افغانستان میں کئی ماہ کے سیاسی انتشار اور غیر یقینی صورت حال کے بعد کابل میں ایک نئی حکومت کی شروعات ملک کے لئے امید کی کرن کی حیثیت رکھتی ہے۔ قومی اتحادی حکومت نے حریف سیاسی گروہوں اور واضح نسلی پس منظر والے ان کے مختلف اتحادیوں کے درمیان شراکت اقتدار کا ایک بے نظیر تجربہ کیا ہے۔تاہم اس سے ملک کو ایک مستحکم راہ پر ڈالنے اور منظم شاہراہ پر گامزن کرنے کا موقعہ حاصل ہورہا ہے تاکہ انتظامی امور کی منتقلیوں کے درپیش چیلنجز سے نمٹا جاسکے جن میں سلامتی، معاشی، سیاسی اور علاقائی چیلنجز شامل ہیں۔اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ اتحاد کو درپیش سب سے پہلا اور فوری چیلنج امریکا کی ثالثی میں کرائے گئے اتحادی معاہدے کو بچانا ہے جس نے انتہائی متنازع الیکشن کے بعد سیاسی تبدیلی کو ممکن بنایا۔ کئی لوگ اسے امریکا کے دباؤ پر کرائی گئی جبری شادی قرار دیتے ہیں، لیکن یہ حکومت دونوں رہنماؤں کے اس اعتراف کی عکاسی کرتی ہے کہ ساتھ مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کہ اگر ان کا معاہدہ ٹوٹ گیا تو ملک کو تباہ کن نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔دونوں کو یہ بات پتہ ہے کہ بین الاقوامی امداد اور معاونت اسی وقت آئے گی جب دونوں ساتھ جڑے رہیں گے۔ انہیں یہ بھی اچھی طرح پتہ ہے کہ اگر ان کا اتحاد نہیں چل سکا تو افغان سیکورٹی فورسز کے بکھرنے کا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔اس کے باوجود اس قومی اتحاد کے استحکام اور طویل مدتی بقا کے حوالے سے سوالات مسلسل پیدا ہوتے رہیں گے۔ ہمیشہ کی طرح اصل مسئلہ اس پیچیدہ انتظام کو چلانے کا ہے۔ چونکہ یہ کافی محنت طلب کام ہوسکتا ہے، تو امریکی حکام اس اتحاد کو بچانے کے لئے کتنی مدد کریں گے؟
صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ کیلئے اپنے حامیوں کے نازک اتحادوں کو سنبھالنا مشکل ترین چیلنج ہوگا، جن میں علاقائی طاقتور شخصیات اور سابق وار لارڈز شامل ہیں جو بدستور ایک دوسرے کے سخت حریف ہیں۔ دونوں رہنماؤں کو بالخصوص اہم تقرریوں میں ایک دوسرے کے لئے مثالی فیاضی کا مظاہرہ کرکے متوازی حکومتوں کے خطرے کو ٹالنا ہوگا۔
دوسرا اہم ترین چیلنج مسلح اپوزیشن طالبان کے موقف اور ان کی سرگرمیوں کا سامنا کرنا ہے جنہوں نے ماضی کی غیر یقینی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خاص طور پر جنوب اور مشرقی علاقوں میں حملے کافی بڑھا دیے ۔ طالبان کی حکمت عملیوں میں بھی تبدیلی نظر آرہی ہے کیونکہ انہوں نے بارودی سرنگوں پر انحصار کی جگہ وسیع پیمانے پر زمینی کارروائیاں شروع کردی ہیں۔اگرچہ سیاسی امور کی منتقلی کا ایک حصہ مکمل ہوچکا ہے تاہم ایک کامیاب تبدیلی کا مطلب محض انتقال اقتدار ہی نہیں ہوتا۔ اس کے دیگر اہم پہلوؤں میں شامل ہے ایک امن عمل کا آغاز کرنا جس میں حصہ لینے کے لئے طالبان کو آمادہ کیا جاسکے تاکہ سیاسی تصفیے کی راہ ہموار ہوسکے۔حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں صدر اشرف غنی نے عندیہ دیا کہ ان کے ایجنڈے میں مفاہمت کو ترجیح دی جائے گی، لیکن سوال یہ ہے کہ طالبان کو سیاسی دھارے میں لانے کے لئے انہیں کس طرح کے شارٹ کٹ کی پیش کش کی جائے جس میں حصہ لینے میں وہ فائدہ محسوس کریں۔ “غنی کرزئی نہیں ہیں” یہ پہلو یقیناً مفاہمتی اقدام کا راستہ کھولے گا۔فی الوقت طالبان کے ترجمانوں نے اشرف غنی کی مذاکرات کی پیش کش مسترد کرتے ہوئے ان کی حکومت کو “میڈ ان امریکا” یعنی امریکا ساختہ قرار دیا ہے۔ لیکن یہ حرف آخر نہیں کیونکہ شاید طالبان رہنماؤں کو یہ احساس ہورہا ہے کہ ان کے جنگجو ایک لامتناہی جنگ کی تھکاوٹ کا شکار ہورہے ہیں۔
