فرمایا’’دارالحکومت سے سینکڑوں کوس دور دریائے دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھی پیاس سے مرگیا تو عمرؓ سے باز پرس ہوگی‘‘کسی نے تعجب سے سوال نہ کیا کہ ایک کتے کے پیاسا مرنے پر امیرالمومنین عمرؓ جوابدہ کیوں؟ چودہ سو سال پہلے کی بدوی سوسائٹی میں اسلامی تعلیمات نے یہ شعور جو بیدار کردیا تھا کہ حکمران ریاست میں ہونے والے ہر برے بھلے کا ذمہ دار ہوتا ہے اوپر سے نیچے تک، نزدیک سے دور تک۔
ایک بڑھیا نے جب اپنی گھریلو مشکلات کا ذمہ دار امیر المومنین کو ٹھہرایا تو عمرؓ بن الخطاب نےپوچھ لیا’’اماں ! اس بے چارے کو بھلا تمہارا حال کہاں معلوم کہ اسے ذمہ دار ٹھہرارہی ہو‘‘ ’’پھر اسے اتنی بڑی ریاست کی ذمہ داریاں اٹھانے کا مشورہ کس نے دیا اسے میرا حال معلوم نہیں تو وہ میرا حکمران کیوں بنا؟‘‘ عمرؓ کی آنکھیں بھر آئیں اور معافی کے خواستگار ہوئے حالانکہ اس کا حال معلوم کرنے خود پہنچے تھے ۔صرف حال معلوم کرنے نہیں داد رسی اور امداد کے لئے بھی۔
حالیہ سیلاب نے صوبہ پنجاب کو لپیٹ میں لیا تو 2010ءکے سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھنا، آئندہ کے لئے موثر تدارک اور عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا جن کی ذمہ داری تھی وہ اسے اچانک اور غیر متوقع قرار دے کر اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھنے لگے۔ 2010ء کے سیلاب کے بعد جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں فلڈ کمیشن نے جو تجاویز دی تھیں ان پر عمل نہ کرنے کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ رپورٹ میں تکنیکی خرابیاں تھیں حالانکہ یہ رپورٹ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ اگر کمیشن کی رپورٹ پر من و عن عملدرآمد کیا جاتا تو سیلاب ضرور آتے، وسیع علاقے بھی غرق آب ہوتے، ممکن ہے کچھ بستیاں بھی صفحہ ہستی سے مٹ جاتیں مگر جانی نقصان کا اندیشہ باقی رہتا نہ کثیر تعداد میں مال مویشی مرتے اور نہ جگہ جگہ بے گھر، بےدر، بے آسرا خاندانوں کے بسیرے ہوتے۔ جہاں انہیں مچھر، سانپ اور بچھو کاٹتے ہیں اور بھکاریوں جیسا سلوک ہوتا ہے۔
گزشتہ روز مظفر گڑھ اور ملتان کے درمیان باراتیوں کی کشتی ڈوبی اور نیا نویلا دولہا جاں بحق ہوا تو ہر صاحب دل اور ہر صاحب اولاد نے دکھ درد کی ٹیس اپنے سینے میں محسوس کی۔ یوں ہنستے کھیلتے، خوشیاں مناتے سترہ انسانوں کا غرق آب ہونا معمولی واقعہ نہیں جنوبی کوریا میں کشتی کے حادثے پر وزیر اعظم چنگ ہانگ ون نے یہ کہہ کر استعفی دیدیا تھا کہ’’لوگوں کے دکھ درد، اپنے پیاروں سے بچھڑنے کے غم اور عوام کی طرف سے بھرپور مذمت نے مجھے ذمہ داری قبول کرنے اور استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا، نظام حکومت کی خرابی کے سبب یہ سانحہ رونما ہوا‘‘۔
ہمارے ہاں مگر قرن اول کے مسلمان حکمرانوں کی تقلید کا رواج ہے نہ عہد حاضر کے کسی سربراہ حکومت و ریاست کی قائم کردہ اچھی روایت اور متاثر کن طرز عمل کی پیروی کا حوصلہ۔ یہ سترہ افراد تو حادثے کی نذر ہوئے یہاں تو ماڈل ٹائون میں سو افراد دن دیہاڑے گولیوں سے چھلنی کردئیے جائیں تو قاتل کا سراغ ملتا ہے نہ ذمہ داروں کا تعین ممکن ہے کہ ہم وکھری ٹائپ جمہوریت کے علمبردار ہیں اور ہر حادثے، سانحےاور واقعے کا ذمہ دار اپنے مخالفین کو ٹھہرانے کےعادی۔ جیسے سیلاب کی تباہ کاریوں پر بھی بلیم گیم جاری ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری دھرنا چھوڑ کر سیلاب زدہ علاقوں میں کیوں نہیں جاتے۔
جنہیں گزشتہ چار سال کے دوران اچانک سیلابوں اور غیر متوقع بارشوں کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے پیشگی اقدامات کرنے تھے، جن کے پاس ریاستی وسائل کی بہتات اور مشینری تھی اور جو عشروں سے حکمرانی کے مزے لوٹتے چلے آرہے ہیں وہ کچھ نہیں کرسکے، وہ ذمہ دار بھی نہیں مگر دھرنا دینے والے سو فیصد قصور وار ہیں۔ گردن زدنی اور ناقابل معافی، یا للعجب کوئی زبان کھولے تو جمہوریت کا دشمن ٹھہرتا ہے اور ملک و منتخب حکومت کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کا مجرم۔
