• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مایوسی ایک ا یساگناہ ہے جس میں کوئی لذت نہیں۔ مایوسی صرف تکلیف اور تباہی لاتی ہے لیکن انسان کی زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسا موقع آجاتا ہے جب کہیں نہ کہیں سے مایوسی اس پر حملہ آور ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات چھوٹی چھوٹی ناکامیاں بہت بڑے بڑے انسانوں کی تباہی کا باعث بن جاتی ہیں کیونکہ ان کے دشمن بھی بڑے ہوتے ہیں اور وہ کسی مایوس انسان پر مزید مایوسیاں مسلط کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیے آپ کو ایسے بہت سے لوگ نظر آئیں گے جو اپنی غلطی سے مایوسی کی دلدل میں نہیں گرے بلکہ ان کے اردگرد موجود دوست نما دشمنوں نے انہیں مایوسی کی دلدل میں دھکا دیا۔ 22اگست 2016 کو کراچی میں جو ہوا اس نے کچھ دیر کے لئے میڈیا انڈسٹری کے بہت سے لوگوں کو مایوس کردیا۔ لندن میں بیٹھے ایک صاحب نے کراچی میں اپنی سیاسی جماعت کے کارکنوں سے قابل اعتراض نعرے لگوائے اور پھر انہیں تشدد پر اکسا کر کچھ ٹی وی چینلز کے دفاتر پر حملہ کرادیا۔
جب اے آر وائی کے کراچی دفتر پر حملہ ہوا تو تقریباً تمام ٹی وی چینلز اس حملے کی خبر نشر کررہے تھے۔ کراچی پریس کلب کے آس پاس بھی صحافیوں پر حملے شروع ہوچکے تھے لیکن قانون کے رکھوالے صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام تھے۔ کراچی سے ایک صحافی دوست نے مجھے فون کیا۔ اس کی سانس پھولی ہوئی تھی اور وہ مجھے میڈیا کے خلاف لگنے والے نعرے سنوارہا تھا۔ اس نے کہا کہ یاد کرو جب 2007میں جیو ٹی وی کے اسلام آباد دفتر پر پنجاب پولیس نے حملہ کیا اور توڑ پھوڑ کی تھی اس وقت تم اپنی ٹی وی ا سکرین پر تشدد کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور مدد مانگ رہے تھے آج ہم مدد مانگ رہے ہیں اگر ہماری مدد نہ کی گئی تو ہمیں ہمارے دفاتر میں جلادیا جائے گا۔میں نے اپنے دوست کو تسلی دی اور فوری طور پر سندھ کے ایک صوبائی وزیر کو فون کیا اور پوچھا کہ پولیس اور رینجرز کہاں ہیں؟ موصوف نے بتایا کہ کراچی پریس کلب کے آس پاس ٹریفک بلاک ہے اور ایک سڑک پر پولیس نے ایک سیاسی جماعت کے مشتعل کارکنوں کو روک رکھا ہے جو ٹی وی چینلز پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ کچھ دیر میں صورتحال پر قابو پالیا جائیگا۔ مجھے یاد آیا کہ2007میں وکلاء کی تحریک کے دوران جب پولیس جیو ٹی وی کے اسلام آباد دفتر پر حملہ آور ہوئی تو میں نے بھی اس وقت کے وزیر اطلاعات محمد علی درانی کو فون کرکے مدد طلب کی تھی۔ وہ کچھ ہی دیر میں ہمارے دفتر پہنچ بھی گئے لیکن پولیس کو توڑ پھوڑ کرنے سے نہ روک سکے۔
اسی شام صدر پرویز مشرف نے جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے مجھ سے معذرت کرلی لیکن معذرت کی آڑ میں میڈیا پر پابندیاں لگانے کا ایک منصوبہ تیار کیا اور کچھ عرصے کے بعد تمام پرائیویٹ ٹی وی چینلز پر پابندی لگادی۔ مجھ سمیت کچھ دیگر ٹی وی اینکرز کے لئے پابندیوں کا یہ دور چار ماہ طویل تھا۔ ان چار ماہ کے دوران مجھے یہ کہا جاتا تھا کہ اگر آپ پی ٹی وی میں آجائیں تو پابندی ختم ہوجائے گی۔ ایک حکومتی نمائندے نے تو یہ بھی کہا کہ بہتر ہے صحافت کو خیر باد کہہ کر کوئی دوسرا کام شروع کردو لیکن میں نے اپنا ٹی وی شو سڑکوں پر شروع کردیا۔ کیپٹل ٹاک کوا سٹریٹ تھیٹر میں تبدیل کردیا گیا جس میں عمران خان اور جاوید ہاشمی اسٹیج پر بیٹھ کر میرے سوالوں کا جواب دیتے اور سامنے کھڑے مجمع میں سے مرحوم جنرل حمید گل اپنا مکا لہرا کر پرویز مشرف کے خلاف نعرے لگواتے اور نعرے کا جواب دینےوالوں میں طاہرہ عبداللہ، ماروی سرمد، غزالہ من اللہ سمیت سینکڑوں مرد و خواتین شامل ہوتے۔ چار ماہ گزر گئے، نئے انتخابات ہوئے، نیا وزیر اعظم آگیا اور پرویز مشرف صدر ہوتے ہوئے بھی ہم پر پابندی برقرار نہ رکھ سکے۔ اس دوران معزول ججوں کی بحالی کی تحریک جاری رہی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ججوں کی بحالی میں دلچسپی نہ رکھتی تھی کیونکہ مشرف راضی نہ تھے لہٰذا وکلاء نے ایک لانگ مارچ کا اعلان کیا اور اس لانگ مارچ سے پہلے جیو ٹی وی کی بیرون ملک سے نشریات کو بند کرادیا گیا۔ ایک دفعہ پھر ہم سڑکوں پر تھے۔ مجھے یاد ہے ایک دن احمد فراز صاحب نے جناح ایونیو پر ایک مظاہرے کے دوران کہا.....’’گھبرانا نہیں، میں بیمار ضرور ہوں لیکن مشرف کو ایوان صدر سے نکال کر مروں گا۔‘‘ مشرف کی ایوان صدر سے رخصتی کے کچھ دنوں بعد احمد فراز اس دنیا سے چلے گئے۔
