• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سفر العشق میاں محمد بخش کا تحریر کردہ عالمی شاہکار ہے جو اپنے ہیرو سیف الملوک کے نام سے معروف ہوا۔ایک الف لیلوی داستان کا ڈھانچہ استعمال کر کے میاں محمد نے اسے ایک عاشق کی رومانی، سالک کی روحانی اور مرد مجاہد کی آزادی کی داستان بنادیا۔ انہوں نے لفظوں کو ان موتیوں کی طرح برتا ہے جو ظاہری خوبصورتی کے ساتھ معنوی حُسن سے مالامال ہیں۔ مجازاور حقیقت کا سفرساتھ ساتھ چلتا ہے۔ انسانی اور اخلاقی قدروں سے مالامال قصہ بہتر حیات کی نشاندہی کرتا ہے بحیثیت مجموعی اس داستان کا حاصل خیر کا حصول ہے اس لئے اس میں کوئی کھیڑا نہیں۔ منفی رویوں کے حامل کردار ظاہر ضرورہوتے ہیں مگر بہت جلد خیر کے سامنے یا تو مطیع ہو جاتے ہیں یا اُن کا قلع قمع کردیا جاتا ہے۔ سیف الملوک کی پسندیدگی کسی ایک حلقے تک محدود نہیں خاص اور عام سب اس کے شیدائی ہیں کیونکہ یہ ایک یوٹوپیا ہے جہاں خیر اور دانش کی حکمرانی ہے۔
پاکستان میں میاں محمد بخش کے فلسفے اور فکر کے حوالے سے بہت کم کام ہوا ہے جبکہ ان کی شاعری کے شعری محاسن پر خوب خراج تحسین پیش کیا گیا ہے لیکن صرف ظاہری خوبی اور حسن کا لشکارا مصنف کا مقصد نہ تھا کیونکہ وہ خود کہتے ہیں۔ ’’سفر العشق کتاب بنائی … چھپی وچ لاٹھی‘‘ یعنی یہ لاٹھی میں چھپی ہوئی تلوار کی طرح ہے سامنے کچھ اور ہے اور پس پردہ کوئی اور حقیقت، یہ حقیقت اتنی آسان اور سادہ نہیں کہ اس کی تہہ در تہہ جہتوں کا احاطہ کیا جاسکے اس کے لئے توجہ، عقیدت، دانش اور عنائیت کی ضرورت ہوتی ہے اگر قدرت ایسی آنکھ عطا کرے جو آرپار دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہو تو معنی کے درو دیوار کے پار جھانکا جاسکتا ہے۔ ظفر تنویر واقعی صاحب وجدان شخص ہے جو برسوں سے بریڈ فورڈ میں مقیم ہے مگر اپنی دھرتی کے عظیم صوفیا کی فِکر سے حیات میں روشنی کا خواہاں ہے اُس پر ظاہر اور باطن کی کہانی کھل چکی ہے اس لئے ظاہر کی چکا چوند سے متاثر ہونے کی بجائے باطن کے نور سے آگہی حاصل کرتا ہے5 ستمبر کو بریڈ فورڈ کے عظیم الشان سینٹ جارج ہال میں جس سیف الملوک فیسٹول کا اہتمام کیا گیا تھا وہ ایک ایسی تقریب تھی جو صبح سے رات گئے تک جاری رہی اور ہر لمحہ حاضرین کےدِل ودماغ پرچھائی رہی۔ اس کا ہر سیشن بھرپوراور خوبصورت تھا عشاقِ میاں محمد بخش کی محویت دیدنی تھی۔ وہ نسل جو وہیں پل کر جوان ہوئی بلکہ ان کے بچے بھی شریک تھے۔ سیف الملوک گائیکی میں ان بچوں کا سُر اور ادائیگی تو بے مثال تھی مگر ان لفظوں کی تاثیر کو جذب کرنے کی کیفیت کمال تھی۔
