کابل میں واقع امریکی یونیورسٹی میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی افغان صدر کے مطابق پاکستان میں ہوئی۔ اس سے پہلے پشاور آرمی اسکول میںمعصوم بچوں کے قتل عام سمیت پاکستان میں دہشت گردی کی متعدد بڑی بڑی وارداتوں کی منصوبہ بندی اور نگرانی افغان سرزمین سے ہوچکی ہے ۔گزشتہ روز بھی گوادر میں دہشت گردوں کے حملے میں پاکستانی لیویز فورس کے کئی اہلکار شہید ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ دونوں ملک دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں اور اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے افغانستان اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادتوں کو ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے باہمی تعاون سے کام لینا ہوگا۔ پاکستان مستقل طور پر اس کے لیے کوشاں ہے چنانچہ کابل میں دہشت گردی کے بعد صدر اشرف غنی سے فون پر بات کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے یقین دہانی کرائی کہ واقعے کی تحقیقات میں مکمل تعاون کیا جائے گا اورپاکستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔پاک فوج کے ترجمان کے مطابق افغان حکام نے تین ٹیلی فون نمبر بتائے جو مبینہ طور پر حملہ آور استعمال کررہے تھے۔ ان نمبروں کی بنیاد پر پاک فوج نے پاک افغان سرحد کے قریب کومبنگ آپریشن کیا جس سے پتہ چلا کہ یہ سمیں ایک افغان کمپنی آپریٹ کررہی ہے۔ پاکستان اپنے اس مخلصانہ تعاون کے جواب میں افغانستان سے بھی ایسے ہی طرزعمل کی توقع رکھتا ہے لیکن افغان حکومت کا رویہ بالعموم دہشت گردی کے کسی بھی واقعے کے بعد پاکستان کے خلاف الزام تراشی پر مبنی ہوتا ہے۔ تازہ واردات کے بعد بھی افغان صدر کی جانب سے جاری کردہ بیان کا لب و لہجہ کچھ ایسا ہی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستان میں جاری آپریشن پر امریکہ، افغانستان اور بھارت کی جانب سے اظہار اطمینان کے بجائے پاکستان ہی کو دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے جو نہایت افسوسناک ہے اس کی بجائے پاکستان سے تعاون کیا جانا چاہئے،جو دہشت گردی کے خاتمے کا صحیح لائحہ عمل ہے۔
.