• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتظار حسین ہمارے ہاں مطبوعہ حرف کے احترام کا نشان ہیں۔ ایسے بزرگوں کے قلم سے تصحیح ہونا تادیب کا مضمون نہیں، اعزاز کہلائے گا۔ خاکسار سے گزشتہ کالم میں دو واقعاتی سہو ہوئے۔ مجادلہ تو تاثیر اور حسرت ہی میں تھا لیکن تاثیر کا شعر حسرت کے نام لکھا گیا اور دوسری لغزش یہ ہوئی کہ روزنامہ ’مغربی پاکستان‘ کی بجائے روزنامہ ’وفاق‘ لکھ دیا۔ ایک موقر معاصر میں انتظار صاحب نے دونوں غلطیوں کی نشان دہی کی ہے۔ شکر گزارہوں اور پڑھنے والوں سے معذرت چاہتاہوں۔ ’چراغوں کا دھواں ‘ پاس ہی رکھی تھی، اٹھا کر نظر ڈال لی ہوتی تو غلطی کا احتمال نہ رہتا۔ تاریخ کا بیان ہو تو لکھنے والے کو محتاط رہنا چاہئے۔ ذرا آنکھ چوک جائے تو حامد کی ٹوپی محمود کے سر پہنچ جاتی ہے۔ انتظار صاحب بنوٹ کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ پھکیت ایسے کہ جہاں حریف کی کنی دبتے دیکھی، چوٹ پر چوٹ لگائے جاتے ہیں۔ سانس لینے کی مہلت نہیں دیتے۔ دو مذکورہ پالیاں انتظار صاحب کے نام رہیں تو انہوں نے تیسرا نکتہ بھی اٹھایا۔ خاکسار نے لکھا تھا کہ ’’قائداعظم اردو نہیں جانتے تھے۔ اس سے ان کی شان میں کیا کسر آئی‘‘۔ مطلب واضح تھا کہ کوئی خاص زبان بولنا رہنمائی کا معیار نہیں ۔ انتظار صاحب نے بھی یہی لکھا کہ جناح صاحب نے تو سیاسی لڑائی انگریزی زبان میں لڑی تھی۔ معلوم نہیں ہو سکا کہ میں نے اس حقیقت سے کہاں انکار کیا تھا۔ انتظار حسین جیسے عالی ظرف اور شفیق انسان کے بارے میں یہ سوئے ظن باور نہیں ہوتا کہ انہیں اس نیاز مند پر اردو سے کسی تعصب کا اندیشہ گزرا ہو۔ دلیل یہ دی جارہی تھی کہ سیاسی مکالمے میں زبان کی قید نہیں نیز یہ کہ سیاسی رہنمائوں کو اپنی رائے دیتے ہوئے شائستگی کا خیال رکھنا چاہئے۔ ’چراغوں کا دھواں ‘ہی میں کچھ سطریں 1970 ء کے ان ہنگامہ خیزدنوں کے بارے میں ملتی ہیں جب پوری قوم اسلام پسندوں اور سوشلزم کے جوشیلے حامیوں میں بٹ گئی تھی۔ ٹولنٹن مارکیٹ کے قریب شورش کاشمیری اور کوثر نیازی میں آمنا سامنا ہوگیا۔ دلیل سے آوازے تک نوبت پہنچی۔ بالآخر ہاتھا پائی ہوگئی۔ اس بیچ میں نصف صدی گزرگئی۔ ہم نے اسلام پسندوں کی حمیت بھی دیکھ لی اور سوشلسٹ بھائیوں کی استواری بھی آزمالی۔ اب دونوں بزرگ اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ان کی ٹیکریوں پر بہت سی گھاس بھی اگ آئی ہے لیکن اس واقعے کا بدنما نشان ہماری تاریخ میں باقی رہ جائے گا۔ سیاست کو ذاتیات کی سطح پر نہیں اترنا چاہئے۔
اب دیکھئے، شیخ رشید صاحب نے بلاول بھٹو پرپھبتی کہی ہے اور ایسے نامناسب لفظوں میں کہ اسے نقل کرنا بھی ابتذال کے زمرے میں آئے گا۔ اس ضمن میں دو بنیادی نکات بیان کئے جا سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ سیاست انسانی مکالمہ ہے ۔ اس میں انسانی امنگوں کی پرداخت کی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کے تحفظات دورکرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اختلافات کو بیان کیا جاتا ہے۔ حریف کے مؤقف کی کمزوری واضح کی جاتی ہے۔ مکالمہ مگر مناظرہ نہیں ہوتا۔ سننے اور پڑھنے والوں کے سامنے دلیل رکھ دی جاتی ہے اور مفروضہ یہ ہوتا ہے کہ مخاطب اپنے شعور اور ضمیر کی روشنی میں فیصلہ کرے۔ اس مکالمے میں فرد کا احترام بنیادی شرط ہے۔ سیاسی رائے ایک اجتماعی بیان ہوتا ہے، اس میں خلوت کی بے تکلفی کو دخل نہیں۔ پھکڑ اور ہزل تو ایک طرف، سیاست میں بے تکلف لب و لہجہ بھی نامناسب سمجھاجاتا ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا، صدر اوباما نے ایک خاتون صحافی کو پریس کانفرنس میں بے تکلفی سے مخاطب کیا۔ ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ امریکی صدر کو معذرت کرنا پڑی۔
