• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس وقت ہمارے ملک میں بدترین سیلاب نے تباہی مچارکھی ہے۔ ہزاروں افراد سیلابی ریلے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سیکڑوں لوگ، مکان، پانی میں بہہ گئے ہیں۔ بے آسرا غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بچے، دودھ اور بیمار دوائی کو ترس رہے ہیں۔خواتین بے یارومددگار آسمان کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ کئی گائوں اور بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔ ان بستیوں کے باشندے لاپتہ ہیں۔ معلوم نہیں ہورہا وہ پانی میں بہہ گئے یا کسی محفوظ مقام پر ہیں ایک معاصر کے صفحہ اوّل کے پر چار کالم تصویر ہے جس میں ایک معمر خاتون اپنے پانچ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ ایک پل پر بیٹھی رورہی ہے۔ دوسری تصویر میں ہے ایک خاتون نے اپنے تین معصوم بچوں سمیت سیلابی ریلے سے بچنے کیلئے 4 دن درخت پررہی۔ چار دن موت و حیات کی کشمکش میں گزارے۔بھوکے بچے سسکتے بلکتے اور آہیں بھر تے رہے۔ایک اور تصویر میںایک خاندان سڑک پر بیٹھا انتظار کررہا ہے کہ کوئی ہمیں محفوظ مقام پر پہنچادے اورکھانے کا بندوبست کردے۔سیلاب میں 600 سے زائد شہید ہو جانے والوں کے لواحقین کے گھروں میںکہرام برپا ہے۔ ہر آنکھ اشکبار ہے۔ رقت آمیز مناظر ہیں۔ بوڑھے ماں باپ، اپنے اکلوتے بیٹے کے تابوت سے لپٹے ہوئے ہیں۔ ایک ماں اپنے بیٹے کا غم برداشت نہ کرسکی اور جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ ان مشکل ترین حالات میں جہاں آنسو ہی آنسو ہوں، غم ہی غم ہوں۔ کبھی انسانوں کے ہاتھوں انسان مارے جارہے ہوں، کبھی قدرت انہیں آزمائشوں میں مبتلا کررہی ہو۔ یوں معلوم ہوتا ہے ہمارے اعمال کی وجہ سے زمین و آسمان ہم سے خفا ہوچکے ہیں۔ ہماری قسمت میں غم، پریشانیاں اور آنسو لکھے جاچکے ہیں۔ ایسے میں شستہ نگاری اور ہنستی مسکراتی باتیں کرنا دل گردے کا کام ہے۔
قارئین! مانا کہ قدرتی آفات کرئہ ارض پر زندگی کا حصہ ہیں، یہ آتے رہتے ہیں۔ بسا اوقات تو ان کی آمد کا علم نہیں ہوتا تو انسان بے بس ہوجاتا ہے، لیکن بہت سی آفات اپنا معمول رکھتی ہیں۔ برسات کے موسم میں سیلابوں کا آنا پاکستان میں معمول ہے۔ دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں جنھوں نے بچاؤ کے لئے بند و بست کیا ہوا ہے۔ شمالی چین ہر سال خوفناک سیلابوں میں بہہ جاتا تھا۔ لاکھوں افراد اس سے شدید طور پر متاثر ہوتے تھے۔ ہزاروں موت کا شکار ہو جاتے، تباہی ہر گائوں قریے میں پنجے گاڑ دیتی تھی۔ لوگ قحط کاشکار ہو جاتے تھے۔ 1887ء میں 9 لاکھ، 1911ء میں ایک لاکھ، 1931ء میں 3 لاکھ 70ہزار اور 1938ء میں 5 لاکھ افراد سیلابوں کی نذر ہوگئے۔چینی حکومت نے 1950ء کی دہائی میں ایک سروے کیا۔ 15 بڑے دریائوں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم بنانے کا آغاز ہوا۔ 1970ء تک چین کے شمال میں 1282 بڑے چھوٹے ڈیم اور نہریں تعمیر کردئیے گئے۔ اب بارشوں کے بعد جب بھی سیلاب کی صورت حال پیدا ہوتی، ان ڈیموں کو لبالب بھر دیا جاتا۔ اس سے چین میں سیلاب نہ صرف کم ہوگئے، بلکہ نقصان میں بھی کئی سو گنا کمی آگئی۔وہ پانی جو کبھی عذاب بن کر آتا تھا، خوشحالی کا نقیب بن گیا۔ چینیوں نے اس کی مدد سے سستی بجلی بنائی اور نہروں کے ذریعے زمینوں کوشاداب بنادیا۔ملک کے ان حصوں میں جہاں بارشیں کم ہوتی تھیں، اس پانی سےفصلیں لہلہانے لگیں۔ چینی اناج میں مکمل خود کفیل ہو گئے۔ بیرون ملک برآمدات سے خوش نصیبیاں سمیٹنے لگے۔ زحمت کو سہولت بنا لینے میں چینی قیادت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ان لوگوں نے بہترین انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ بہترین پلان بنائے۔ سالوں ان پر عرق ریزی سے محنت کی۔ وہ چین جو کبھی سارے ایشیاء میں افیون کا سب سے بڑا خریدار تھا، آج کھربوں ڈالر کی برآمدات کرتا ہے۔ چین امریکہ جیسے مغرور ملک کو قرض دیتا ہے۔ یوں پاکستان کی آزادی سے دو سال بعد غلامی کی زنجیریں توڑنے والا چین آج دنیا میں اناج اگانے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
بنگلہ دیش کی مثال لے لیں۔ ایک ایسا ملک جو ہم سے الگ ہوا، جس کا قیام 1971ء میں ہوا۔ 15کروڑ آبادی ہے ۔ ہمارے مقابلے میںاسے کہیں زیادہ سیلابوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بنگلہ دیش میں ہر سال سیلاب آتا ہے جس سے بنگلہ دیش کو بےتحاشا جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، لیکن بنگلہ دیشی حکومت نے سیلاب سے نمٹنے کے لئے چند پالیسیاں بنائیں ۔ ان پالیسیوں سے یہ ملک بڑی حد تک سیلاب کے نقصان سے بچ جاتا ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے کا نظام بہتر کیا اوراس میں تیزی لائی۔بنگلہ دیش کا محکمہ موسمیات مہینہ بھر پہلے بارشوں اور سیلاب کی اطلاعات دیتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کون کون سے علاقوں میں بارش ہوگی؟ اس کی مقدار کتنی ہو گی؟ سیلاب کہاں سے شروع ہو گا؟ اس کی مقدار کیا ہو گی؟ یہ کن کن علاقوں سے کب کب گزرے گا؟ بنگلہ دیشی حکومت سیلاب کے خطرات لاحق ہوتے ہی سرکاری سطح پر اعلانات کرتی ہے اور عوام کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایات جاری کرتی ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام کو سیلاب سے پہلے پولی تھین کے بیگ فراہم کیے جاتے ہیں۔عوام اپنا قیمتی سامان اور کاغذات ان میں ڈالتے ہیں۔ تین چار تہہ لگا کر محفوظ جگہ پر دفن کردیتے ہیں۔ سیلاب آتا ہے، اتر جاتا ہے، لیکن ان کی قیمتی اشیاء محفوظ رہتی ہیں۔ اسی طرح بنگلہ دیشی حکومت نے موبائل کچن متعارف کرائے ہیں۔ یہ سیلاب کے دنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔عوام ان موبائل کچن کو اپنے ساتھ محفوظ مقامات پر لے جاتے ہیں اور وہاں بآسانی کھانا بناتے ہیں۔ حکومت عوام کو صاف پانی کی فراہمی کے لئے پانی صاف کرنے والی گولیاں فراہم کرتی ہے۔ عوام سیلابی پانی کو برتن میں ڈال کر اس میں گولیاں ڈال دیتے ہیں۔ اس کے بعد اسے پینے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یوں زندگی کی بنیادیذ ضروریات ملنے سے زندگی رواں رہتی ہے۔ اس طرح اموات کم ہوتی ہیں اور بنگلہ دیش بھاری نقصانات سے بچ جاتا ہے۔ ہم اس بنگلہ دیش سے بھی گئے گزرے ہیں۔ ہمارے ہاںسال دو سال بعد سیلاب امڈ آتا ہے۔ یہ کبھی زیادہ بارشوں کی صورت سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے اور کبھی بھارت جیسے پڑوسی کی مہربانی سے ہماری آدھی سے زیادہ قوم مہینوں پانی میں ڈوبی رہتی ہے۔
