کیا سال میں اس سے زیادہ پرکشش کوئی اور موسم ہوگا؟ سہ پہر کے سورج میں قدرے گرمی تو ہوتی ہے اور دھوپ میں کھڑے ہونا آسان نہیں لیکن جیسے جیسے شام قریب آتی ہے، ہوا خوشگوار ہو جاتی ہے۔ یہ سال کا واحد موسم ہے جب آپ کونہ مصنوعی ٹھنڈک کی ضرورت ہوتی ہے نہ گرمائش کی۔ دنیا کے اس حصے میں موسم ِ گرما بہت شدید ہوتا ہے۔ جب چلچلاتے ہوئے سورج میں آپ نہ فٹ پاتھ پر قدم رکھ سکیں اور نہ دیواروں، جو تندور بنی ہوتی ہیں، سے سایہ میسر ہو، تو موسم کی یہ سختی آپ کے موڈ کو بھی برہم کردیتی ہے۔ اگر اُس وقت بجلی چلی جائے تو جی چاہتا ہے کہ فٹ پاتھ کو ادھیڑکر چاروں طرف سنگ باری شروع کردیں۔تاہم جب گرمی کا زور ٹوٹتا ہے تو پنجاب کے میدانوں کا رنگ ڈھنگ بدل جاتا ہے۔ موسم ِ گرما کی تمازت ختم ہونے کے ساتھ ہی گرم مزاجی خوش دلی میں ڈھل جاتی ہے، فضا میں روشنی کا زاویہ تبدیل ہوتے ہی سوچ کے دھارے بھی بدل جاتے ہیں۔ موسم ِگرما میں میدانوں پر آنکھ نہیں ٹھہرتی لیکن رت کیا بدلتی ہے، نظروں کے سامنے گھاس کے میدان اور سرسبز کھیت خضر آسا حیات آفریںپیغام سناتے ہیں۔ اُس وقت حجرہ نشینی سے کنارے کشی اختیا رکرتے ہوئے فطرت کا حصہ بننے کے لیے گھر سے باہر نکل پڑنے کو جی چاہتا ہے۔
اس موسم میں میرا دل نرم ہوکر بھولے بسرے گیت گنگناتا ہے۔ گزشتہ چنددنوںسے مکیش کے گیت یاد آرہے ہیں۔ یوٹیوب کی دنیا کی سیر، جو میرا دل پسند مشغلہ ہے، کرتے کرتے چند ماہ پہلے اتفاق سے یہ گیت…’’اک تو کہ سر اٹھا کے چلا داغ دکھانے‘‘…سننے کو ملا۔ یہ 1940کی دہائی میں بننے والی ایک فلم ’مونیکا‘ کا ہے جو کبھی ریلیز نہ کی گئی۔ اس گیت کی موسیقی آرایس بنرجی ، جنہیں صرف یہی ایک گیت لافانی زندگی میں سرفراز کرنے کے لیے کافی ہے،نے ترتیب دی ۔ ان کی دھن میں مکیش کی آواز کا اتار چڑھائو سننے والوں کو جادوئی دنیا میں لے جاتا ہے۔موسم ِ گرما میں لاہور ناقابل ِ برداشت ہوتا ہے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ انگریز گرمیوں میں پہاڑی مقامات پر چلے جاتے تھے ۔ جب شملہ سے راج دہانی ختم ہوئی تو دریائے سندھ سے لے کر دہلی تک پھیلے ہوئے پنجاب کا عظیم الشان صوبہ مری کے پہاڑی مقام سے کنٹرول ہوتا تھا۔ جب ہم لارنس کالج میں پڑھتے تو اُس وقت مری مختلف ہوتا تھا… اُس طرح کا کچرا گھر نہیں جیسا آج ہے۔ موسم ِ گرما میں پاکستان بھر ، یا کم از کم پنجاب بھر کی خوبصورتی مری کی مال پر دکھائی دیتی۔ دیدہ زیب لباس زیب تن کیے خوبصورت لڑکیاں دکھائی دیتیں۔ ہم جیسے اسکول کے لڑکے بس دور سے ہی دیوانوں کی طرح دیکھتے رہتے۔