لیجئے صاحب ، اردو ادب فرانس پہنچ گیا۔ اور وہ بھی ایک دھماکے کے ساتھ ۔ انتظار حسین کو فرانس کا بہت بڑا اعزاز مل گیا ۔ ہم تو اس بات پر ہی پھولے نہیں سماتے تھے کہ انتظار حسین کے ناول ’’ بستی ‘‘ کو ادب کے بین الاقوامی انعام بکر پرائز کے لئے نامزد کر لیا گیا تھا، اور وہ بھی ان آخری تین ناموں میں، جن میں سے ہی کسی ایک کو انعام ملنا تھا۔اب تو انہیں فرانس کا وہ اعزاز مل گیا ہے جس سے دنیا بھر میں ان ادیبوں اور فن کا روں کو نوازا جاتا ہے جنہوں نے ادب و فن کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیئے ہوں۔ ہم بڑے فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اعزاز صرف انتظار حسین کا ہی نہیں ہے بلکہ یہ اعزاز ہے پاکستان کا ۔یہ اعزا ہے پوری پاکستانی قوم کا ۔ اور یہ اعزاز ہے اردو زبان و ادب کا ۔ فرانسیسی زبان میں اس اعزا ز کا جو نام ہے ہم کوشش کے باوجود اس کاصحیح تلفظ نہیں کر سکتے۔ البتہ انگریزی میں اسےOfficer of the Order of Arts and Literature کہا جاتا ہے ۔اب یہ نہ سمجھ لیجیے کہ اپنے انتظار حسین افسر بن گئے ہیں، اور وہ بھی فرانس کے ۔ یہاں افسر کا مطلب ہمارے ملک ولا افسر نہیں ہے بلکہ فرانس میں مختلف شعبوں میں بڑی بڑی شخصیات کو جن اعزازات سے نوازا جا تا ہے ان کے نام ہی کچھ ایسے ہیں ۔جیسے اسی زمرے میں جو دوسرے اعزاز ہیں انہیں حا صل کرنے والا ایک تو کمانڈر آف آرٹس اینڈ لٹریچر کہلاتا ہے ۔ دوسرا ’’شیویلئے ‘‘ یا بہادر کہلاتا ہے ۔ اس اعتبار سے ہمارے انتظار حسین ادب اور آرٹس کے افسر بن گئے ہیں ۔ یہ فرانس کا بہت ہی بڑا اعزاز ہے ۔ اسے شروع کیا تھا جنرل ڈیگال کے وزیر ثقافت اور عالمی شہرت کے ناول نگار آندرے مار لو نے ۔ ان کے ناول پاکستان میں بھی بڑے ذوق وشوق سے پڑھے گئے ہیں ۔ اب تک ہمارے جاننے والوں میں جن شخصیتوں کو یہ اعزاز ملا ہے ان میں بنگلہ زبان کی بلاشک و شبہ عظیم افسانہ نگار مہا شویتا دیوی، پنجابی کی بہت ہی بڑی شاعرہ اور کہانی کار امریتا پریتم،ہندوستانی فلموں کے فن کا رشاہ رخ خاں اور ایشوریا رائے شامل ہیں ۔ ان کے علاوہ دنیا بھر کے اور بہت سے معروف ادیبوں اور فن کا روں کا نام بھی ان میں آتا ہے ۔ پچھلے سال اس اعزاز سے لبنان کی فن کا رہ ماجدہ رومی کو نوازا گیا تھا ۔یہ اعزاز یا اعزازی تمغہ کسی شخصیت کے مجموعی کام کے حوالے سے دیا جا تا ہے ۔ انتظار حسین کویہ اعزاز یا اعزازی تمغہ دینے کے لئے فرانسیسی سفیر خاص طور سے لاہور آئے تھے ۔ اس سلسلے میں لاہور کے آواری ہوٹل میں ایک مختصر سی تقریب رکھی گئی تھی۔ اب اس موقع پر سفیر صاحب نے جو کہا اسے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے انتظار حسین کے بارے میں جو پڑھا تھا وہی سنادیا ۔حتیٰ کہ انہوں نے انتظار حسین کو ’’عظیم شاعر ‘‘ بھی قرار دے دیا کہ یہ بھی انہوں نے کسی سے سنا تھا۔ لیکن اس تقریب کی سب سے نمایاں خصوصیت خود انتظار حسین کا مضمون تھا ،جو انہوں نے یہ اعزاز حا صل کرتے ہوئے پڑھا ۔انہوں نے اپنا یہ اعزاز سعادت حسن منٹو، میراجی اور محمد حسن عسکری کے نام ہدیہ کر دیا ۔ اس طرح انتظار حسین نے ثابت کر دیا کہ انہیں جو ’’تہذیبی انسان ‘‘ کہا جا تا ہے وہ واقعی اس کے مستحق ہیں ۔ بھلا کون یاد رکھتا ہے اپنے سے پہلے آنے والے ادیبوں اور شاعروں کو ۔ کسی کوکوئی انعام یا اعزاز ملتا ہے تو سینہ پھلا کر اور گردن اکڑا کر اسے ایسے وصول کیا جا تا ہے جیسے ہم سے پہلے کسی نے اتناعظیم کارنامہ انجام ہی نہیں دیا ۔ انتظار حسین نے تسلیم کیا کہ اردو میںسب سے پہلے فرانس اور اس کے ادیبوں اور شاعروں کا تعارف سعادت حسن منٹو، میراجی اور محمد حسن عسکری نے کرایا ۔ منٹو نے فرانسیسی افسانے اردومیں ترجمہ کئے ۔ بلکہ منٹو نے تو یہاں تک دعویٰ کر دیا تھا کہ موپساں دنیا کا سب سے بڑا افسانہ نگار ہے ۔ میراجی نے فرانس کے شاعروں کا ترجمہ کیا۔ ان کے فن کے بارے میں لکھا ۔اوراردو پڑھنے والوں کو پہلی بار فرانس کے شاعروں اور ان کی شاعری کا مزہ چکھایا ۔ منٹو اور میراجی فرانسیسی زبان نہیں جانتے تھے ۔انہوں نے ترجمے انگریزی زبان سے کئے۔ لیکن محمد حسن عسکری فرانسیسی زبان جانتے تھے ۔ انہوں نے براہ راست فرانسیسی زبان سے استفادہ کیا ۔خود بھی ترجمے کئے اور اپنی نگرانی میں فرانسیسی سے ترجمے بھی کرا ئے۔ان کے تنقیدی مضامین میں فرانسیسی مصنفوں کا تذکرہ کچھ ایسے کیا جاتا تھا جیسے وہ ہم سب کے جانے پہچانے ہوں۔ حسن عسکری کے توسط سے ہی اردو قاری فرانسیسی ادیبوں اور نقادوں سے متعارف ہوا ۔ انتظار حسین نے اس موقع پرجہاں تہذیبی انکساری کا ثبوت دیا وہاں اپنی ان تین پیش روشخصیات کی خدمات کا برملا اعتراف کر کے دوسروں کو بھی ادب و تہذیب کا راستہ دکھایا اور یہ انتظار حسین ہی کر سکتے تھے۔ ڈاکٹر آصف فرخی نے انتظار حسین کے ناولوں اور افسانوں کے حوالے سے بات کی۔اصل میں ان کا مضمون تو طویل تھا لیکن اس مختصر سی تقریب کا خیال رکھتے ہوئے انہوں نے جستہ جستہ اس کے کچھ حصے سنائے ۔ خالد احمد (انگریزی والے)انتظار حسین کی زبان و بیان اور ان کے اسلوب کے شیدائی ہیں ۔ انہوں نے اپنے مختصر سے مضمون میں اس بات کو سراہا کہ انتظار نے اپنے آبائی شہر ڈیبائی اور بلند شہر سے لاہور ہجرت کرنے کے بعد بھی اپنی زبان کو یہاں کی مقامی زبان اور لہجوں سے آلودہ نہیں ہو نے دیا ۔ وہ اپنے آبائی شہر میں جو زبان بولتے تھے،یا وہاں کے لوگوں اور اپنے خاندان والوں سے جو زبان سنتے تھے، اپنے افسانوں اور ناولوں میں انہوں نے وہی زبان استعمال کی ۔ اردو افسانے اور ناول میں یہ ایک نیا اور شیریں لہجہ تھا۔اور یہی لہجہ اور یہی زبان وبیان انتظا رحسین کی خصوصیت بن گیا ۔ خالد احمد نے بالکل صحیح کہا ۔ اصل میں یہی بول چال کا انداز اور یہی اسلوب اور لہجہ ہے جس کی وجہ سے انتظار حسین کے افسانوں یا ناولوں کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ کرناخاصہ مشکل کام ہے ۔اس کا اعتراف آصف فرخی نے اپنے مضمون میںبھی کیا ۔ اور تو اور پروفیسر آل احمد سرور کی نواسی رخشندہ جلیل نے The Death of Sheherzad کے نام سے انتظار حسین کے افسانوں کا جو انگریزی ترجمہ کیا ہے اس میں انہوں نے بھی اپنی اس مشکل کا اظہار کیا ہے ۔یہ کتاب حال ہی میں دہلی سے چھپی ہے ۔ اورہاں ، خالد احمد صاحب کو یہ کس نے بتادیا کہ رام پور کے قصائی مشہور تھے۔ یوپی میں قصائی میرٹھ کے مشہور تھے جو فسادات میںڈٹ کر دشمنوں کا مقابلہ کرتے تھے ۔