جنگ کے مسئلے کا سیاسی حل نکالنا افغانستان کے پائیدار استحکام کے لئے بہت ضروری ہے۔ تمام اشارے اس بات کے ہیں کہ پورے ملک پر چڑھائی کرنا طالبان کے بس میں نہیں اور کابل پر قبضہ تو بہت ہی مشکل ہے۔ تاہم یہ بھی ایک سچ ہے کہ ہزاروں نیٹو فوجی بھی بغاوت کو کچلنے اور پورے ملک پر کنٹرول قائم کرنے کیلئے افغان حکومت کے کام نہ آسکے۔ اس پرتشدد ڈیڈلاک کے تسلسل کو روکنے کا واحد حقیقت پسند طریقہ بات چیت کے ذریعے جنگ کا اختتام ہے۔اور یہ بہت زیادہ ضروری ہے کیونکہ آئندہ ماہ میں نیٹو کا لڑاکا مشن ختم ہونے کے بعد سیکورٹی امور کی منتقلیوں سے متعلق خدشات پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ افغان سیکورٹی فورسز نے صدارتی انتخابات کے دونوں مرحلوں کو محفوظ بنانے کے لئے واقعی عمدہ کارکردگی دکھائی ہے، لیکن نیٹو فوجوں کی واپسی کے بعد افغان نیشنل آرمی کے میدان میں جمے رہنے کی صلاحیت سے متعلق سوالات موجود ہیں۔
ان دنوں افغان سیکورٹی فورسز شدید جانی نقصان کا سامنا کررہی ہیں۔ صرف اس موسم گرما میں افغان فورسز کے اہلکاروں کی ہلاکتوں کی تعداد 13 سالہ جنگ میں نیٹو فورسز کے مارے گئے فوجیوں کی تعداد سے زیادہ ہوگئی۔ تربیت کا فقدان اور حوصلہ اور نسلی توازن کے مسائل بدستور درپیش ہیں۔ مزید برآں ملک کی دفاعی اسٹیبلشمنٹ 2014 سے پہلے والی فضائی، انٹیلی جنس اور لاجسٹیکل مدد دینے کا مطالبہ کررہی ہے۔ یہ غیر واضح رہے کہ امریکا اس ضمن میں باالخصوص فضائی حملوں کی صلاحیتوں کے حوالے سے کیا مدد فراہم کرے گا ۔نئی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی واشنگٹن کے ساتھ کافی تاخیر کا شکار ہونے والے دو طرفہ سیکورٹی معاہدے پر دستخط کردیے ہیں تاکہ امریکا و نیٹو کی بقایا فوج ملک میں موجود رہے۔ تقریباً 12 ہزار فوجیوں پر مشتمل یہ چھوٹی فورس جسے تربیت و مشورے اور انسداد دہشت گردی مشن کی ذمہ داری دی گئی ہے ایک بڑھتی ہوئی بغاوت سے کس طرح نمٹ سکے گی، یہ بدستور ایک مشکل سوال ہے۔ کیونکہ پہلے ہی ایک بہت بڑی فورس جس کے پاس فضائی حملوں کی صلاحیتیں بھی تھیں، طالبان کو شکست دینے کا فوجی ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔
نئی حکومت کی معاشی امور کی منتقلیوں کو سنبھالنے کی صلاحیت سیکورٹی صورتحال پر اہم اثرات مرتب کرے گی کیونکہ امداد کی سطح کم ہونے لگی ہے۔ اس میں سرکاری ملازمین اور سیکورٹی فورسز کو تنخواہوں کی فوری ادائیگیوں کے ساتھ ساتھ مغربی افواج کے انخلاء سے پیدا ہونے والے کساد بازاری کے معاشی اثرات کا پہلو بھی شامل ہے۔