ایک اور ملک جاپان کو دیکھ لیں۔ جاپان کو زلزلوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ وہاں درمیانے درجے کے زلزلوں کا آنا ایک معمول ہے۔وہاں کی حکومتوں نے زلزلوں کی شدت کے بارے میں عوام کو بروقت رہنمائی دینے کا مؤثر انتظام کیا ہوا ہے کہ اگر کبھی واقعی شدید زلزلہ آجائے اور غیرمعمولی جھٹکے آئیں تو ان کو کیا کرنا چاہئے۔انسانی بساط کے مطابق جاپان میں زلزلوں کے نقصانات سے بچنے کے لئے غیرمعمولی انتظامات کیے گئے ہیں۔ عمارتوں کی تعمیر میں ایسا سسٹم بنایا جاتا ہے جس سے معمول کے جھٹکوں کو عمارتیں آسانی سے برداشت کرلیتی ہیں۔ اگر کوئی واقعی غیرمعمولی زلزلہ آئے جو وہاں کے انتظامات اور حفاظتی منصوبوں سے اوپر کی کوئی آفت ہو تو بھی اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے عوام کی صحیح رہنمائی اور متعلقہ شعبوں کی تیزترین امدادی کارروائیوں کی بدولت ہونے والے نقصانات کا کامیابی سے ازالہ کیا جاتا ہے۔ چار سال پہلے جاپان میں جو زلزلہ آیا اور اس کے نتیجے میں جو طوفان نے جاپان کے ایک حصے کو ملیامیٹ کردیا۔ انسانی آبادی، عمارتیں،گاڑیاں، جہاز، تنصیبات حتیٰ کہ ایٹمی بجلی گھروں کو بھی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسا طوفان کسی آباد علاقے میں دنیا کی معلوم تاریخ میں نہیں آیا ہے، مگر وہی جاپانی قوم آج صرف تین سال بعد اپنی اسی حالت میں واپس آگئی ہے جو سونامی سے پہلے تھی۔ تمام مسائل پر جاپان نے قابو پالیا ہے، معیشت بحال ہوگئی ہے۔
امریکہ کے کئی علاقوں میں سمندری طوفانوں کا خطرہ ہمیشہ رہتا ہے۔ کئی ممالک میں ہوائی طوفانوں کا معمول ہے جس سے عمارتوں کی چھتیں اُڑجاتی ہیں، درخت گرجاتے ہیں، فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ بسا اوقات بڑی بڑی گاڑیوں کو ہوائیں اُٹھاکر زمین پر پٹخ دیتی ہیں۔ زندگی کا سارا نظام درہم برہم کردیتی ہیں، مگر وہاں بھی لاکھوں کی تعداد میں انسان بستے ہیں اور ان قدرتی آفات کے نقصانات کو کم از کم کرنے کے انتظامات کی بدولت ان سے ایک حد تک محفوظ رہتے ہیں۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا کے جنگلات میں آگ لگتی ہے جو میلوں تک پھیل جاتی ہے اور ہفتوں تک بھڑکتی رہتی ہے۔متاثرہ علاقوں کے لوگوں کو وہاں سے بروقت منتقل کیا جاتا ہے۔ علاقے خالی کرالئے جاتے ہیں اور ان قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے مستعدی سے نظام حرکت میں آجاتا ہے تو نقصانات کم سے کم ہوجاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں قدرتی آفات کے سامنے بند نہیں باندھا جا سکتا، لیکن حکومتوں کے ناقص انتظامات اور بروقت اقدامات نہ اٹھانے کی وجہ سے ہم ہر سال اربوں روپے اور سینکڑوںجانوں کا نقصان اٹھاتے ہیں۔ آبی وسائل کے تحفظ، سیلاب کی روک تھام اورمتاثرین کی بر وقت امداد و بحالی میں حائل ہونے والی مشکلات کے مستقل خاتمہ کا کوئی نظام ابھی تک متعارف نہیں کرایا گیا۔ ہر سیلاب میں انتظامیہ اور متعلقہ ادارے بے حسی کی چادر اوڑھ کر سوئے رہتے ہیں۔ جب پانی سر سےاوپرہو جاتا ہے تو پھر ہاتھ پائوں مارے جاتے ہیں۔ حکومتی مشینری حرکت میں آتی ہے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ دورے بھی فرماتے ہیں۔ سوال یہ ہے آخر ہم کب تک ایسا کرتے رہیں گے؟ اگر حکومت صدق دل سے سیلاب سے نمٹنے کے لئے اقدامات اٹھائے تو ہم بڑے نقصانات سے بچ سکتے ہیں۔ نواز شریف کی شہرت لانگ ٹرم منصوبوں کی وجہ سے زیادہ ہے۔ انہوں نے کئی اچھے پروجیکٹ بنائے ہیں۔ انہیں ملک میں بڑے چھوٹے ڈیم بنانے کو ترجیح دینا ہوگی۔ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ہم بارشوں کے پانی کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ اس کو استعمال میں لا کر بجلی بنائیں، زراعت کو چمکائیں۔ اپنے کھیتوں اورگھروں، کو سیلابوں سے ہمیشہ کے لئے بچالیں۔جانی و مالی نقصانات سے بچاؤ کے لئے ہماری حکومت کو ایک لانگ ٹرم سوچ،وژن اور مسلسل محنت کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین