• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی قیادت کی جانب سے وزیراعظم پاکستان اور دیگر قومی سیاسی قائدین کے خلاف جو زبان استعمال کی جا رہی ہے ، اس پر سخت اعتراضات سامنے آرہے ہیں ۔ گزشتہ جمعرات کو سندھ اسمبلی میں ارکان نے اس پر سخت احتجاج کیا اور اس زبان کو بدتمیزی ، بد زبانی ، گالم گلوچ اور بے جا الزام تراشی سے تعبیر کیا ۔ سندھ کے وزراء شرجیل انعام میمن ، منظور حسین وسان ، نثار احمد کھوڑو اور مخدوم جمیل الزمان ، پیپلز پارٹی کے رکن ڈاکٹر مہیش ملانی، پاکستان مسلم لیگ (ن)کے رکن امتیاز احمد شیخ نے عمران خان سے کہا کہ وہ بدزبانی اور جھوٹے الزامات لگانے کا سلسلہ بند کریں ۔ وہ اپنی زبان کو لگام دیں ورنہ عوام کو بھی اس کا جواب دینا آتا ہے۔ ان رہنماؤں نے اس بات پر بھی سخت تشویش کا اظہار کیا کہ مذکورہ دونوں جماعتوں کے قائدین خصوصاً عمران خان دیگر قومی سیاسی رہنماؤں کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ ملک بھر میں ان رہنماؤں کے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں حامی ہیں ، جن کی دل آزاری ہوتی ہے ۔ اگر لوگ مشتعل ہوگئے تو صورت حال کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا ۔ سندھ اسمبلی میں دوسرے دن بھی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے پیش کردہ قرار داد پر متعدد ارکان نے اپنے خطاب میں عمران خان کے روئیے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ پانچ ہزار لوگوں کے ساتھ دھرنا دے کر کسی کو منتخب اداروں اور سیاسی قائدین کو گالیاں دینے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی طرف سے استعمال کی جانے والی زبان پر سینیٹ ، قومی اسمبلی ، پنجاب اسمبلی ، بلوچستان اسمبلی اور دیگر فورمز پر بھی لوگ احتجاج کرچکے ہیں ۔ اسمبلیوں سے باہر بھی مختلف حلقے اپنے رد عمل اور غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں ۔
اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کو چاہئے کہ وہ معاملے کی حساسیت اور سنگینی کا ادراک کریں ۔ اختلاف رائے سیاست اور جمہوری معاشرے کا حسن ہے لیکن اختلاف رائے کی کچھ حدود ہیں۔ کسی کو گالی دینا ، کسی کی تضحیک کرنا ، کسی کی ساکھ خراب کرنا اور کسی پر الزام عائد کرنا اختلاف رائے کے زمرے میں نہیں آتا ۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور خصوصاً عمران خان دوسروں کے بارے میں جو زبان استعمال کرتے ہیں ، اس پر ہونے والے اعتراضات درست ہیں کیونکہ اگر یہی زبان انکے خلاف استعمال کی جائے تو انہیں غصہ آئے گا اور ان کے حامیوں کی بھی دل آزاری ہو گی ۔ دونوں محترم قائدین مغربی اخلاقیات کے دلدادہ ہیں اور وہ اپنی تقریروں میں مغرب کی سیاست اور معاشرت میں رائج کچھ باتوں کے حوالے بھی تسلسل کے ساتھ دیتے رہتے ہیں ۔ اگر مغربی ممالک میں کسی پر ثبوت کے بغیر الزام عائد کر دیا جائے تو قانون فوراً اپنی گرفت کرتا ہے اور الزام عائد کرنے والے پر یہ ذمہ داری ڈال دیتا ہے کہ وہ الزام ثابت کرے ورنہ سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوجائے ۔ بے جا الزام تراشی اور ’’ سوئپنگ ریمارکس ‘‘ کو مغربی معاشرے میں نہ صرف بد ترین بد اخلاقی تصور کیا جاتا ہے بلکہ یہ قانوناً بھی ایک سنگین جرم ہے ۔ روزانہ ایئرکنڈیشنڈ کنٹینرز کی چھت پر کھڑے ہو کر وزیر اعظم اور دیگر مقبول سیاسی رہنماؤں کو نام لے کر ’’کرپٹ ‘‘ کہنا ، ان کے بارے میں یہ تاثر دینا کہ وہ سفاک اور ظالم ہیں اور ان کا مذاق اڑانا کہاں کا انصاف ہے ۔ انصاف کی بنیادی روح یہ ہے کہ جب تک کسی کا گناہ یا جرم ثابت نہیں ہو جاتا ، اس وقت تک اس کو مجرم قرارنہیں دیا جا سکتا ۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کو کس قانون اور اخلاق نے یہ اجازت دیدی ہے کہ وہ سوئپنگ ریمارکس دے کر لوگوں کے مجرم ہونے کا فیصلہ سنادیں اور اسکے بعد انکو گالیاں دینا شروع کر دیں ۔ اگر ڈاکٹر طاہر القادری اپنے وطن کینیڈا میں اور عمران خان اپنی سابق اہلیہ اور اپنے بچوں کے وطن انگلینڈ میں ہوتے تو اب تک جیل میں پڑے ہوتے ۔ سیاست کی بھی کوئی اخلاقیات ہوتی ہے ، چاہے وہ سیاست انقلاب یا تبدیلی کی سیاست ہی کیوں نہ ہو ۔ اگرچہ پاکستان میں مغرب کی طرح ہتک عزت کا سخت قانون نہیں ہے اور جمہوری حکمراں آمروں کی طرح سختی نہیں کررہے تو بھی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کو گالیاں دینے یا بے جا الزامات عائد کرنے کا لائسنس مل گیا ہے ۔ اگر سیاست میں گالی گلوچ اور بے جا الزامات کا سلسلہ شروع ہو جائے تو پھر اسکا انجام بہت ہی خطرناک ہو گا ۔ سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کی اس بات میں وزن ہے کہ عمران خان کے آقاؤں نے پورا زور لگا دیا اور سارے ریاستی وسائل استعمال کرکے دیکھ لئے لیکن وہ آصف علی زرداری پر کرپشن کا ایک کیس بھی ثابت نہیں کر سکے ۔ عمران خان بھی اپنا شوق پورا کر کے دیکھ لیں ۔ شرجیل انعام میمن نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ عمران خان کے دھرنوں اور سیاست کیلئے پیسہ کہاں سے آرہا ہے ۔ انہوں نے جو الزام عائد کیا ہے ، وہ ان سطور میں دہرانا مناسب نہیں ہے لیکن لوگوں کے ذہنوں میں سوالات تو پیدا ہوتے ہیں ۔ عمران خان نے محمود خان اچکزئی ، مولانا فضل الرحمٰن ، وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ، بلاول بھٹو زرداری ، آصف علی زرداری اور دیگر سیاسی قائدین کے بارے میں جو ریمارکس دیئے ہیں اور جو زبان استعمال کی ہے ، اس پر ان رہنماؤں کے رد عمل میں شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا گیا ہے ۔ عمران خان اس بات سے ہی سبق حاصل کرلیں ۔ انسان اپنے انداز گفتگو سے ہی پہچاناجاتا ہے ۔ اکثر سیاسی رہنماؤں نے اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا ہے کہ غیر جمہوری حکمرانوں اور آمروں میں عمران خان کو کوئی خامیاں نظر نہیں آتیں۔ عمران خان کے نزدیک غیر جمہوری حکمران کرپشن بھی نہیں کرتے ہیں ، جبر و استبداد سے بھی کام نہیں لیتے ہیں ، ریفرنڈم اور الیکشن میں دھاندلی بھی نہیں کراتے ہیں ، اقرباء پروری بھی نہیں کرتے ہیں ، پیسہ باہر منتقل بھی نہیں کرتے ہیں ، دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی بھی نہیں کرتے ہیں اور غیر ملکی قوتوں کے ہاتھوں استعمال بھی نہیں ہوتے ہیں ۔ وہ فرشتے ہوتے ہیں اور ساری خرابیاں سیاست دانوں میں ہوتی ہیں ۔ عمران خان کو اپنی سیاسی اپروچ پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔ اپنی عزت ، وقاراور ساکھ کا تحفظ کرنا ہرایک کا بنیادی حق ہے ۔ دوسری سیاسی جماعتوں کا یہ جائز احتجاج ہے ۔ احتجاج غم و غصے میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے ۔ صرف گالیاں دینے سے نظام تبدیل نہیں ہوتا۔ لوگوں کا اجتماعی شعور بہت بلند ہے ۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری جو باتیں یہاں کرتے ہیں ، وہ انگلینڈ اور کینیڈا میں کرکے دکھائیں ۔ پھر انہیں پتہ چل جائے گا کہ وہ کس قدر غلطی پر ہیں ۔
تازہ ترین