بالکل اسی طرح ہم سام ریستوران سے ابھرنے والی موسیقی بھی دور سے سنتے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دور تو کیا ، قریب کے ڈھول بھی سہانے لگتے تھے۔ یہ سب اپنی جگہ پر لیکن موسم ِ خزاں میں لاہورعروس البلاد بن جاتا ہے۔اس کی بے مثل خوبصورتی دیکھ کر یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ شہنشاہ جہانگیر اوراُس کی محبوبہ ، نورجہاں، موسم ِ سرما یہاں گزار نے کیوں آتے تھے۔ شہنشاہ اکبر بھی کافی وقت یہیں گزارتے تھے ۔ لاہور کا شاہی قلعہ اُس دور کی یادیں اپنے سینے میں بسائے گزرے وقتوںکا گواہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لاہور دنیا کے آغاز سے ہی موجود ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ کیا اس حیات ارضی میں انسان پر ایسا بھی وقت گزرا ہے جب اُس کی دنیا میں لاہور نہ ہو؟یہ شہر عرصہ ِ نامعلوم سے نہ صرف موجود بلکہ آباد بھی ہے۔ ٹرائے کے آثار کا تو Heinrich Schliemann نے کھوج لگا لیا لیکن بہت سے ایسے شہر ہوں گے جن کو ابھی تک دریافت نہیںکیا جاسکا ہے۔تاہم لاہور محمودغزنوی کے حملوں کی وجہ سے تاریخ کی نظر میں آیا۔ اس نے اپنے خدمت گزار ملک ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کردیا۔ وہ رنگ محل میں مدفون ہے۔ یہ ایک جانی پہچانی حقیقت ہے لیکن اعتراف کہ میں اس سے نابلد تھا تاوقتیکہ علامہ طاہر القادری، جو حس ِ مزاح بھی رکھتے ہیں،نے اس کے بارے میںبتایا تھا۔
عاشورے کا ماتمی جلوس اپنی منزل کربلاگامے شاہ ، جو داتا صاحبؒ کے مزار کے قریب ہے، پہنچنے سے پہلے بھاٹی گیٹ سے گزرتا ہے۔ گزشتہ عاشور کے موقع پر میںنے کافی وقت وہاںگزارا تھا۔ وہ اندرون شہر دیکھنے کا بہتر ین وقت تھا کیونکہ ٹریفک بند کردی گئی تھی۔ آپ آسانی سے پیدل چل سکتے تھے۔ چنانچہ اس یوم عاشور پر بھی میرا دل چاہتا ہے کہ میں پہلے ملک ایاز کی قبر پر فاتحہ خوانی کروں۔ وہ لاہور کے پہلے مسلمان گورنر تھے اور اس شہر کو آباد کرنے میں ان کا بہت اہم کردار ہے۔ ان کے دور میں یہ شہر علم وفضل کا گہوارہ بن گیا تھا۔ جب سکندر، چنگیز اور امیر تیمور کے نام ذہن میں آئیں تو شمشیر بکف گھڑسوار، چڑھتی ہوئی افواج اور ٹاپوںکی آواز سے دل دہل جاتا ہے، لیکن محمود کے مقرر کردہ گورنر، ملک ایاز ، کا نام ذہن میں آتے ہی انکساری اور نرم خوئی کا تصور ابھرتاہے۔ رات کے وقت وہ اپنی خلوت میں غربت زدہ دور کے کپڑے پہنتے اور خود سے کہتے،’’ایاز، قدر ِ خود بشناس‘‘(ایاز اپنی اوقات کو یاد رکھو)۔ میرا خیال ہے کہ موسم کا اثر مجھے جذباتی بنارہا ہے۔ ایک مرتبہ پھر میرے ذہن میں مکیش کا گیت گونج رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے میرے کانوں میں شاہ حسین کی لافانی کافی حامد علی بیلا کی آواز میں،’’مائے نی میں کینوں آکھاں…‘‘ گونجتی رہی۔حامد بیلا ایک درویش انسان تھے ۔ ان کی آواز کا سوز آپ کو آبدیدہ کردیتا ہے۔
