سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی خوبیوں اور خامیوں پر بہت کچھ لکھا گیا اور بہت کچھ لکھااور کہا جارہا ہے۔ ان کے مدّاحین بھی بہت ہیں اور مخالفین بھی کم نہیں ہیں۔ ان کے مدّاحین سمجھتے ہیں کہ چوہدری صاحب کسی مالی بددیانیتی میں ملوث نہیں رہے۔ وہ ایک جرأتمند آدمی تھے جن کی شخصیّت کے رعب کی وجہ سے عدلیہ کی بالادستی قائم ہوئی۔ انہوں نے ریاست کا لُوٹا ہوا اربوں روپیہ برآمد کرایا اور بڑے سے بڑے شخص کو کٹہرے میںکھڑا کیا۔ معترضین کا کہنا ہے کہ موصوف اپنی بے جا تشہیر، بے تحاشا پروٹوکول اور سول افسروں کی توہین کرنے کے بے حد شوقین تھے اوراس شوق کی نہ کوئی حد تھی نہ کنارہ۔ وہ عدالت کو آئین اور قانون کے مطابق نہیں پنچائیت اور جرگے کے طور پر چلاتے رہے۔ان کاطرزِ عمل باوقار نہیں تھااور بہت سے فیصلے ذاتی پسند اور ناپسند کی بناء پر کرتے رہے۔ کئی کرپٹ اور مشکوک کردار کے افسر اُن کے پسندیدہ تھے اور بہت سے نیک نام افسر اُن کے عتاب کا نشانہ بنتے رہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہر شخص کے بارے میں تجزیہ بلاتعصّب ہونا چاہیے مگر ہمارے تجزیہ نگاروں کے ہاں جس چیز کا سب سے زیادہ فقدان ہے وہ objectivityہے۔ ہر تجزیہ کار نے تعصّب کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ تعصّب کی بُکّل اتار کر بات کی جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ پٹواری سے چیف سیکرٹری تک، سپاہی سے آئی جی تک اور انکم ٹیکس انسپکٹر سے چیئرمین ایف بی آر تک ساری افسر شاہی اگر کسی ایک شخص سے ڈرتی تھی تو وہ افتخار چوہدری تھے۔کسی قسم کی دھاندلی میں تو ان کا کوئی رول نہیں ہوگا مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ موصوف وکلاء برادری کو اپنا محسن سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے اپنے محسنوں کوقانون سے بالا تر قرار دے دیا تھا۔ انہیں کسی بھی قانون کی خلاف ورزی کرنے کی کھلی چھوٹ تھی۔ ایسا کرنے سے افتخار چوہدری صاحب نے ضلعی عدلیہ کو کمزور کیا۔ وکیلوں نے عدالت کے چبوترے پر چڑھ کر ججوں کو گالیاں دیں، انہیں تھپّڑ مارے اور کھڑے کھڑے چیف جسٹس کو فون کرکے سیشن ججوں کے تبادلے کرادئیے۔ سیشن جج وکیلوں کے سامنے اس قدر خوف زدہ اوربے بس ہوگئے کہ ان کی بلا خوف انصاف کرنے کی صلاحیتّیں سلب ہوکررہ گئیں۔ ضلعی عدالتیںمنہ زور وکلاء کے آگے ڈھیر ہوگئیں اور انصاف ہائی جیک ہوگیا۔ ضلعی عدالتوں کو ریفارم کرنے اور انہیں مضبوط بنانے کی بجائے انہیں کمزوراور وکیلوں کا محتاج بنا کر سابق چیف جسٹس نے اتنا بڑا ظلم کیا ہے کہ جس کا خمیازہ انصاف کیلئے ترستے ہوئے اس معاشرے کو کئی دھائیوں تک بھگتنا پڑے گا۔ مشرف کے ہاتھوں جج صاحبان کی تذلیل میرے لئے ایک بہت بڑے صدمے کا باعث تھی، اسی لئے میں نے بحیثیت ڈی آئی جی کوہاٹ کام کرنے سے انکارکردیااور کوہاٹ ڈویژن میں ایک وکیل بھی گرفتار نہیں ہوامگر پوری قوم وکلاء کے ساتھ اس لئے کھڑی نہیں ہوئی تھی کہ وہ انصاف کے پورے نظام کو ہی یرغمال بنالیں۔
باخبر حضرات (جن میں جج اور وکیل دونوں شامل ہیں) بتاتے ہیں عدالتوں کی وکیلوں کے سامنے بے بسی ڈسٹرکٹ کورٹس تک محدود نہیں رہی۔ اس عفریت کے پنجے عدالت ِعالیہ تک بھی پہنچ چکے ہیں اور اس کا تجربہ اور مشاہدہ لوگ ہرروز کرتے ہیں اور عزیزوں، دوستوں اور میڈیا کو ظلم اور زیادتی کی کہانیاں سناتے ہیں۔
ظلم کی ایک داستان آپ بھی سن لیں۔
وکلاء تحریک کے دوران 4مئی 2007ء کو ساہیوال بار کے وکلاء نے مشعل بردار جلوس نکالنے کا پروگرام بنایا ۔ ہرجگہ دفعہ 144نافذ تھی۔ اس وقت کے ڈی پی او نے بار کے صدر شیخ عثمان کو پیغام بجھوایا کہ جلوس احاطہ کچہری میں ہی نکال لیں، باہر نہ آئیں۔ وکلاء مشعلیں روشن کرکے کچہری سے باہر آنے لگے تو پولیس نے انہیں روکنے کی کوشش کی اس مڈبھیڑ میںکچھ وکلاء گرگئے جس سے مشعلیں بھی گریں اوراس سے چند وکلاء کو معمولی burnsآئے۔
اس واقعے پر وکلاء اور پولیس دونوں کی طرف سے مقدمہ درج ہوا جو خارج ہوگیا۔ بعدازاں وکلاء نے انسدادِ دہشت گردی عدالت ملتان میں استغاثہ دائر کیا جس میں لکھا گیا کہ’’ وکلاء نے مشعل بردار ریلی نکالی تھی کہ پولیس بار روم کے اندر آگھسی جس نے آکر بوتلوں اور سرنجوں میں پٹرول بھر کر وکیلوں پر پھینکا اور اس طرح انہیں جلا کر زخمی کردیا‘‘۔
آٹھ پولیس افسروں کے خلاف قائم ہونے والا یہ استغاثہ ملتان کی عدالت میں چار سال تک چلتا رہا بعدمیں مارچ 2011ء میں وکلاء کے کہنے پر یہ مقدمہ انسدادِ دہشت گردی عدالت فیصل آباد میں منتقل کردیا گیا۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کے جج صاحبان سیشن جج کے عہدے کے ہوتے ہیں مگر فیصل آباد میں ایک ایڈیشنل سیشن جج کو اس عدالت کا سربراہ مقرر کرایاگیا۔ کمزور شہادت کے باعث سیشن جج صاحبان سزا دینے پر آمادہ نہ ہوئے مگر ایڈیشنل سیشن جج نے فیصلہ سنادیا اور سات پولیس افسران کو (جن میں دو ڈی ایس پی، تین انسپکٹر، ایک سب انسپکٹراور ایک کانسٹیبل شامل ہے)، بتیس بتیس سال قید کی سزاسنائی۔ ان پولیس افسروں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا جہاں وہ کئی سالوں سے بے یارومددگار پڑے ہوئے ہیں۔
دو تین سال ہوتے ہیں دفتر میں چِٹ آئی کہ کچھ خواتین ملنا چاہتی ہیں۔بلایا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ ساہیوال جیل میں ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹنے والے پولیس افسروں کی مائیں، بیویاں اور بیٹیاں ہیں انہوں نے ظلم کی داستان سنائی تو دفتر میں موجود ہرشخص رنجیدہ ہوگیا۔ ایک گھنٹے تک مائیں روتی رہیں، بیٹیاں چیختی رہیں اور بیویاں دھائی دیتی رہیں کہ ہمیں بھی ماردیں۔ ہم تو ویسے بھی اب زندہ لاشیں ہیں ایسی زندگی سے موت ہی بہتر ہے....’’وکیلوں پر پٹرول پھینکنے کا الزام درست ہوتو ان کے عزیزوں کو پھانسی دے دی جائے مگر ہمیں کوئی جرم نہ کرنے پر بتیس بتیس سال قید کی سزا دے دی گئی ہے....اور کوئی جج وکیلوں کے دباؤ کی وجہ سے اپیل سننے کیلئے تیار نہیں ہے‘‘۔
دہشت گردی قانون کے تحت اپیل کا فیصلہ سات دنوں میں ہونا ضروری ہے.....مگر ان پولیس ملازمین کی اپیل سننے کیلئے کوئی تیار نہ ہوا۔ ہائیکورٹ میں ان کی اپیل بارہ دفعہ لگی مگر دوسری جانب ساہیوال بار اور ہائیکورٹ بار کے عہدیدارآجاتے جنہیں دیکھ کر عدالت ِعالیہ کے جج صاحبان اسے ہاتھ لگائے بغیر ہی رکھ دیتے۔ یہ اس لئے بھی ہوا کہ پورے ملک میں انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے ذمہ دار افتخار چوہدری صاحب اس کیس کے مدعیوں کو ہائیکورٹ کے جج صاحبان سے یہ کہہ کر ملاتے رہے تھے کہ ’’یہ میرے جانثار ہیں ان کا خاص خیال رکھنا ہے‘‘۔
پچھلے دنوں ایک شادی پر ساہیوال کے کچھ شہری ملے۔انہوں نے جیل میں بند ان قیدیوں کے لواحقین کی کسمپرسی کا احوال سنا کر آزرُدہ کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’پولیس ملازمین کو سزا ہوجانے کے باعث سروس سے برخاست کردیا گیاتھا اس لئے ان کے لواحقین معاشی مسائل اور مالی پریشانیوں میں گھر گئے۔نہ باپ موجود ہے نہ وسائل ہیں اور نہ کوئی کمانے والا رہ گیا اس لئے ان کی جوان بیٹیوں کی شادیاں نہ ہوسکیں اور فیسیں نہ دینے کی وجہ سے چھوٹے بچوں کو سکولوں سے نکال دیا گیااور نوبت فاقوں تک آگئی ہے‘‘۔
شہریوں کا کہنا تھا کہ ’’ساہیوال کا ہر شخص جانتا ہے کہ جیل میں بندچار پولیس ملازموں میں سے دو موقع پر موجود ہی نہیں تھے۔حالت یہ ہے کہ قید کاٹنے والوں میں سے دو بینائی کھو چکے ہیں، ایک دل کے عارضے میں مبتلا ہے اور چوتھا شوگر اور بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا ہوچکا ہے‘‘ ۔ میں نے پوچھا ایک ڈی ایس پی کی بیٹی اور ایک انسپکٹر کی والدہ کی درد بھری پکار ابھی تک نہیں بھولتی ان کا کیا حال ہے؟ کہنے لگے ’’ ڈی ایس پی معین حفیظ جیل میں بیمار پڑگئے تھے نہ کوئی معالج میسر آیا نہ تیماردار وہ جیل میں ہی انتہائی کسمپرسی کی حالت میں وفات پاگئے۔ انسپکٹر اظہر عباس کی والدہ اور بھائی اسی کے صدمے کی وجہ سے وفات پاچکے ہیں ۔ ماں کو اظہر کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا‘‘۔
بزرگوں سے سنا ہے کہ یومِ حساب ،خالق کے ہاں سب سے زیادہ اجر عادل منصف کا ہوگا مگر امتحان بھی سب سے کڑاہوگا اور دنیا کے منصفوں کو بارگاہِ الہٰی میں پابجولاں پیش کیا جائے گا۔ انصاف کی مسندوں پر بیٹھنے والوں کو مطلوبہ معیار کا بخوبی علم ہوگا۔ انسانوں کو انصاف کا تصوّر دینے والے خالق نے واضح طور پر حکم دیا ہے کہ
.....’’ انصاف کرو چاہے تمہارے انصاف کی زد تمہارے عزیزواقارب پر، تمہارے والدین پر یا تمہاری ذات پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو‘‘۔ یعنی حکم ہے کہ قریب ترین لوگ بھی ناراض کرنے پڑیں تو بھی انصاف کرو.....چاہے تمہارے منصفانہ فیصلے سے تمہاری اپنی ذات کو ہی نقصان کیوں نہ پہنچتا ہو۔ مطلب واضح ہے کہ تمام بار ایسوسی ایشنوں کے عہدیداراکٹھے ہوکر تم پر دباؤ ڈالیں پھر بھی اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انصاف کرواور اگر میزانِ عدل کا توازن برقرار نہیں رکھ سکتے تو انصاف کی مسند چھوڑ دو۔ کائناتوں کے مالک نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’کسی گروہ کی دشمنی تمہیں اتنا مشتعل نہ کردے کہ تم انصاف کا دامن چھوڑ دو‘‘۔ انصاف کرنابلاشبہ مشکل کام ہے اگر مسند ِانصاف پر بیٹھنے والے ایک فریق کو اپنا محسن قرار دیکر فیصلوں میں اس کے ’’احسان‘‘کا بدلہ چکانے لگیں گے تو عام آدمی کو انصاف کیسے ملے گا؟ اگر ایک فریق اپنی مرضی کا جج مقرر کروائے پھر اپنا مقدمہ بھی اسی کے پاس لگوائے اور اپنی خواہش کے مطابق فیصلہ کرالے تو عوام انصاف کیلئے کس دروازے پر دستک دیں؟ کس دیوار سے سرٹکرائیں؟محض وکیلوں کو خوش کرنے کیلئے بے گناہوں کو تیس سال قید کی سزا دے دینا ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟جیل میں ہی جان دینے والے ڈی ایس پی معین کی معصوم بیٹی کی وہ بات نہیں بھولتی جب اس نے روتے ہوئے کہا تھا کہ’’ یہاں کی عدالتوں سے انصاف کی کوئی امید نہیں ہے میں محشر کے روز پیارے نبیؐ کا دامن پکڑ کر انصاف مانگوں گی‘‘ ۔ بچّی نے رحمۃ للعالمین ﷺکا دامن پکڑ لیا تو ہر ظالم کو حساب دینا پڑے گا اورپھر کسی چیف کے جانثار کام نہ آسکیں گے۔ بنیادی طور پر ایک وکیل ہونے کے باوجود میں نہیں سمجھتا کہ یہاں انصاف ختم ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب اعلیٰ اوصاف کے مالک ایک بہترین منصف ہیں وہ براہ ِ کرم اس کاضرور نوٹس لیں کہ ایک ایڈیشنل سیشن جج دہشت گردی عدالت کا سربراہ کیسے بن گیا؟۔کسی ڈاکو یا دہشت گردکو تو کبھی اتنی سزا نہیں ملی مگر کوئی شہادت نہ ہونے کے باوجود پولیس افسروں کو تیس بتیس سال سزا کیسے دے دی گئی؟ جس عدالت ِعظمیٰ میں جسٹس جواد خواجہ ، جسٹس ثاقب نثار، جسٹس آصف سعیدکھوسہ، جسٹس اعجازافضل، جسٹس اعجازاحمد چوہدری،جسٹس عظمت سعید، جسٹس اقبال حمیدالرحمٰن جیسے اعلیٰ پائے کے جج صاحبان موجود ہوں، وہاں انصاف کیوں نہیں ملے گا.....ایسے منصفین کی موجودگی میں عوام کی جان ومال کے محافظوں کے ساتھ اس قدر ظلم ہو اور اس کا نوٹس نہ لیا جائے .....میں نہیں مان سکتا، ایسا نہیں ہوسکتا!! مائی لارڈز اس ظلم کا خاتمہ کیجئے! اس سے انصاف کے تقاضے بھی پورے ہونگے اور عوام کے محافظوں کا زمین کو چھوتا ہوا مورال بھی بہتر ہوگا۔