لئے غلط فیصلےکررہے ہیں، 7 دن کا کیس 7 دن میں نہیں 120 ون تک کیا 365 دن گزرنے پر بھی حل نہ کیا۔ الیکشن ٹریبونل نے سمجھوتے کر رکھے ہیں، نادرا کا الیکشن کمیشن سے گہرا تعلق ہے۔ طارق ملک کی وجہ سے ہمارےپاس مصدقہ الیکٹرول رول بننے والا تھا‘‘۔
یہ ہے دوسرا منظر!
اب تیسرا منظر!
جیسا کہ عرض کیا گیا ’’افضل خان انکشافات کے نتیجے میں نوازشریف اور ان کی حکومت کے لئے پیدا شدہ اخلاقی بحران ان کے اقتدار کے لئے جان لیوا حیثیت اختیار کر چکا ہے‘‘۔ افضل خان عین اسی وقت کیوں پردہ سکرین پر آئے یا لائے گئے، یہ وقوعہ اب Matter نہیں کرتا۔ سکرپٹ تھا یا نہیں؟ اس سے قطع نظر، دن کے اختتام پر نوازشریف کا ایوان حکمرانی تھرڈ ڈگری کے سنگین ترین ’’سیاسی ہارٹ اٹیک‘‘ کے باعث اپنی بنیادوں سے اکھاڑا جا چکا ہے، اب اس ایوان کی دیواریں لرز رہی اور چھت گرنے کے سرخ سگنل پر کھڑی ہے۔ قریب قریب 30 برس سے پاکستان خصوصاً پنجاب کے سیاہ و سفید پر چھایا ہوا حکمران خاندان حالات یا مکافات عمل کے کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا۔ قدرت کے قوانین ہر وقت اپنی عمل پذیری کی دولت سے لدے پھندے رہتے ہیں۔ جن مظلوم ہستیوں یا خاندان کے خلاف، یونان کے غاروں سے بھی زیادہ اندھیری اور گہری سازشیں تیار کی گئیں، مظلوموںنے سب کچھ، اپنے نوخیز بچوں کی انگلیاں پکڑ کر، جیل کے دروازوں پر سرعام انتظار کی سولی پر لٹک کر برداشت کو زاد راہ بنایا، شاید قدرت کے قوانین انہیں کوئی ’’حصہ‘‘ دینے کی تیار کررہے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون کا آسیب ان سب تاریک سایوں پر حاوی ہے، کچھ بھی نہ ہو کچھ بھی نہ کیا جاسکے، یہ آسیب حکمران خاندان کو آزمائش کی ناقابل عبور سرحدوں کا سامنا کرنے پر مجبور کررہا ہے۔
چوتھا منظر!
یہ کہ جو افضل خان خود کہے ’’دھاندلی میں ملوث افراد کو آرٹیکل 6 لگا کرپھانسی دی جائے، میں بھی کسی حد تک مجرم ہوں‘‘ اس کے الزامات کو محض جسٹس (ر) ریاض کیانی کی جوابی کانفرنس موت کی نیند نہیں سلا سکتی!
چوتھے منظر کی ایک اور جہت، 1977ء کی تحریک کے تذکرے کی گنجائش نکال کر ابھاری یا Establish کی جارہی ہے۔ یہ سو فی صد نہیں ہزار فی صد غلط ہے۔ 1977ء کی پی این اے تحریک ’’مقدس فرشتوں‘‘ کے انسانیت کش خوابوں کی تعبیر تھی جس کی تکمیل میں عالم اسلام کو فیصلہ کن ضرب لگانا مقصود تھا۔ یہ المناک داستان طولانی ہے، پاکستانیوں کو مذہبی ’’ایکسپلاٹیشن‘‘ کے استعمال سے وطن کی ہر گلی میں احتجاجی جتھوں میں تبدیل کردیا گیا تھا، یہ پورے عالم اسلام کو خود مسلمانوں کے ہاتھوں ذبح کرانے کا منصوبہ تھا، لہٰذا اتنے تاریخی تناظر کو ایک مقامی قومی زیادتیوں کے منظر میں ’’فٹ‘‘ کرنے کی گنہگارانہ جسارت دراصل ان ’’مقدس درندوں ‘‘کے احساس جرم کی تسکین کا ایک حربہ ہے؟ کیا دکھائی نہیں دیتا کہ جس طرح پاکستان کے مسلمانوں کو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف گلی گلی ’’اسلام کی حفاظت‘‘ کے نام پر باہر نکال لیا گیا تھا، اس کا کوئی وجود نوازشریف کے معاملے میں موجود نہیں نہ ہوسکتا ہے، بعض لوگوں کے بقول یہ محض شریف خاندان کی پاکستان عوام سے ایسی اجتماعی زیادتیوں کا ردعمل ہے جن کے ثبوت انہوں نے ہمیشہ اپنے پاس رکھے، کوئی ان تک نہ پہنچ سکا، ان کے عہد حکمرانی کے دورائنوں کے محض ’’پروٹوکول‘‘ کی نوعیت اور مقدار ہی پاکستانی عوام کو کیڑے مکوڑوں سے بھی کم ترین درج پر سمجھنے اور ثابت کرنے کا برہنہ اعلان ہوتا ہے، برائے مہربانی 1977ء کی پی این اے تحریک جسے تاریخ امت مسلمہ کا جنازہ نکالنے کے مترادف قرار دینے جارہی ہے، انشاء اللہ! اسے نواز شریف سیاسی بحران کےترازو میں تولنا تاریخ کا جنازہ نکالنے کے برابر ہوگا؟
آخری منظر!
لگتا ہے ، اگر کوئی اسکرپٹ ہے تو اسکرپٹ رائٹر سے غلطی ہو چکی، (یاد رہے سانحہ ماڈل ٹائون اس سے باہر سے، وہ اسکرپٹ کی مدد کا محتاج نہیں، قانون کی کڑوی گولی ذمہ داروں کو نگلنا ہوگی) اسکرپٹ رائٹر لکھتے وقت 1990ء کی دہائی میں بس رہا تھا، آج 2014ء ہے اور اس پاکستان میں آصف علی زرداری جیسا وژنری اور پاکستان پیپلز پارٹی جیسی قومی سیاسی جماعت کی دانش اپنے مقام سے رتی بھر پیچھے نہیں ہٹی، کیا کسی کو یاد نہیں کہ اس پیپلز پارٹی کے رہنمانے حکومت کی پانچ برس آئینی مدت پوری کرنے کا نوالہ، جمہوریت دشمنوں سے چھین کر دکھا دیا، بس خیر کی دعا ہی کی جاسکتی ہے! دونوں لیڈر اسٹیک پر ہیں اور شاید اسکرپٹ رائٹر بھی (اگر کوئی ہے تو؟)
تازہ ترین