• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنی نوجوانی کے زمانے کا ایک گانا مجھے آج تک پسند ہے۔’ یہ راتیں، یہ موسم، یہ ہنسنا ہنسانا۔ مجھے بھول جانا، انہیں نہ بھلانا‘۔ کیا حسین بول تھے جو آرزو صاحب نے سنہ چالیس کی دہائی میں لکھے تھے۔ وہی آرزو لکھنوی جن کے بارے میں میرا ایمان ہے کہ انہوں نے گانے کو نغمہ بنایا اور جو پنکج ملک کی کھنکتی آوازمیں ریکارڈ ہوا تھا۔ اب قصہ یہ ہے کہ راتیں تو کہیں نہیں گئیں، آتی رہیں گی،اب رہ گیا ہنسنا ہنسانا تو میرا خیال ہے کہ محفلیں رہیں گی تو وہ ہنسنا ہنسانا بھی ساتھ ہولے گا۔ البتہ موسم کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے تیور بدل رہے ہیں، اس کی ادائیں وہ پہلی جیسی نہیں رہیں ۔ اس کی چال بھی تبدیل ہو رہی ہے اور چلن بھی۔ سوچئے کہاں وہ گھِر گھِر کر آنے والی گھنگھور گھٹائیں جن کے آنے کے دن تاریخ کا پہلے سے علم ہوتا تھا۔ ندی نالے بھرجاتے تھے۔ اسے بہیّا کہتے تھے کبھی باڑھ کہتے تھے۔ سیلاب آتا ہوگا، مگر اتنی تباہی اب یاد نہیں۔ پھر بہار کا آنا، پت جھڑ کا آنا، جاڑوں کی صبحیں، گرمیوں کی شامیں ، ہر موسم کے پکوان، ہرموسم کے پھل، ان کی افراط اور ان کے کھانے کے وہ اہتمام۔ اب وہ سب یا تو رخصت ہوئے یا ذہن انہیں بھول چلا ہے۔ ہم سمجھ بیٹھے تھے کہ موسم پر ہمارا بس نہیں چلتا۔ یہ قدرت کی کاری گری ہے جس میں ہمارا دخل نہیں۔ مگر اب یہ کھلا ہے کہ ہماری زمین کے کرّہ کے گرد لپٹی ہوئی موسم کی اوڑھنی قدرت نے تو برّاق جیسی بنائی تھی، ہم اسے آلودہ کررہے ہیں۔ یہ بات مشکل سے دھیان میں سماتی ہے کہ ہم موسم کو خراب کررہے ہیں۔ اس کے ذرّے ذرّے کو ہم اس کی پاکیزگی سے محروم کررہے ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ چین اور منگولیا کے مشہور ریگستان صحرائے گوبی کی ریت کبھی اتنی پاکیزہ ہوا کرتی تھی کہ اس کے ذرّے ہوا میں اڑتے تھے تو فضا میں کچھ ایسی آواز گونجاکرتی تھی جیسے ایک ساتھ بہت سے ساز بج رہے ہوں۔ قدرت کا یہ کرشمہ دیکھنے کے لئے جہاں گرد لوگ اس صحرا کا سفر کرتے تھے۔ شاہراہ ریشم پر چلنے والے قافلے بھی اسی راہ سے گزرتے تھے اور رات کے سنّاٹے میں سازینے جیسی مسحور کن آوازیں سن کر حیران ہوا کرتے تھے۔ پھریہ ہوا وہ آوازیں بند ہو گئیں۔ ہوا یہ کہ ہماری زمین کی آلودگی نے ریت کے ان پاکیزہ ذرّوں پر آلودگی کی ایسی تہہ چڑھا دی کہ وہ وزنی ہوکر زمیں بوس ہوگئے اور اپنی طاقتِ پرواز کھو بیٹھے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ صحرا میں اگر غضب کا سنّاٹا ہوجائے تو کانوں میں درد ہونے لگتا ہے۔ اب یہی ہورہا ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے دنیا کے ماحول اور فضا کو اتنا میلا کچیلا کردیا ہے کہ ہماری ہواؤں میں وہ پہلی جیسی تاثیر نہیں رہی۔ فضا شفاف نہیں رہی تو موسم بھی کثیف ہو گئے ۔ دنیا میں شہد کی مکھیاں کم ہوتی جارہی ہیں۔ ہوا میں کچھ گھُل گیا ہے یا خدا جانے کیا ہوا ہے ،ایک خیال یہ ہے کہ موبائل فون کے سگنل کی وجہ سے شہد کی مکھیوں کی اپنا راستہ ڈھونڈنے کی صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے۔ سائنس داں کہتے ہیں کہ انسان اور شہد کی مکھیوں کی تخلیق ساتھ ساتھ ہوئی تھی۔ اب سوچئے کہ ان میں سے ایک کی نسل مٹنے کا خوف ہے اور دوسری پر بھی بُرا وقت پڑا ہے۔ لیکن یہ ایک بات ذرا سی آس بندھاتی ہے کہ ابھی وقت ہے، ابھی دیر نہیں ہوئی ہے۔ کثافت کے اس عمل کو روکا جاسکتا ہے۔ مگر اس کے لئے ساری دنیا میں شعورکا وہ احساس جگانا ہوگا جو اس خرابے کا سدّباب کرسکے۔اہلِ پاکستان کو اُس دھرنے کی خبر بھی نہ ہوگی جو ابھی چند روز پہلے دنیا کے بے شمارملکوں میں بیٹھا۔ سب ملا کر کوئی پونے سات لاکھ لوگ سڑکوں پر نکلے۔ سب کا ایک ہی نعرہ تھا دنیا کے موسم کو تباہی سے بچایا جائے‘۔ کہتے ہیں کہ عالمی موسم کی خاطر ہونے والا یہ تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔ اور کمال یہ ہے کہ اس تاریخی مظاہرے کا اہتمام کرنے والوں میں سب سے آگے ایک نئی تنظیم تھی جس کا نام آواز ہے۔ ابھی پانچ سال ہوئے اس کا نام انٹرنیٹ پر نظر آنا شروع ہوا۔ کوئی ریکِن پٹیل ہیں جنہوں نے دنیا کے دکھوں کی نشان دہی کرنے کی خاطر یہ تحریک شروع کی۔ یہ سوشل میڈیا کا اعجاز ہے کہ لوگ آواز سے آواز ملانے لگے۔ کچھ عرصے پہلے انہوں نے دنیا کو سو فی صد صاف موسم دینے کا نعرہ بلند کیا۔ معلوم ہو ا کہ ساری دنیا نے اس کی تائید کردی چنانچہ طے پایا کہ گزری ہوئی اتوار کو گھروں سے باہر نکلا جائے اور موسم کو تباہی سے بچانے کا شعور جگایا جائے۔ سوشل میڈیا پوری طرح حرکت میں آگیا۔ ساٹھ ستّر ملکوں میں چھ لاکھ پچھتّر ہزارسے زیادہ لوگوں نے آوازاور اس کے ساتھی اداروں کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ایسا تاریخی مظاہرہ کیا کہ بی بی سی نے کہا کہ یہ مظاہرے اتنے بہت سے لوگوں کو سڑکوں پر لے آئے کہ پہلے کبھی نہیں آئے تھے اور یہ سب آواز کی انتظامی صلاحیتوں کا کمال ہے۔ خود آواز نے کہا کہ یہ محض آغاز ہے۔ موسم کے سوال پر نہایت اہم عالمی اجلاس پندرہ ماہ بعد پیرس میں ہونے والا ہے۔ اس سے پہلے ہم بار بار نکلیں گے اورہر بار پہلے سے بڑا مجمع دنیا کے موسم کو بچانے کا نعرہ بلند کرے گا۔ اس اتوار کو نیویارک میں انسانوں کا سمندر نکلا۔ آواز نے وہاں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کو بیس لاکھ دستخطوں سے آراستہ ایک یاد داشت پیش کی۔ اخبار نیویارک ٹائمز نے اسی روز لکھا کہ لوگ دنیا کے موسم کو بچانے کا مطالبہ سڑکوں پر لے آئے ہیں۔ برلن میں جہاں کبھی بٹوارے کی دیوار کھڑی تھی ، وہاں ہم نے اپنی تحریک چلانے والوں کی ایک ٹھوس دیوار دیکھی۔ غرض یہ کہ کیا ایتھنز، کیا مونخ اور اسی طرح استنبول، پیرس،ملبورن،کولمبو،کٹھمنڈو،روم اورجکارتا سمیت ان گنت شہروں میں موسم کو بچانے کی صدا بلند ہوئی۔ دلّی میں نوجوانوں نے اپنی ریلی نکالی۔ ان کو گلہ تھا کہ ترقی کے نام پر قدرت کے ماحول کو بگاڑا جارہا ہے۔ انہوں نے ایک بینر اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا کہ ’ وکاس کے نام پر دریاؤں پر بند باندھنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
پاکستان اگر اس تحریک میں شامل تھا تو مجھے خبر نہیں۔ سوشل میڈیا دنیا کو جگارہا ہے، اس کی آنچ ٹیلی وژن کی شکل میں تو پاکستان تک پہنچی ہے لیکن سوشل میڈیا کی طرف دھیان دینے کی ابھی وہاں کسی کو فرصت نہیں۔ ایک بات یقینا کہی جاسکتی ہے کہ اسٹریٹ پاور یعنی لوگوں کا سڑکوں پرآجانا بھی اثررکھتا ہے۔ عراق کی جنگ کے خلاف پندرہ فروری سنہ دو ہزار تین کاعوامی احتجاج کون بھول سکتا ہے جب ساٹھ ملکوں کے چھ سوشہروں میں انسانوں کا سمندراُبل پڑا تھا۔ سماجی تحریکوں کا مشاہدہ کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ پندرہ فروری کا احتجاج انسانی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔ اتنا بڑا کہ تعداد کا اندازہ لگانے والے ہانپ گئے۔ آخربات اس پر ٹھہری کہ ان کی تعداد اسّی لاکھ اور تین کروڑ کے درمیان تھی۔ روم میں تیس لاکھ افراد نے نعرہ لگایا کہ عراق پرحملہ نہ کرو۔ وہ کسی ایک شہر میں ہونے والا پوری انسانی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔دوسرے نمبر پر اسپین کا شہر میڈرڈ رہا جہاں پندرہ لاکھ افراد سڑکوں پر نکلے۔
بس کمال تو اس وقت ہوا جب حاکم وقت نے آنکھیں موند لیں اور مظاہرین کی ایک نہ سُنی۔ وہ عراق پر ٹوٹ پڑا۔ اس کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور یہ اینٹیں بجنے کا عمل آج تک جاری ہے اور ایک عراق ہی کیا، آس پاس کی ساری ہی عمارتیں ڈھہی جارہی ہیں۔ قلق اس بات کا ہے کہ زبان خلق کو نہیں سنا گیا۔ رنج اس بات کا ہے کہ نقارۂ خدا کو چپ کردیا گیا اور دکھ اس بات کا ہے کہ سیاست کار اندر سے سیاہ کارنکلے۔
تازہ ترین