آئندہ تین ماہ اس بات کا تعین کریں گے کہ غنی عبداللہ اتحاد کس طرح ان ناگزیر چیلنجز سے نمٹتا ہے اور کیا وہ سلامتی، مفاہمت اور معیشت کی تپائی پر استحکام قائم کرسکتا ہے۔پاکستان اس بدلتی ہوئی صورت حال کو کس طرح دیکھ رہا ہے؟ پاکستان نئی افغان حکومت کی آمد اور ناقابل پیش گوئی حامد کرزئی کی رخصت کو پڑوسی ملک کے ساتھ زیادہ قریبی تعاون کرنے اور ماضی قریب میں پیدا ہونے والے اختلافات کو حل کرنے کا ایک موقع سمجھتا ہے۔اسلام آباد پہلے ہی اس بات کا اشارہ دے چکا ہے کہ وہ کابل میں آنے والی نئی انتظامیہ کو سیاسی، معاشی اور سلامتی ہر ممکنہ مدد فراہم کرنے کے لئے تیار ہے۔ اور اگر اس سے کہا جائے تو وہ کابل اور طالبان میں سیاسی مفاہمت کرانے کے لئے معاون کردار ادا کرنے کے لئے بھی تیار ہے۔2014 کے مابعد اپنی سرحد کو محفوط بنانا پاکستان کی پہلی ترجیح ہوگی۔ شمالی وزیرستان میں اس کے فوجی آپریشن کا مقصد فاٹا میں مختلف عسکریت پسندوں کے آخری مرکز کا خاتمہ کرنا تھا۔ آپریشن کے ذریعے وہاں موجود عسکریت پسندی کے ڈھانچے کو تباہ کردیا گیا ہے۔ نیٹو افواج کے انخلا سے قبل ہونے والا یہ آپریشن سرحد کو محفوظ بنانے کی ایک فیصلہ کن سعی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ملک کو درپیش خطرناک اندرونی سیکورٹی چیلنج کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ آپریشن سرحد کو مستحکم بنانے اور علاقائی سلامتی میں اضافے کا باعث بھی بنے گا۔یہ پاکستان اور افغانستان کیلئے سرحدی سیکورٹی کے مشترکہ منصوبوں پر عملدرآمد کرنے اور دونوں اطراف محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنے کی راہ بھی ہموار کرے گا۔ ماضی میں پاکستان کی جانب سے سرحدی کنٹرول کیلئے زیادہ بہتر طریقہ کار متعارف کرانے کی تجاویز دی گئی تھیں تاہم ان پر کرزئی حکومت کا معمولی ردعمل سامنے آیا جس کے باعث پاکستان کو مایوسی ہوئی۔ مثال کے طور پر آپریشن ضرب عضب کے آغاز سے پہلے اور اس کے بعد بھی سرحد کے دوسری جانب کوئی مفید فوجی کوشش نہیں کی گئی۔ رواں سال کے اوائل میں بھی پاکستان نے افغان حکومت کو دو طرفہ سرحدی ایس او پیز کی تجویز دی تھی تاکہ ایساف، افغانستان اور پاکستان کے درمیان سہ فریقی ایس او پیز کو بدلنے اور اپ گریڈ کرنے کیلئے تعاون کا ایک طریقہ کار وضع کیا جاتا۔ اس پر بھی کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا۔
اسلام آباد کو امید ہے کہ نئی افغان حکومت میں یہ صورت حال تبدیل ہوجائے گی کیونکہ دونوں فریقوں کو ایک نئی شروعات کا موقع مل رہا ہے۔ اگرچہ اسلام آباد کو افغانستان میں اقتدار کی منتقلیوں کے گرد موجود نامعلوم لوگوں کے حوالے سے سیکورٹی خدشات لاحق ہیں تاہم اسے یقین ہے کہ اسے اور افغانستان کو پائیدار علاقائی امن و استحکام کے قیام کا ایک تازہ موقع ملا ہے۔ لیکن ایسے مثبت نتیجے کا انحصار بنیادی طور پر اس بات پر ہے کہ نئی افغان حکومت اپنے اندرونی چیلنجز اور سیاسی اختلافات سے کتنی کامیابی کے ساتھ نمٹتی ہے۔ نیز اس کا دارومدار بیرونی فریقوں کے کردار اور خاص طور پر اس امر پر بھی ہوگا کہ افغانستان میں عدم مداخلت کے علاقائی اتفاق رائے کا نفاذ ہوتا ہے یا نہیں۔ اس میں یہ عہد بھی شامل ہے کہ افغانستان میں ہر کوئی یکساں اصولوں سے کھیلے گا اور ایک امکانی تغیراتی صورتحال میں کوئی بھی علاقائی طاقت کسی سیکورٹی خلاء کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرے گی۔ یقیناً کسی بھی علاقائی ملک کو کوئی برتر یا غالب کردار نہیں دیا جانا چاہیے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ علاقائی دشمنیوں کو دعوت دینے کا سبب بنے گا اور ماضی کے ان متعدد گریٹ گیمز کے ایک مختلف نمونے کی نمائندگی کرے گا جو افغانستان، خطے اور پاکستان میں شدید دکھوں کا باعث بن چکے ہیں۔