• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دسمبر 2010ء میں انقلاب اور آزادی کا طوفان تیونس سے اٹھا تھا ، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیائے عرب کے بیشتر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔ یہ طوفان مزید آگے بڑھ رہا ہے ۔ عرب ملکوں کے عوام ’’ آمروں اور بادشاہوں ‘‘ سے آزادی حاصل کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔ وہ ایسی تبدیلی لانا چاہتے تھے ، جو ان کے معاشروں میں انقلابی کایا پلٹ کر دے ۔ بے روزگاری ، غربت ، ناانصافی اور ریاستی اداروں کے مظالم کا خاتمہ ہو ۔ ان کا ملک مغربی تسلط سے آزاد ہو اور اپنی مرضی کے فیصلے کر سکیں ۔ وہاں جمہوری حکومتیں قائم ہو سکیں اور کسی قسم کا جبر و استحصال نہ ہو ۔پھر دنیا نے دیکھا کہ تیونس کے حکمران زین العابدین بن علی اپنی جان بچا کر ملک سے فرار ہو گئے۔ٹی وی اسکرین پر عراق کے صدر صدام حسین کی پھانسی کا دل دہلا دینے والا منظر دیکھ کر لوگوں کی چیخیں نکل گئیں۔ لیبیاکے کرنل معمر قذافی کی خون میں لت پت تصویروں نے پوری دنیا میں خوف کی لہر دوڑا دی۔ لوگوں نے یہ نظارہ بھی کیا کہ مصر کے مرد آہن حسنی مبارک کو فولادی پنجرے میں بند کرکے عدالت میں لایا گیا ۔ یمن کے حکمران علی عبداللہ صالح نے ہاتھ باندھ کر اقتدار سے رضاکارانہ دستبرداری کا اعلان کیا ۔ یہ عوام کے غم و غصے کا طوفان تھا ، جیسے عوام کے سمندر میں ’’ سونامی ‘‘ آ گیا ہو ۔ اس طوفان نے ہر چیز کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔ اب پونے چار سال بعد اس طوفان کے اثرات کا واضح طور پر نظارہ کیا جا سکتا ہے ۔ عرب معاشرے خونریزی اور سماجی انتشار کا شکار ہیں ، معیشت تباہ ہو چکی ہے ، ادارے ختم ہو چکے ہیں ، ملکوں کی سرحدیں کمزور ہو گئی ہیں ، سماجی انحطاط اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے اورعالمی طاقتوں کی مداخلت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ خطہ عرب عہد جدید کی نو آبادیات میں تبدیل ہو گیا ہے ۔ اس طوفان کی تباہ کاری کا سب سے زیادہ خوف ناک نتیجہ وہ ہے ، جس کی نشاندہی دنیائے عرب اور مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر اسٹیون اے کک ( Steven A. Cook ) نے کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیائے عرب ’’ شناخت کے بحران ‘‘ کا شکار ہو گئی ہے ۔ اب لوگوں کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ وہ کون ہیں ، کس طرح کا ملک بنا کر رہنا چاہتے ہیں اور وہاں کون سا نظام حکومت نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔ شناخت کا یہ بحران انتہائی خطرناک ہے ۔ عربوں کی تہذیب بہت پرانی ہے ۔ وہ اپنے ماضی سے بھی کبھی منکر نہیں رہے ۔ وہ کبھی ثقافتی اور تہذیبی احساس کمتری میں مبتلا نہیں رہے ۔ ان کا مذہب بھی اپنا ہے۔ صدیوں سے وہ عربی زبان بول رہے ہیں ۔ نو آبادیاتی دور میں بھی وہ کبھی اپنی شناخت کے لیے دوسروں کی طرف نہیں دیکھتے تھے ۔ انہوں نے نو آبادیاتی دور میں آزادی کے لیے حقیقی جدوجہد کی ۔ جمال عبدالناصر ، حواری بومدین ، حبیب بورقیبہ، حافظ الاسد ،کرنل قذافی اور دیگر کئی سامراج مخالف لیڈر دنیائے عرب نے پیدا کیے ہیں ۔ 1960ء کے عشرے میں وہاں ’’ پان عرب ازم ‘‘ کی تحریک چلی ، جس نے مراکش سے عراق تک ’’ وطنی الاکبر ‘‘ کا تصور دیا ۔ دنیائے عرب میں ’’ پان اسلام ازم ‘‘ کی بھی تحریک چلی ، جو مذہبی تحریک سے زیادہ عربوں کی قومی تحریک تھی ۔ دونوں تحریکیں ہر ملک کی اپنی ثقافتی اور قومی شناخت سے متصادم نہیں تھیں ۔ اس قدر عظیم تاریخی پس منظر رکھنے والی عرب اقوام اب شناخت کے بحران کا شکار ہیں ۔ انہیں پتہ ہی نہیں ہے کہ اب انہیں کون سا نظام اختیار کرنا چاہئے ۔ انہیں یہ بھی علم نہیں ہے کہ مصری ، شامی ، عراقی ، لیبیائی ، یمنی ، لبنانی ، الجزائری اور ترک ہونے کا کیا مطلب ہے ۔ وہ اپنی قومی شناختوں کو کھو چکے ہیں ، جن کی تعبیر وہ سامراج دشمنی ، اقتصادی قوم پرستی اور تاریخی اساطیریات خصوصاً مذہب اسلام کے حوالے سے کرتے تھے ۔ انقلاب اور آزادی کی تحریکوں کی رہنمائی کرنے والی نئے عرب لیڈرز کوئی ایسا وژن نہیں دے سکے ہیں جو عوام کی اکثریت کو اپیل کرتا ہو ۔ تحریر اسکوائر میں امڈنے والے سونامی میں ’’ سلمیا سلمیا ‘‘ کے نعرے لگ رہے تھے ، جن کا مطلب ’’ پر امن رہو ، پر امن رہو ‘‘ تھا لیکن اب ان عرب ممالک میں ہر طرف دہشت گردی ، خونریزی اور تباہ کن جنگیں ہیں ۔ ہر لیڈر اپنا الگ نظام نافذ کرنا چاہتا ہے ۔ نئی قیادت نے عربوں کی اسلام سے وابستگی کا مطلب یہ لیا کہ ریاست میں ملا شاہی نافذ کر دی جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ داعش اور دیگر انتہا پسند گروہ اپنا حق حکمرانی جتا رہے ہیں اور عرب دنیا فرقہ وارانہ ، گروہی ، نسلی ، قبائلی اور طبقاتی بنیادوںپر تقسیم ہو گئی ۔ نئی قیادت کا اندازہ غلط ثابت ہوا ۔ عرب مذہب اسلام اور جمہوریت کو یکجا کرکے ایک نیا نظام لانا چاہتے ہیں لیکن اب اتفاق رائے کا ماحول نہیں رہا ۔ شناخت کابحران عربوں کو کہاں لے جاتا ہے ، یہ حالیہ تاریخ کا ایک اہم سوال ہو گا ۔ امریکی صدر اوباما نے داعش کے خلاف ’’ انٹرنیشنل کولیشن ‘‘ کے ذریعہ جو جنگ شروع کی ہے ، یہ بھی مزیدخوفناک تباہی کی طرف لے جائے گی،جس سے نئے المیے جنم لیں گے ۔ عربوں کے اس موجودہ بحران کو دیکھ کر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی بصیرت پر انہیں سلام پیش کرنا چاہئے ۔ 11 اگست 1947 ء کو پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے دو ٹوک الفاظ میں یہ بتا دیا تھا کہ پاکستان کس طرح کی ریاست ہو گی اور یہاں نظام حکومت کیا ہو گا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ مہاتما گاندھی جیسی مذہبی اپروچ سے اتفاق نہیں کرتے ہیں ۔ 1973ء کے دستور میں ذوالفقار علی بھٹو اور اس وقت کے دیگر سیاسی قائدین نے قائد اعظم کے تصور پاکستان کو حتمی شکل دی تھی ۔ اسلام کے بنیادی اصولوں پر آئین وضع کیا جبکہ پاکستان کے لیے ایک وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام لازمی قرار دیا ۔ اس آئین نے اس قوم کو شناخت اور نصب العین عطا کیا۔یہ قوم آج اس آئین یعنی اپنی شناخت کو اگر ایک طرف رکھ دے تو یہ ایک ایسی قوم ہو گی جو کبھی اپنی شناخت تلاش بھی نہیں کر سکے گی ۔ کچھ قوتیں 18 ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے اور متفقہ آئین کو ایک دفعہ پھر تبدیل کرنے کے لیے آزادی اور انقلاب کا مصنوعی طوفان اٹھا رہی ہیں ۔ انہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ پاکستان کی حکمراں اسٹیبلشمنٹ یہاں کے لوگوں کی تاریخی ، تہذیبی اور لسانی شناخت پر پہلے ہی کاری ضربیں لگائی ہیں ۔ اس اسٹیبلشمنٹ کا اپنی شناخت کا بحران اس قدر گہرا ہے کہ یہ دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے ریاست کو چلانا چاہتی ہے ۔ یہ قوم کو پھر ان سوالوں میں الجھانا چاہتی ہے کہ پاکستان کی تخلیق کا سبب کیا تھا ؟ پاکستان میں کون سا نظام حکومت ہونا چاہئے ؟ پاکستان کی خارجہ اور داخلی پالیسی کیا ہونی چاہئے ؟ یہ قوتیں ایک نوزائیدہ قوم کو شناخت کے ایسے بحران میں مبتلا کرنا چاہتی ہے ،جواس وقت عرب دنیا کو درپیش ہے۔ ان قوتوں کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ یہ شناخت بھی چھین لی گئی تو ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری جڑیں تاریخ اور دھرتی میں عربوں سے زیادہ مضبوط نہیں ہیں ۔پھر کسی کے لیے ہمیں بنیادوں سے اکھاڑنا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہو گا ۔ہمیں اپنے 1973کے عمرانی معاہدے کو ہر حال میں قائم رکھنا ہوگا اور یہی عمرانی معاہدہ ہمارے وجود کی ضمانت ہے۔
تازہ ترین