لیکن کیا اس صورتحال کے ذمہ دار صرف حکمران ہیں، موجودہ یا سابقہ ،سول یا فوجی؟ اگرچہ جو ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں الزام انہی پر آتا ہے اور کچھ کرکے دکھانا ان پر لازم ہے۔ مدینہ منورہ کے اس حکمران کی طرح جو دجلہ کے کنارے ایک جانور اور شام کے راستے میں ایک بڑھیا کی مشکل، مصیبت اور دکھ درد کا ذمہ دار اپنے آپ کو ٹھہراتا اور روز قیامت باز پرس کے احساس سے ہلکان ہوتا تھا یا جنوبی کوریا کے وزیر اعظم چنگ کی مانند جس نے کشتی کے حادثے پر بے چوں چرا استعفیٰ دیا، مگر رعایا بھی تو برابر کی شریک ہے ،قیمے والے نان یا پانچ سو کے نوٹ کے عوض اور اپنے کسی عزیز ملزم کی رہائی کے وعدے پر ملین ڈالر کا ووٹ آنکھیں بند کرکے عادی وعدہ خلافوں کو دان کرنے والی رعایا جسے چودہ سو سال پہلے جنم لینے والی بدوی بڑھیا کے برابر بھی شعور نہیں ،اپنی محنت مشقت ،خون پسینے کی کمائی پر پلنے والی مخلوق کے سامنے ہاتھ باندھ کر روٹی، پانی، بچوں کے دودھ کی بھیک مانگتی اور اپنا حق یوں وصول کرتی ہے جیسے خیرات، زکوۃ اور صدقہ و عطیہ۔ وسائل خوروں کے گریباں پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ اپنا حق مانگنے کا سلیقہ۔
پنجاب کے مختلف علاقوں میں قائم متاثرین سیلاب کے کیمپوں میں انسان بھیڑ بکریوں کی طرح پڑے ہیں۔ کل تک لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے والے آج خود ضرورت مند ہیں ہاتھ پھیلائے، آنکھیں جھکائے اور پندار کا صنم کدہ ویران کئے ہوئے۔ 1973ء کے سیلاب میں، میں نے خانپور ریلوےسٹیشن کے قریب ایک شخص کو بٹھا پایا تھا جو شہر کا متمول شخص تھا مگر اس روز دو دن سے بھوکا، امداد کا منتظر۔ ان دنوں بے بسی اور حسرت و یاس کے کئی پیکر جنوبی پنجاب کے سیلابی علاقوں میں موجود ہیں جو کیمرے کے سامنے اپنی سفید پوشی کا بھرم کھوناچاہتے ہیں نہ کسی اخبار نویس کے روبرو حال دل بیان کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ کچھ مل جائے تو شکر ادا کرتےہیں نہ ملے تو صبر کا دامن تھام کر چپ چاپ بیٹھ رہتے ہیں۔
دھاندلی زدہ انتخابات اور این آر او مارکہجمہوریت کی آبرو بچانے کے لئے پارلیمنٹ کا اجلاس دو ہفتے جاری رہا۔ میاں نواز شریف کو اپنی حمایت اور وفاداری کی یقین دہانی اور جمہوریت کے مخالف عناصر کے علاوہ سکرپٹ رائٹر کی گو شمالی کے لئے دھواں دھار تقریریں ہوئیں۔ ضرب عضب آپریشن اور سیلاب زدگان کے ریسکیو و امداد میں مصروف فوج پر بھی زبان طعن دراز ہوئی، مگر مجال ہے کہ کسی نے سیلاب کی تباہ کاریوں کے اسباب ،ذمہ داروں کے کردار اور نااہلی کے مرتکب عناصر کا ذکر کرنا مناسب سمجھا ہو اور ان سے باز پرس کا مطالبہ کیا ہو، سب جانتے ہیں بلکہ کسی نہ کسی طور شریک جرم ہیں اس لئے سب ہنس دئیے سب چپ رہے،منظور تھا پردہ تیرا۔
اتنی بڑی آفت ،اتنے زیادہ نقصان کے بعد بھی اگر ملک میں احتساب، انصاف اور سزا و جزا کا کوئی نظام متشکل نہیں ہوتا، ذمہ داروں کا گریبان پکڑنے کی روایت پروان نہیں چڑھتی اور قاتلوں کو مسیحا سمجھنے کی غلامانہ رسم برقرار رہتی ہے تو پھر کس چیز کا گلہ اور کس سے شکایت۔ جتنے بے حس عوام اس سے کہیں زیادہ بے نیاز حکمران۔ اچھے حکمران بھی انہیں نصیب ہوتے ہیں جو حجاز کی بڑھیا کی طرح اپنی ہر تکلیف کا ذمہ دار اپنے حاکم کو سمجھتے ہیں اور حق کو خیرات سمجھ کر قبول نہیں کرتے، گریبان پر ہاتھ ڈال کر حساب مانگتے ہیں؎
تمہارے سینے میں دل تو ہوگا، جو ہوسکے تو اسی سے پوچھو
کہ تم نے جو قوم سے کیا ہے، تمہی کہو ناروا نہیں ہے؟