• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بڑھتی ہوئی خفیہ کرائے کی جنگوں (Proxy Wars) کے خون آشام ماحول میں، بھارت اور پاکستان کے سیکرٹری خارجہ ملنے پر مائل نظر ابھی رہے ہیں تو فقط ایک دوسرے کو شرمندہ کرنے کو۔ ایسے میں بات سے بات نکلے گی تو جانے کہاں پہنچے؟ کفر ٹوٹنے میں کیا برائی ہے! سلامتی کی بگڑتی صورتِ حال اور 70 فیصد نامکمل نیشنل ایکشن پلان (NAP) کی گتھیاں سلجھانے کو بیٹھے ہمارے مقدر کے نگہبان۔ پتہ چلا کہ 20 میں سے فقط 8 نکات پر کچھ عمل ہو سکا۔ پھر بھلا ہمارے خالی خولی گھن گرج والے وزیرِ داخلہ جناب چوہدری نثار کے پاس سے نکلی بھی تو خالی آئیں بائیں شائیں۔ اور بیچ سے نکلی ایک بھاری بھر کم نیشنل سیکورٹی کونسل کہ موثر عملدرآمد کے لئے چاہئے بھی تھا ایک جبری اور زیرک جرنیل ناصر جنجوعہ۔ نیکٹا جسے دہشت گردی کے قلع قمع کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنا تھا، وہ بِنا تولید کوچ کر گیا۔ پھر سے صف بندی کی گئی ہے جس پر سب متفق ہیں اور معاملہ وزیراعظم کے دفتر سے اُن کے نیشنل سیکورٹی کے مشیر چلائیں گے۔ لیکن، اب جب دہشت گردی کا ناسور سہ طرفہ جاری کرائے کے قاتلوں کی پراکسی جنگوں سے جُڑ گیا ہے تو سلامتی کے تقاضے اور بھی گمبھیر ہو گئے ہیں۔ دہشت گردی کی شام سے افغانستان اور بھارت میں جاری خوفناک پراکسی جنگیں، دہشت کے عفریت کو اتنا بڑھاوا دینے جا رہی ہیں کہ اس پر قابو پانے کے لئے تمام ہمسایوں کو پراکسی جنگوں سے تائب ہو کر دہشت گردی کے بھوت کو مل کر خطے سے رفع کرنا ہوگا۔ اکیلا چنا (پاکستان یا افغانستان یا بھارت) یہ بھاڑ نہیں پھونک سکتا۔ خطے کے ممالک کی ایک دوسرے کے بارے میں جاری مخاصمت کے ہوتے ہوئے اور اُن کی ایک دوسرے کے بارے میں سلامتی کی تباہ کُن پالیسیوں کو بدلے بنا دہشت کے عفریت سے جان چھوٹنے والی نہیں۔ ایسے میں سوال اُٹھتا ہے کہ اگر ہماری سلامتی کی موجودہ علاقائی پالیسی میں تبدیلی نہ آئی اور ہمارے پُرعزم اور بہادر سپہ سالار جناب راحیل شریف بھی رخصت ہو گئے تو کیا ہم اپنے آپ کو زیادہ محفوظ پائیں گے؟
نیشنل ایکشن پلان (NAP) کے تحت جو ادارے بننے تھے، نہ بن پائے۔ کالعدم تنظیمیں معطل تو کیا ہونی تھیں، پہلے سے بھی زیادہ ہر سو چھائی ہیں۔ مدارس کی اصلاح ہو سکی نہ نصابِ تعلیم کی کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سریع الحرکت فورس کہیں نظر آئی نہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حکمت و کارکردگی میں بڑا فرق دکھائی دیا۔ انتہاپسند، فرقہ وارانہ اور انتہاپسندبیانیے کے توڑ کے لئے سوائے پرویز رشید اور مریم نواز کے کوئی مائی کا لعل سامنے نہ آیا کہ بیشتر کابینہ ہے ہی ایسے قدامت پرست معذرت خواہوں پر مشتمل کہ متبادل جمہوری بیانیہ آخر کون پیش کرتا؟ جبکہ وزیرِ داخلہ گفتار میں کسی کٹر نظریاتی شدت پسند سے لگتے ہیں۔ ایسے میں ہمارے منتخب وزیراعظم کی دبی دبی عملیت پسندی اور میانہ روی کیونکر اثر دکھا پاتی؟ خطے کے بارے میں اُن کے امن و ترقی کے وژن کو تو پہلے ہی اُلٹ دیا گیا تھا۔ اب جب عالمی و علاقائی تنہائی اور تناؤ بڑھ گیا ہے تو اُنھیں پوچھنا چاہئے تھا کہ حکمت کے جو پھوکے کارتوس چلائے جا رہے تھے، اُن سے کیا حاصل ہوا۔ لیکن کئی روزہ سلامتی کے اجلاسوں سے یہ بھنک کہیں سے بھی نہ ملی کہ خطے میں حربی انگشت زنی کو ختم کرنے کے لئے تمام علاقائی فریقوں کو کیسے راضی کیا جائے کہ وہ خطے کو خودکشی کی راہ پر ڈالنے سے باز آ جائیں۔
