15ویں سے18ویں صدی عیسوی تک سلطنت عثمانیہ کی اسلامی مملکت تین براعظموں پر محیط تھی جس میں ایک تہائی یورپ، شمالی افریقہ کے ممالک ، شام، عراق، نصف ایران، سعودی عرب اور مصر شامل تھے۔17ویں صدی کے بعدسلطنت عثمانیہ روبہ زوال ہوئی اور اتنی کمزور ہوتی گئی کہ 1852میں زار روس کو کہنا پڑا کہ ’’ترکی ایک بیمار ملک ہے اور بہت بیمار ہے‘‘۔ یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گئی اور ترکی یورپ کا مرد بیمار کہلانے لگا اور مرد بیمار یعنی سلطنت عثمانیہ جنگ عظیم اول کے بعد سمٹ کر صرف ترکی کی حدود تک محدود رہ گئی۔ ادھر ہندوستان میں مسلمانوں کی عظیم سلطنت1707 میں مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد زوال پذیر ہوگئی۔
1947 میں پاکستان دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی حیثیت سے وجود میں آیا جو اپنے قیام کے آغاز سے ہی انحطاط اور زوال کا شکار ہوگیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور قائد ملت لیاقت علی خان کی وفات کے بعد حکومتیں بدلتی رہیں۔ طوائف الملوکی کا دور دورہ ہوا اور1958میں جنرل ایوب خان کا مارشل لا دس سال رہنے کے بعد جنرل یحیی خان کے دور میں ملک کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرتا ہوا گزر گیا۔ آج 67 سال بعد ملک ایک مرد بیمار کی طرح اپنی بیماری تلاش کررہا ہے اور ’’مرض بڑھتا گیا جوںجوں دوا کی‘‘ کے مصداق بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں اور بیمار ناتواں ملک بیرونی امداد کی آکسیجن کے سہارے ہے۔ اس ملک کو درپیش بیماریاں دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں۔ ملک میں فوجی حکمران دس دس سال حکمران رہے وہ اس بیمار ملک کی حالت درست کرسکتے تھے مگر وہ بھی ناکام ہوئے۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو جو پاکستان کے حالات بہتر کرسکتے تھے اپنی گوناگوں خوبیوں اور قابلیت کے باوجود کامیاب نہ ہوسکے۔ مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے باوجود کامیاب ہوتے نظر نہیں آرہے۔
20کروڑ کی آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے مگر جی ڈی پی اور فی کس آمدنی کے لحاظ سے اس کا دنیا میں 148واں نمبر ہے۔ بیرونی قرضے 60ارب ڈالر سے زائد ہوچکے ہیں جبکہ اندرونی قرضوں کا بوجھ بھی 400ارب روپے ہے۔ موجودہ بجٹ میں حکومت کی آمدنی کا 2800ارب روپے تخمینہ لگایا گیا ہے جس میں سے 1300 ارب روپے بیرونی قرضوں کی اقساط کی مد میں ادا کرنا ہوں گے، ملکی دفاع کے مصارف 700ارب روپے ہیں جبکہ باقی 1400ارب روپے صوبوں کو دینا پڑیں گے ۔ عوام کی فلاح و بہبود، تعلیم اور صحت کا بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ صحت کے میدان میں پاکستان کا 192ممالک میں سے 188واں نمبر ہے۔
اقتصادیات میں پاکستان کا 142واں نمبر ہے۔ ملک کی تمام بیماریوں کا علاج علم و ہنر، تحقیق و تفتیش میں پنہاں ہے لیکن تعلیم کے میدان میں دنیا کے 173ممالک میں پاکستان کا نمبر148 واں ہے شرح خواندگی52 فیصد ہے لیکن معیار تعلیم اتنا پست ہے کہ بی اے اور ایم اے پاس لوگوں کی اکثریت اردو یا انگریزی میں خط بھی نہیں لکھ سکتی ہے۔ زراعت،صنعت و حرفت اورٹرانسپورٹیشن سمیت تمام شعبوں میں ترقی کے لئے ملک کے تدریسی اداروں میں تحقیق و تفتیش کے مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
مختلف ملکی منصوبوں پر کام کرنے کے لئے غیر ملکی ماہرین بلائے جاتے ہیں جو پاکستان کے مخصوص حالات سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ مشہور دانشور برنارڈ شاہ نے کہا تھا کہ ایک شخص صرف اپنی زبان ہی کے علم سے ترقی کرسکتا ہے، جاپان، چین اوردنیا کے ترقی یافتہ ممالک برطانیہ، فرانس، جرمنی، امریکہ، جاپان اپنی مادری زبان کے ذریعے تعلیم و تحقیق کی بلندیوں کو چھورہے ہیں۔