ہمارے ایک سابق صدر کینیڈا کے دورے پرتھے۔انہوں نے اپنے ہی وطن کی بہنوں اور بیٹیوں کے بارے میں ایسی نازیبا بات کہی کہ بیرون وطن خفت اٹھانا پڑی۔ نامعلوم کس نے ہمیں بتا دیا ہے کہ ایسی فروگزاشتوں کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اپنے ہاں تو ہم ایسی کوتاہیوں پر گرفت نہیں کرتے، یہی عادت پختہ ہو جاتی ہے اور وطن کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ شیخ رشید 1985ء کی قومی اسمبلی میں قومی سیاست پر نمودار ہوئے تھے۔ تیس برس گزر گئے۔ نمرود کی خدائی کے دن تھے۔ شیخ صاحب نے ضلع جگت اور غیر شائستہ جملے بازی میں نام پیدا کیا ۔ سیاسی جلسوں میں سیاسی حریفوں پر ایسے لفظوں میں حملے کرتے تھے کہ اخبار میں نقل نہیں کئے جا سکتے تھے۔ اس دور کے کچھ قصے ملک محمد حسین سے پوچھ لیجئے گا جو ان دنوں ڈی جی پی آر تھے۔ پھر شیخ صاحب نے یہی مہارت اسمبلی کے فلورپر آزمائی۔ زبان کی ایسی ہی لغزشوں کا انجام یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کے تیسرے دور حکومت میں جیل جا پہنچے۔ سیاسی انتقام کا دفاع نہیں کیا جا سکتا تاہم جاننا چاہئے کہ وہ پورا عشرہ ہماری تاریخ میں افراط و تفریط کا بدنما باب تھا۔ پرویز مشرف کی حکومت میں شیخ رشید آمریت کے نفس ناطقہ ٹھہرے۔ نوجوانی کے کچھ عرصے کو چھوڑ کر شیخ صاحب نے سیاسی ابتلا سے کنی کاٹ کر نکلنا ہی مناسب سمجھا۔ وہ اقتدار اوررسوخ کے پانیوں میں محفوظ ساحل پہ کھڑے ہو کے حریفوں کو للکارنے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ شیخ صاحب جوانی سے گزر کر پختگی کی منزلوں میں آ گئے ہیں۔ اب ان کے لب و لہجے میں بھی عمر اور تجربے کی مناسبت سے تبدیلی آنی چاہئے۔
حالیہ مہینوں میں ایک ناخوشگواررجحان یہ سامنے آیا کہ ہمارے سیاسی مکالمے میں جنسی کنائے اور صنفی طعن طنز نے پھر سے راہ پا لی ہے۔ تحریک انصاف کے جلسوں پرصنفی اشاروں کا سلسلہ مسلم لیگ نواز کی دوسری اور تیسری صفوں سے شروع ہواتھا۔ اب خیر سے مولانا فضل الرحمٰن نے بھی اس زمین میں گرہ لگائی ہے۔ جمہوری سیاست میں عورت اور مرد یکساں احترام کے مستحق ہیں۔ جسمانی خصوصیات کے بنا پر کسی کو اعلیٰ یا کمتر نہیں گردانا جا سکتا۔ کسی کی جسمانی خصوصیات، قد،رنگ، آواز اور لباس پر حملے کرنا غیرسیاسی رویہ ہی نہیں، تہذیبی طور پر بھی سوقیانہ پن سمجھاجاتا ہے۔ حریفوں کی ذاتی زندگی کو سیاسی دلیل کے طور پر پیش کرنا دلیل کی کمزوری کہلاتا ہے۔ فراست، بہادری اور کردار کا تعلق عورت اور مرد ہونے سے نہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ بہادری مرد ہونے سے تعلق رکھتی ہے تو شیخ رشید صاحب کی جیل یاترا کچھ ایسی قدیم تاریخ نہیں۔ ان کے جیل کے ساتھی ماشااللہ ابھی حیات ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ انسانی جبلت کا بیان سیاست کا مناسب موضوع نہیں۔ شیخ صاحب نے بلاول بھٹو کو نسوانی اندازکا طعنہ دیا ہے۔ نسوانیت نصف انسانیت ہے۔ ہم بغداد کی گلیوں اور دہلی دربار کی اشرافیہ ثقافت سے آگے نکل آئے ہیں۔ شیخ صاحب کے استہزا کا جواب دینا بھی مناسب نہیں۔ علامہ اقبال کا ایک واقعہ سن لیجئے۔ فقیر سید وحید الدین نے روزگار فقیر میں نقل کیا ہے۔ چند نوجوان طالب علم حضرت اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ باتوں باتوں میں یہ قصہ چھڑ گیا کہ فلسطین میں یہودی آبادکاروں نے عرب آبادی کی صفوں میں نقب لگانے کے لئے نوجوان عورتوں کی خدمات حاصل کی ہیں۔ ایک طالب علم نے علامہ اقبال سے پوچھا کہ جناب اس افواہ کی حقیقت کیا ہے۔ اقبال مسکرائے اور اپنے ٹھیٹھ بزرگانہ انداز میں کہا ’’بھائی میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ آپ جیسے نوجوانوں میں سے کوئی وہاں جائے تو البتہ اس دعوے کی تصدیق ہو سکتی ہے۔‘‘
تازہ ترین