اگرچہ بُرے طالبان کو مار بھگانے میں آپریشن ضربِ عضب نے اثر انگیز کام کر دکھایا۔ لیکن ’’اچھے طالبان‘‘ اور افغان طالبان کی موجودگی اور اُن کی جہادی سرگرمیوں نے ہمارے تمام کیے دھرے اور بے انت قربانیوں پہ پانی پھیر دیا۔ ہمارے حربی سپہ سالار بارہا یہ اعلان کر چکے کہ کسی دہشت گرد کو بخشا جائے گا نہ پاکستان کے علاقے کو دوسرے ملکوں کے خلاف استعمال ہونے دیا جائے گا۔ جنرل راحیل شریف کی اس دعوت کہ ہر طرح کی پراکسی جنگ بند کی جائے کا بھی کابل اور دلّی سے مثبت جواب نہ ملا کہ بہت سے تیر پہلے ہی کمان سے نکل چکے تھے۔ اور دیرینہ حریفوں کو موقع ہاتھ آیا کہ مشرق و مغرب اور شمال و جنوب سے ہم پر تخریب کارانہ دباؤ بڑھائیں۔ افغانستان میں افغان طالبان کے تابڑ توڑ حملے اور کشمیر میں مقامی تحریکِ آزادی نے دلّی اور کابل کو یکجا کر دیا اور را (RAW) اور افغان انٹیلی جنس ادارے (DNS) نے جو کھیل شروع کیا ہے، اُس آگ پر جوابی تیل ڈال کر آتش فشاں بنانے میں بھلا نہیں۔ اب اگر ہم مظلوم کشمیری بھائیوں کی جمہوری جدوجہد کی مدد کو کوئی کمک بھیجیں گے تو نہ صرف اُسے شدید نقصان پہنچے گا بلکہ بلوچستان میں بھی شعلے بھڑکانے والے بیرونی مدد کے طلبگار ہوں گے۔ اسی طرح اگر افغان مجاہدین کے ہاتھوں افغانستان محفوظ نہیں ہوگا اور اُن کی قیادت یہاں پناہ گزیں پائی گئی تو پاکستان کے بھگوڑے طالبان کو افغان سلامتی کے ادارے اور بھارتی را کے پاس اتنے پیسے اور تخریبی ذہن ہیں کہ اُنھیں پاکستان میں تباہ کُن انسان کشی کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ اس کے خوفناک نظارے ہم دیکھ ہی رہے ہیں۔ پھر کیوں نہ افغان طالبان سے صاف صاف کہا جائے کہ اگر یہاں رہنا ہے تو جنگ بندی اور بات چیت کرو، ورنہ یہاں سے رفوچکر ہو جاؤ۔ اسی طرح کشمیر جہاد میں متحرک لوگوں کو کہا جائے کہ بس اب اللہ اللہ کریں کہ کشمیریوں کو اُن کی ضرورت نہیں۔
کراچی میں امن کافی آ ہی گیا ہے اور اب ضرورت سیاسی حل کی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے تخریبی پہلو کی بیخ کنی کے بعد اسے جمہوری دھارے میں لانا چاہئے۔ ورنہ بیرونی تخریب کاری کے لئے زمین ابھی بھی اتنی زرخیز ہے کہ لوگ ممبئی کی دہشت گردی کو بھول جائیں۔ نئے وزیراعلیٰ سے یہی توقع ہے کہ وہ وزیراعظم کی اشیرباد سے ایک پُرامن ایم کیو ایم کی واپسی کا کوئی قابلِ اطمینان راستہ نکالیں۔ کراچی سے کہیں بڑھ کر بلوچستان میں جاری شورش ہے جو کمزور تو پڑی ہے ختم نہیں ہوئی۔ اب جو اسے وزیراعظم مودی کی جانب سے کمک ملی تو حالات اور بگڑ سکتے ہیں۔ اس کا توڑ صرف اور صرف سیاسی و جمہوری ہے اور بلوچ نوجوانوں اور علیحدگی پسندوں کو وفاق کی جانب سے ایسی منصفانہ شراکت داری اور قابلِ اعتماد ترغیبات دینی چاہئیں کہ بلوچوں کی بیگانگی ختم ہو اور وہ اپنی ہی دھرتی پہ زندہ درگور نہ کیے جائیں یا بغاوت پہ مصر رہیں۔ بلوچستان کے تمام سیاستدانوں اور بااثر حلقوں کو اکٹھا کر کے امن و آشتی کا اہتمام کیا جائے۔ نہ بلوچ ملی ٹینٹ بلوچستان کو کہیں اُٹھا کر لے جا سکتے ہیں اور نہ اُنھیں فقط بندوق کی نوک پر جھکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ ناصر جنجوعہ سے بہتر کون یہ سمجھ سکتا ہے۔
پہلے ہی اتنے عذاب ہیں کہ نئے فتنوں کو جنم دیا جائے۔ وزیراعظم خطے میں امن کے لئے پیش قدمی کریں اور منتخب ادارے اور سلامتی کے امین مل کر ایک نیا سلامتی، صلح اور مسائل کے پُرامن حل کا نظریہ سامنے لائیں کیونکہ اب دہشت گردی کے خلاف جنگ ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن و آشتی سے ہی کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔ بشرطیکہ جمہوری نظام چلتا رہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے مایہ ناز جنرل راحیل شریف اپنے کام کو ادھورا چھوڑ کر گھر جانے کی بجائے میدانِ کارزار میں سینہ سپر رہیں۔ (میں پہلی بار کسی جرنیل کی ایک اور ٹرم کی بے اُصول بات لیکن میرٹ کے پیشِ نظر اس لئے کر رہا ہوں کہ راحیل شریف نے آئینی ڈھانچے کو اُلٹنے نہ دیا اور پہلی بار کوئی جرنیل دہائیوں سے پالے دہشت گردوں کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا۔

.
تازہ ترین