ہمارا ملک گوناگوں بیماریوں کا شکار ہے۔ ان برائیوں کی فہرست خاصی طویل ہے مگر بڑی برائیوں میں جہالت، بدعنوانی، لاقانونیت، دہشت گردی، رشوت ستانی، ٹیکسز، بجلی، پانی، گیس کی چوری، سفارش و اقربا پروری شامل ہیں ۔ پوری قوم افراتفری، افلاس و غربت اور عدم تحفظ کے مرض کا شکار ہے۔ پولیس عوام کا تحفظ کرنے میں ناکام ہے جبکہ انتظامی ادارے ملک سے مہنگائی، بدعنوانی، دہشت گردی اور تخریب کاری کا خاتمہ کرنے سے قاصر ہیں۔ قائد اعظم کے زریں اصول اتحاد، یقین محکم اور نظم و ضبط لوگوں کے ذہنوں سے محو ہوچکے ہیں ۔ ملک کے نامور کالم نگار، دانشور اور علمائے کرام دن رات اخبارات میں عوام کو درست سمت چلنے کی تلقین کرتے ہیں مگر کیا ملک کے سیاسی و مذہبی قائدین اور دانشوروں کے پندونصائح سے عوام کے طرز عمل اور رہن سہن یا سوچ میں تبدیلی یا بہتری آئی ہے؟
اس لئے میری نظر میں مختلف النوع بیماریوں کا علاج صرف انصاف کی فراہمی میں ہے ۔ پاکستان کی تمام بیماریوں کی تشخیص و علاج ونسٹن چرچل کے اس مقولے سے ممکن ہے کہ جب جنگ عظیم دوم میں جرمن جنگی طیارے برطانیہ پر بمباری کررہے تھے اور تین لاکھ برطانوی و فرانسیسی افواج فرانس میں شکست کھانے کے بعد پسپا ہوگئی تھیں اوریوں لگتا تھا کہ برطانیہ پرجرمنی کا تسلط قریب ہے۔ اس وقت برطانوی وزیر اعظم چرچل نے شکست کی خبریں ملنے کے بعد اپنے اسٹاف سے سوال کیا کہ ’’کیا ہماری عدالتیں درست انداز میں کام کررہی ہیں‘‘، توا نہیں بتایا گیا کہ ہماری عدلیہ اور دیگر ادارے صحیح کام کررہے ہیں۔ اس پر ان کا جواب تھا کہ ’’ اگر ہماری عدالتیں صحیح انداز میں اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں تو ہمارا ملک قائم و دائم رہے گا‘‘۔ آج پاکستان بھی حالت جنگ میں ہے۔ ہماری ان تمام بیماریوں کا علاج بھی صرف قانون کی حکمرانی میں ہے۔ اگرحکومت ملکی حالات درست کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے ملک میں عدالتوں کے نظام اور انصاف کی فراہمی کے لئے مثبت اقدام کی ضرورت ہے۔ عدالتوں کے ناقص نظام کی وجہ سے لاکھوں مقدمات سالہا سال زیر التوا رہتے ہیں ، قانون شکن عناصر آزاد پھرتے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ حکومت کی اہم ذمہ داری یہ ہے کہ عدالتوں میں ججز کی تعداد میں اضافہ کرے تاکہ عوام کو انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے۔ اگر ملک میں عدالتیں صحیح کام کرنے لگیں گی تو قانون کی بالادستی کی وجہ سے ملک کے دوسرے سول سروس کے ادارے پولیس، ٹیکسیشن، تعلیم، صحت اور معیشت بھی صحیح سمت میں گامزن ہوں گےاوراپنے فرائض تندہی اور ایمانداری سے انجام دیں گے اور صدر، وزیر اعظم سمیت اعلی افسران تک کو قانون شکنی کی ہمت نہیں ہوگی۔ اس مرد بیمار یعنی پاکستان کاعلاج قانون کی حکمرانی میں ہی پنہاں ہے۔ شیخ سعدی نے 1000سال پہلے حکایات گلستان و بوستان سعدی میں لکھا تھا کہ اگر کوئی بادشاہ یا حکمراں کسی کھیت سے گندم کا ایک خوشہ توڑ لے تو اس کی فوج پورا کھیت اجاڑ دے گی۔ ایوب خان کے دور میں کسی دانشور نے کہا تھا کہ بدعنوانی اور کرپشن ایک دریا کی مانند ہیں جو بلندی سے شروع ہوکر پستی کی طرف پھیل جاتا ہے۔ اگر پاکستان کے حکمراں ملک کے مہلک امراض کا علاج کرنا چاہتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہوگی۔ پاکستان کے ان گنت مسائل صرف قانون کی حکمرانی سے حل ہوسکتے ہیں۔ بصورت دیگر بیمارملک مزید بیمار ہوگا اور حکمران قعر مذلت میں ڈوبتے جائیں گے۔