2014بہت مشکل سال تھا۔ کراچی میں ایک قاتلانہ حملے کے بعد میں اسپتال میں پڑا تھا اور جیو ٹی وی کو غداری کے الزامات کا سامنا تھا۔ مجھے کہا جاتا تھا کہ پاکستان میں آپ کا کوئی مستقبل نہیں آپ فلاں فلاں ملک چلے جائیں۔ میں نے پاکستان چھوڑنے سے انکار کردیا۔ ایک دفعہ پھر چارماہ تک ٹی وی اسکرین سے غائب رہا۔ اگست2014میں بہت سے ساتھیوں نے جیو ٹی وی چھوڑنا شروع کردیا تو میں اپنا علاج مکمل کرائے بغیر ہی اپنے دفتر آبیٹھا۔ ابھی چند روز ہوئے تھے کہ عمران خان اور طاہر القادری نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ شروع کردیا اور پھر اسلام آباد میں ایک مشہور زمانہ دھرنا شروع ہوا جو122دن جاری رہا اور اس دھرنے کے دوران جیو ٹی وی کے اسلام آباد دفتر پر روزانہ حملہ ہوتا تھا۔ کئی مرتبہ لائیو پروگرام کے دوران پوری دنیا نے مجھے پتھروں سے بچتے دیکھا۔ ایک شام درجنوں افراد نے ہمارے دفتر میں گھس کر سیکورٹی گارڈوں سے اسلحہ چھین لیا اور توڑ پھوڑ شروع کردی جب ہم نے جیو نیوز پر چیخ و پکار شروع کی تو کسی دوسرے چینل نے ہماری آواز میں آواز نہیں ملائی۔ کوئی اعلیٰ پولیس افسر ہمارا فون نہیں سنتا تھا، جس کسی سے ہم مدد مانگتے وہ اپنی مجبوریاں بیان کرنے لگتا۔انتہا تو یہ تھی کہ پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملہ ہوگیا اور سیکورٹی فورسز کچھ نہ کرسکیں۔ ہمارے دفتر کی عمارت لبنان یا شام کی تباہ شدہ عمارتوں کا منظر بن گئی۔ ہمارے دفتر تک پہنچنا زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھا اور اس کی گواہی عامر متین دیں گے جو ان دنوں متعدد بار ان خطرات سے کھیلتے ہوئے میرے پاس دفتر آئے۔ ماضی کے ان واقعات کو بیان کرنے کے بعد یہ عرض کرنے کی جسارت کروں گا کہ کراچی میں22اگست کو ٹی وی چینلز کے دفاتر پر پہلی دفعہ حملہ نہیں ہوا، ایسے حملے پہلے بھی ہوئے لیکن ایک بڑا فرق ہے۔
ماضی میں جب ٹی وی چینلز یا میڈیا ورکرز پر حملے ہوتے تھے تو کارکن ایک دوسرے کا ساتھ دیتے تھے لیکن انتظامیہ ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیتی تھی۔ اس رویے میں آہستہ آہستہ تبدیلی آئی۔ میڈیا ورکرز پر حملوں کے بعد ٹی وی چینلز نے ایک دوسرے کا نام لینا شروع کیا اور جب22اگست کو اے آر وائی اور سماء پر حملہ ہوا تو جیو نیوز سمیت تمام دوسرے چینلز پر حملے کے مناظر دکھاکر ان متاثرہ چینلز کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جارہا تھا۔ یہ میڈیا کا اتحاد تھا جس نے حکومت کو متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف بڑی کارروائی پر مجبور کیا، الطاف حسین معافی پر مجبور ہوئے اور ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے بہت سے ساتھیوں سمیت الطاف حسین سے اعلان لاتعلقی کیا۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ الطاف حسین ذہنی تنائو کا شکار تھے اس لئے انہوں نے ا شتعال انگیزی کی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ذہنی تنائو کا شکار ہو کر کوئی اپنی ماں کو گالی دیتا ہے؟ کیا کوئی ا سکرین سے غائب ہوجائے یا اس کی تصویر اخبار میں نہ آئے تو وہ اپنے بچوں کو توڑ پھوڑ کی ترغیب دیتا ہے؟ جو ذہنی تنائو میں اپنی زبان اور اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور بار بار اپنی ماں کو گالی دے اور پھر بڑی عاجزی کے ساتھ معافی کا خواستگار بن جائے اسے مریض نہیں اداکار کہا جاتا ہے لیکن اس رویے کی سزا پوری ایم کیو ایم کو ملنی چاہئے؟ چند لوگوں کی غلطیوں کی سزا پوری جماعت کو نہیں ملنی چاہئے۔ اس صورتحال میں جو مایوس ہیں انہیں سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ مایوسی کا پھیلنا شیطان کی کامیابی ہے لہٰذا مایوسی پھیلانے والوں کو روکئے ،مایوس لوگوں کو گلے سے لگائیے اور انہیں صرف اتنا یاد دلائیں کہ مایوسی گناہ ہے، اللہ پر بھروسہ کریں ہمارے حالات ضرور بہتر ہوجائیں گے۔


.
تازہ ترین