اپنے ایک مضمون میںویدال (Vidal) مہاتما بدھ کی تعلیمات سے ایک حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پچاس سال کی عمر کے بعد آپ کو اپنے دنیاوی فرائض کی تکمیل کے بعد سفر اختیار کرکے دنیا کو دیکھنا چاہیے۔ میرے ذہن میں بہت عرصے سے یہ خیال ہے کہ میں سڑک پر چلتے چلتے ایک مزار سے دوسرے مزار تک حاضری دوں۔ میںنے فقیروں کی عبازیب تن کی ہواور دنیاوی رخت و مال پاس نہ ہو۔ قسمت کی خیرات پر جیوں۔تیس سال پہلے میں لال شہباز قلندرؒ کے عرس پر سہون شریف گیا تھا۔ اُ س وقت میرے پاس قیام کی کوئی جگہ نہ تھی۔ ایک مہربان اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر نے مجھے اپنے گورنمٹ کوارٹر کا ایک کمرہ دے دیا۔ تین دن تک میں سہون کی گلیوںمیں چلتا رہا یا مزار کے احاطے میں بیٹھ جاتا۔ سندھ بھر سے خانہ بدوش لڑکیاںعرس میں شرکت کرتیںاور ڈھول کی تھاپ پر دھمال ڈالتیں۔مجھے قلندر کے مزار سے جو دولت ملی وہ ذہنی سکون ہے۔ یہ تجربہ میری یاداشت کا انمٹ حصہ ہے۔ میں ایک مرتبہ پھر اس سفر کو دہرانا چاہتا ہوں، صرف سہون شریف ہی نہیں بلکہ بھٹ شاہ بھی جانے کو دل چاہتا ہے۔ میں وہاں جانا چاہتا ہوں اور میرے ساتھ کچھ دنیاوی متاع بھی ہو… بہت مال ودولت نہیںبلکہ کتابیں اور لیپ ٹا پ کیونکہ ان کے بغیر شامیں زیادہ تنہا ہوجاتی ہیں۔
جس موڈ میں ، میں کالم لکھ رہاہوں وہ اس موسم کا اثر ہے۔ اس وقت میں اپنے جمخانے کے کمرے میں ہوں اور موسم اتنا اچھا ہے کہ پنکھے تک کی ضرورت محسوس نہیںہورہی۔ کھڑکی سے باہر سرسبز منظر ہے اور ہوا کی سرسراہٹ دل کے تاروںکو چھیڑ رہی ہے۔ باہر مال پر پرانی کتابوں کی کچھ دکانیں ہیں۔ اب میں کچھ چہل قدمی کرنا چاہتا ہوں۔ جی چاہتا ہے کہ کہیں کوئی موسیقی کا پروگرام ہو تو وہاں چلاجائوں لیکن ایسا کچھ نہیں۔ میں بادشاہی مسجدکے نزدیک ریستورانوں میں جانا پسندکرتا ہوں۔ اس کا مقصد کھانا کم اور فالسٹف جیسی سوچوں میں گم ہونا زیادہ ہوتا ہے۔ کھانے کے لیے ہیرا منڈی کا پھجا پائے والا بہت عمدہ ہے۔ بہت کم دام اور بہت عمدہ ذائقہ۔ ایسا لگتا ہے کہ زندگی موسم کے ساتھ بدلتی ہے لیکن لاہور صدیوںسے اپنی زندہ دلی برقرار رکھے ہوئے ہے۔