ظفر تنویر صاحب پچھلے کئی ماہ سے اس پر کام کررہے تھے اس لئے انھوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ اسے ایسی روایتی کانفرنس بالکل نہ بنایا جائے۔ ایک بڑے اسٹیج پر صرف ڈائس رکھا گیا تھا ہر مقرر کو ایک مقررہ وقت میں اپنی بات کرنا تھی اور پھر 10 منٹ سیف الملوک ترجمے کے ساتھ پڑھی جائے۔ مقررین میں راقم کے علاوہ سہیل وڑائچ، سہیل احمد عزیزی، ڈاکٹر جاوید اکرم، ڈاکٹر منظور اعجاز شامل تھے۔ سب نے الگ الگ اور منفرد طریقے سے سیف الملوک میں پوشیدہ اسرار سے پردہ اٹھایا۔ آخری سیشن میں ایسے گلوکار تھے جن کے دِل میں واقعتاً رب کا قیام ہے اور جن پر اُس کی خاص نظرکرم ہے۔ حلیمی، محبت اور عشق الٰہی سے سر شاراُن کی شخصیات کا سُر وحدانیت کے رنگ میں ڈھلا ہوا تھا۔ صنم ماروی، رفاقت علی خان اور ہنس راج ہنس نے سیف الملوک، بابا بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید اور دیگر صوفیا کے روحانی کلام کو رُوح کی زبان سے ادا کیا۔ سچا سُرروح کی آواز ہوا کرتا ہے طبلہ نواز نے طبلے کی بجائے خواب غفلت میں مدہوش دلوں کے مردہ احساسات پر دستک دی۔ ڈھولکی نے انسانی دماغ کو خبر دار کیا کہ دل سے الگ ہو کر وجود کی کوئی اہمیت نہیں۔ سُر کی جکڑ نے پوری محفل کو اس طرح باندھ رکھا تھا کہ کوئی اِس کے سحر سے نکلنے کو تیار نہ تھا کیونکہ روح کا روح سے مکالمہ جاری تھا مگر خاکی بدن کی حدیں اور خواہشیں بھی نظام کا حصہ ہیں سو پروگرام کے اختتام پر سر شاری کی کیفیت سے بھرے ہوئے جو لوگ باہر نکلے اُن میں پاکستان کے علاوہ ہندوستان کے سامعین و ناظرین بھی شامل تھے۔ ہندوستانی صنم ماروی، رفاقت علی خان سے اپنائیت اور عقیدت کا اظہار کررہے تھے جبکہ پاکستانی ہنس راج ہنس کی ذات کی کشش سے مرعوب تھے دونوں اِس کشش اور محبت کو مختلف نام دے رہے تھے۔ صوفی سوچ میں ڈھلی صنم ماروی نے کہا ہر طرف ایک سُر غالب ہے اس لئے ہمیں سُر کی زبان میں بات کرتے اپنے محسوس ہوتے ہیں خدا کرے دونوں ممالک کی حکومتیں بھی نفرت اور جنگوں سے آگے بڑھ کر انسانیت اور بھائی چارے کی فضا کے لئے کوشاں ہوں۔ بہر حال اس اپنی طرز کی واحد کانفرنس کا سہرا ظفر تنویر کے سر ہے۔ میاں محمد بخش سے ان کی محبت نے انھیں لوگوں میں محبوبیت عطا کی ہے لوگ اُن کا احترام کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ بغیرغرض کے اُن کی مدد کرتے نظرآئے۔ بڑے بڑے فنکاروں، موسیقاروں اور دانشوروں نے اپنے فن اور فکر کا معاوضہ طے کرنے کی بجائے اِس محفل میں حاضری کو اہمیت دی کہ ایسی محفلوں میں حاضری نصیب سے ملتی ہے۔ اگلے روز خلیل احمد باجوہ قونصل جنرل پاکستان نے تمام مہمانوں کو ظہرانے پر مدعو کیا۔ خلیل باجوہ صاحب بذاتِ خود نفیس انسان ہیں اور صوفیاو اولیاء سے محبت اُن کے رویے میں نظرآئی۔ یہ ظہرانہ بھی گفتگو کی بجائے سُر میں ڈھل گیا۔ صنم ماروی اور ہنس راج ہنس نے خوبصورت عارفانہ کلام پیش کیا تو سہیل وڑائچ صاحب کی فرمائش پر ایک چھوٹا سا مشاعرہ بھی ہوا جس کے صدر اور کمپیئر خود سہیل وڑائچ تھے کیونکہ شاعروں میں صرف راقم اور منصور آفاق وہاں موجود تھے یہ مشاعرہ بھی خوب رہا۔ مجھے یقین ہے اگلے برس تک اس کانفرنس کی بازگشت بریڈ فورڈ کی فضاؤں میں سُنائی دیتی رہے گی۔ ظفر تنویر صاحب اپنی کاوشوں میں کامیاب ہوئے۔ نئی اور پرانی نسل کو صوفیاء کے کلام کی محفل میں لا کر اُن کے ذہنوں اور دلوں پر غیر محسوس دستک دے چکے۔ بغیر کسی موازنے کے، خیر کا پیغام دِلوں کے نشریاتی رابطے سے ہواؤں میں پھیل چکا۔ اتنے طاقتور پیغام کی شعاعیں رد کرنا نا ممکن ہے اس لئے دلوں میں نُور جگہ لے گا تو نگاہیں بھی خیر کا تعاقب کریں گی خیر کا یہ قافلہ بڑھتا رہے گا۔ ظفر تنویر کی سر پرستی میں صوفیا کا کلام انسانیت کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کی کاوش میں ممد و معاون ثابت ہوگا۔ صوفی خیر اور محبت کے علمبردار تھے ان کے رستے پر چلنے والے منفی اذہان کی رکاوٹوں کی پروا نہیں کرتے کیونکہ خیر کی طاقت اُن کی ڈھال بن جاتی ہے۔ جس طرح سیف الملوک نے بدیع الجمال کی محبت میں ہر مشکل کو عبور کیا اسی طرح ہر فرد، ہر سالک اور آزادی کا متوالہ اپنی زندگی کا مقصد حاصل کر سکتا ہے۔ میاں محمد بخش نے عمل کو فوقیت دی ہے کہ عمل ہی زندگی سنوارتا ہے۔ اگر کوشش اور عمل کا ساتھ ہو تو دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں انسان اپنی حکمت عملی سے اپنی صائب خواہشات کا حصول ممکن بنا سکتا ہے۔ سیف الملوک کا حاصل یہ دو مصرے ہیں جو اِس مثنوی کا اختتام بھی ہے۔
اسے ہکسے مصرعے اندر غرض قصّے دی ساری
جو ڈھونڈے سے سو پاوے بھائی مفت نہیں پرپاری
اس وقت پاکستانی قوم عجیب طرح کے منجدھار میں غوطہ زن ہے زمانے کی چیرہ دستیوں اور اپنوں کی ناعاقبت اندیشوں نے اس کا مورال تباہ کردیا ہے۔ پتھر کو لعل بنانے والا جذبہ مٹی ہوا جاتا ہے اِس قوم کو فکرو عمل کی آکسیجن کی ضرورت کے ساتھ ساتھ اس رہنمائی کی بھی ضرورت ہے کہ صرف دین کی ظاہری صورت نجات کا باعث نہیں ہوسکتی بلکہ خدا نیت کی صفائی کو اہمیت دیتا ہے دین کے باطن میں عدل، سچائی، نیکی اور رحم کے جوخزانے پوشیدہ ہیں ان سے اِستفادہ کر کے پستی سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں نے یہی کیا ہے اُن کا ظاہر کچھ بھی ہو اُن کا باطن صاف ہے۔ اس لئے باطنی طہارت کی طرف توجہ دینا ہوگی جس کا پرچار صوفیا کے کلام کی جان ہے بقول میاں محمد بخش
جے لکھ زہد عبادت کرئیے بن عشقوں کس کاری
جاں جاں عشق نہ ساڑے تینوں تاں تاں نبھے نہ یاری
تازہ ترین